مِلک بینک سے متعلقہ بحوث

انسانی مِلک بینک (Human Milk Bank) کے بارے میں معاصر اہلِ علم کی دو آراء ہی قابلِ ذکر ہیں؛
پہلی رائے یہ ہے کہ مسلم معاشرے میں چونکہ اس کی اَشد ضرورت یا مجبوری نہیں بلکہ اس کے متبادل اچھے معاشرتی ذرائع رائج ہیں، انہی کو پختہ کرنا چاہیے، نیز اس بینک سسٹم میں کئی ایک قباحتیں ہیں ۔ لہذا ایسے بینکس کا قیام ناجائز وغیردرست۔
دوسری رائے یہ ہے کہ خاص کڑی شرائط کے ساتھ اس کی گنجائش ہے۔ جن میں لازمی شرط دودھ جمع کروانے والی خاتون کا مکمل ریکارڈ رکھنا، اسے دوسروں کے دودھ سے مکس نہ کرنا اور جب کسی بچے کی پانچ دفعہ بقدرِ ضرورت رضاعت ہو جائے تو اس کے رضاعی رشتوں کا تعین کرنا، اسے صرف نہایت ضرورت مند بچوں کے لیے اور اَشد مجبوری کی صورت میں ہی استعمال میں لانا وغيرہ وغیرہ زیادہ اہم ہیں۔

یہ مسئلہ چونکہ علماءِ عرب میں کم وبیش چالیس برس سے زائد عرصہ قبل سے زیرِ بحث ہے، اس لیے اسے سمجھنے کے لیے عربی میں تفصیلی مواد موجود ہے، طلباءِ علم کے لیے درج ذیل مصادر مفید ہو سکتے ہیں؛

(1). ’’النوازل في الرضاع‘‘ یہ عبد الله بن يوسف بن عبد الله الأحمد کا 600 صفحات پر مشتمل ماجستير کا مقالہ ہے جو رضاعت کے جدید مسائل پر عمدہ کاوش ہے ۔ اس کے صفحہ 171 تا 237 پر تفصیل ہے ۔

(2). بنوك الحليب وموقف الشريعة منها الإسلامية منها یہ 70 صفحات کے قریب ڈاکٹر امل بنت ابراہیم الدباسی کی بحث ہے جن کا تعلق جامعہ امام محمد بن سعود یونیورسٹی کے شریعہ ڈیپارٹمنٹ سے ہے۔

(3). حكم البنوك الحليب في الشريعة. یہ عراق کی صلاح الدین یونیورسٹی کے طالب علم رائد صلاح عثمان کا 20 صفحات پر ریسرچ ورک ہے۔

(4). “بنوك الحليب.” یہ محمد نعمان محمد علی البعدانی کی 25 صفحات پر عمدہ بحث ہے ۔

(5). المسائل الفقهية المستجدة ، یہ ڈاکٹر محمد عبد الجواد حجازی النشته کا ڈاکٹریٹ کا مقالہ ہے جو 1996 میں ام درمان اسلامک یونیورسٹی سوڈان میں پیش کیا گیا، اس میں صفحہ نمبر 620 سے 656 تک یہی مبحث ہے۔

(6). الطبيب أدبه وفقهه. یہ ڈاکٹر زہیر سباعی(کنگ فیصل یونیورسٹی دمام) اور ڈاکٹر محمد علی البار (کنگ عبد العزيز یونیورسٹی جدہ) کی تالیف کے اس کے صفحہ نمبر 350 تا 366 پر یہ بحث موجود ہے۔

(7). بنوك الحليب، یہ استاذہ آمنہ بنت طلال الجمران کا ریسرچ پیپر ہے جو اسلامک اینڈ عریبک کالج فار وومن، مصر کے میگزین میں شائع ہوا ہے۔

(8). بنك اللبن و أثره في التحريم یہ ڈاکٹر علی محمد القدال کا آرٹیکل ہے۔

(9). تنبيه اللبيب حول بنوك الحليب، یہ محمد بن فنخور العبدلی کی قریبا 50 صفحات پر مشتمل آرٹیکل ہے۔

(10). بنوك الحليب وحكمها في الشريعة الإسلامية. یہ ڈاکٹر بہاء الدین جاسم (سوتشو، امام کہرمان مرعش یونیورسٹی ترکی) کا ریسرچ پیپر ہے۔

(11). بنوك حليب الآدميات بين الحظر والإباحة في ميزان الفقه الإسلامي، یہ ڈاکٹر عبد الحليم محمد منصور علي (القاسمیہ یونیورسٹی شارجہ) کی 179 صفحات پر بحث شریعہ اینڈ لاء کالج، مصر کے میگزین میں 2006ء میں شائع ہوئی۔

یہ سب مواد انٹرنیٹ پر آسانی سے دستیاب ہے۔
نوٹ : بعض متجددین کی رائے یہ ہے کہ اس مِلک بینک کے سسٹم کو بغیر کسی شروط ضوابط کے، مغربی دنیا سے ہوبہو عالمِ اسلام میں منتقل کیا جا سکتا ہے، اس میں کوئی قباحت وحرج نہیں۔ لیکن یہ رائے بالکل شاذ اور ناقابلِ التفات ہے۔
دسمبر 1985ء کو مجمع الفقہ الاسلامی کے جدہ میں منعقدہ اِجلاس میں علامہ قرضاوی اور دیگر اہلِ علم حضرات کا تفصیلی بحث ومناقشہ ہوا تھا جس کے نتیجے میں مجمع نے آفیشلی طور پر اس کے عدم جواز کی رائے اختیار کی تھی۔ اس کی تفصیل؛ مجلة الفقه الإسلامي، العدد الثاني، صفحہ نمبر 2/ 255 تا 2/ 290 پر دیکھی جا سکتی ہے۔

حافظ محمد طاھر حفظہ اللہ