’معیارِ ایمان‘‘

✿۔اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں :
وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا كَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُوا أَنُؤْمِنُ كَمَا آمَنَ السُّفَهَاءُ ۗ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاءُ وَلَٰكِن لَّا يَعْلَمُونَ﴾.
’’اور جب اُن سے کہا جاتا ہے ایمان لاؤ جس طرح لوگ ایمان لائے ہیں، تو کہتے ہیں کیا ہم ایمان لائیں جیسے بے وقوف ایمان لائے ہیں؟ سن لو! بے شک وہ خود ہی بے وقوف ہیں لیکن وہ نہیں جانتے۔‘‘ [البقرة :١٣]
اس آیت میں جن لوگوں کی طرح ایمان لانے کا حکم ہے وہ صحابہء کرام رضی اللہ عنہم ہیں۔

⇚جیسا کہ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، انہوں نے فرمایا :
صَدِّقُوا كَمَا صَدَّقَ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ.
’’یعنی جس طرح محمد کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ نے تصدیق کی ہے تم بھی اسی طرح تصدیق کرو۔‘‘ (تفسير الطبري : ١/ ٣٠٢)

⇚امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ (٣١٠هـ) فرماتے ہیں :
وَإِنَّمَا مَعْنَاهُ: آمِنُوا كَمَا آمَنَ النَّاسُ الَّذِينَ تَعْرِفُونَهُمْ مِنْ أَهْلِ الْيَقِينِ وَالتَّصْدِيقِ بِاللَّهِ وَبِمُحَمَّدٍ ﷺ، وَمَا جَاءَ بِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ وَبِالْيَوْمِ الْآخِرِ، فَلِذَلِكَ أُدْخِلَتِ الْأَلْفُ وَاللَّامُ فِيهِ.
’’اس کا معنی یہ ہے کہ تم بھی اسی طرح ایمان لاؤ جس طرح اہلِ یقین، اللہ، رسول ﷺ، آخرت اور جو اللہ تعالی کی طرف سے رسول لے کر آئے ہیں اس کی تصدیق کرنے والے ایمان لائے ہیں جنہیں تم جانتے ہو، اسی لیے اس ﴿الناس﴾ پر الف لام آیا ہے۔‘‘ (أيضا)

⇚نیز فرماتے ہیں :
فَقَالَ لَهُمْ: آمِنُوا كَمَا آمَنَ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ.
’’اللہ تعالی نے ان سے فرمایا ہے کہ جس طرح محمد ﷺ کے صحابہ ایمان لائے ہیں تم بھی اسی طرح ایمان لاؤ۔‘‘ (تفسیر الطبري : ١/ ٣٠٣)

⇚شیخ عبد السلام بھٹوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’النَّاسُ“ سے مراد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں جو خلوصِ دل سے ایمان لائے اور ایک ہی طرف کے ہو گئے اور اپنے کسی دنیوی نقصان کی پروا نہ کی، منافقین نے انہیں بے وقوف کہا اور اپنے آپ کو عقل مند، کیونکہ اپنے خیال میں انہوں نے دونوں طرف سے فائدہ اٹھایا اور اپنی دنیا کا نقصان نہ ہونے دیا۔ اللہ تعالیٰ نے منافقین ہی کو بے وقوف قرار دیا، کیونکہ ان کا نہ مسلمانوں کے ہاں کچھ اعتبار رہا نہ کفار کے ہاں اور وہ چند روزہ زندگی کے فائدے کے لیے ہمیشہ کی زندگی کا نقصان کر بیٹھے۔ فرمایا یہ ایسے بے وقوف ہیں جنھیں اپنی بے وقوفی کا بھی علم نہیں ۔ اس آیت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی فضیلت ثابت ہوتی ہے کہ منافقین کو ان کے ایمان جیسا ایمان لانے کا حکم دیا گیا۔‘‘ (تفسیر القرآن الكريم، سورہ البقرہ : ١٣)

⇚نیز سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے ’’الناس‘‘ کی تفسیر میں ایک قول یہ بھی مروی ہے کہ اس سے مراد؛ ابوبکر وعمر اور عثمان وعلی رضی اللہ عنہم ہیں۔ (تاريخ دمشق ابن عساكر : ٣٩/ ١٧٧)
یعنی ان سے کہا جاتا ہے کہ ان چاروں کی طرح ایمان لے آؤ۔ تو منافقین یوں کہتے کہ کیا ہم اُس طرح ایمان لائیں جس طرح بے وقوف ایمان لائے ہیں۔ یہاں بے وقوفوں سے اُن کی مراد نعوذ باللہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہوتے، جیسا کہ سیدنا عبد اللہ بن عباس اور عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم سے مروی ہے :
«يَعْنُونَ أَصْحَابَ النَّبِيِّ ﷺ».
’’اس قول میں وہ نبی کریم ﷺ کے صحابہ کو مراد لیتے تھے۔‘‘ (تفسير الطبري : ١/‏٣٠٣)

⇚عبد الرحمن بن زید بن اسلم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
هَذَا قَوْلُ الْمُنَافِقِينِ، يُرِيدُونَ أَصْحَابَ النَّبِيِّ ﷺ.
’’یہ منافقین کا قول ہے اور اُن کی مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ ہیں۔‘‘ (تفسير الطبري : ١/‏٣٠٣ وسنده صحیح)

⇚ابو العالیہ تابعی رحمہ اللہ سے مروی ہے :
قالوا أنؤمن كَمَا آمَنَ السُّفَهَاءُ يَعْنُونَ أَصْحَابَ مُحَمَّدٍ- ﷺ.
’’وہ کہتے ہیں کہ کیا ہم اس طرح ایمان لے آئیں جیسے بے وقوف ایمان لائے ہیں، ان کی مراد اصحابِ محمد ﷺ ہوتے۔‘‘ (تفسير ابن أبي حاتم : ١/ ٤٦)
اس سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو – نعوذ باللہ – بے وقوف سمجھنا منافقین کا طرزِ فکر ہے۔

✿۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ایمان کے معیار ہونے پر یہ آیت بھی دلیل ہے :
﴿فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنتُم بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوا ۖ وَّإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا هُمْ فِي شِقَاقٍ ۖ فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللَّهُ ۚ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ﴾.
’’پھر اگر وہ اس جیسی چیز پر ایمان لائیں جس پر تم ایمان لائے ہو تو یقیناً وہ ہدایت پا گئے، اور اگر اس سے منہ پھیریں تو وہ ہٹ دھرمی پر اتر آئے ہیں۔ لہٰذا اللہ ان کے مقابلے میں آپ کو کافی ہے اور وہ خوب سننے والا اور سب کچھ جانتا ہے۔‘‘ [البقرة : ١٣٧]
مفسرین نے اس آیت کا معنی کئی طرح سے بیان کیا ہے :
پہلا یہ کہ اگر یہ لوگ اُن چیزوں پر ایمان لائیں جن پر تم ایمان لائے ہو، جن کا ذکر اس سے پچھلی آیت میں ہے، تو واقعی ہدایت یافتہ ہوں گے۔ اس صورت میں ’’مثل‘‘ صلہ ہے۔ یعنی؛ فَإنْ آمَنُواْ بِالَّذِي آمَنتُم بِهِ.
دوسرا یہ کہ جس طرح تم لوگ اِن یہود ونصاری کی کتاب (تورات وانجیل) پر ایمان لاؤ ہو اس طرح یہ بھی تمہاری کتاب (قرآن مجید پر) ایمان لے آئیں۔ تو ہدایت پا جائیں گے۔
تیسرا یہ کہ اگر یہ لوگ تمہارے ایمان کی طرح ایمان لے آئیں، اس صورت میں ﴿بِمِثْلِ﴾ میں باء زائدہ ہے جو تاکید کے لیے ہے۔
⇚حافظ قرطبی رحمہ اللہ (٦٧١هـ) فرماتے ہیں :
فَإِنْ آمَنُوا مِثْلَ إِيمَانِكُمْ، وَصَدَّقُوا مِثْلَ تَصْدِيقِكُمْ فَقَدِ اهْتَدَوْا، فَالْمُمَاثَلَةُ وَقَعَتْ بَيْنَ الْإِيمَانَيْنِ.
’’اگر یہ تمہارے ایمان کی طرح ایمان لے آئیں اور تمہاری تصدیق کی طرح تصدیق کریں تو ہدایت یافتہ ہوں گے۔ اس صورت میں مماثلت دونوں ایمانوں کے مابین ہوگی۔‘‘ (تفسير القرطبي : ٢/‏١٤٢)
چوتھا یہ کہ تفصیلاتِ ایمان میں بھی تمہاری طرح ہو جائیں؛ أَتَوْا بِإِيمَانٍ كَإِيمَانِكُمْ وَتَوْحِيدٍ كَتَوْحِيدِكُمْ. ’’تمہارے ایمان کی طرح ایمان لے آئیں اور تمہاری توحید کی طرح توحید اپنا لیں۔‘‘
(دیکھیے؛ تفسیر البغوي،ط أحياء التراث :١/ ١٧٣، زاد المسير لابن الجوزي : ١/ ١١٦)

حافظ محمد طاھر حفظہ اللہ