سوال (5120)
اگر ایک فرد کے پاس اپنا گھر ہو، تھوڑا رقبہ ہو، لیکن مشترکہ ہو، فروخت نہ ہوتا ہو تو کیا اس کو زکوۃ دی جا سکتی ہے اور وہ فرد خود بھی بیمار ہو۔ اور اس کی صرف بیٹیاں ہوں؟
جواب
بعض اوقات انسان کے پاس سواری، رقبہ اور گھر بھی ہوتا ہے، لیکن اس کے مسائل نہیں حل ہو رہے ہوتے ہیں، پریشانی میں ہوتا ہے، مسکنت اس پر طاری ہوتی ہے، جانچ پڑتال کرنے کے بعد اگر وہ واقعتاً مسکین ثابت ہوجائے تو اس پر زکاۃ لگ جائے گی۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
“اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلۡفُقَرَآءِ وَالۡمَسٰكِيۡنِ وَالۡعٰمِلِيۡنَ عَلَيۡهَا وَالۡمُؤَلَّـفَةِ قُلُوۡبُهُمۡ وَفِى الرِّقَابِ وَالۡغٰرِمِيۡنَ وَفِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ وَابۡنِ السَّبِيۡلِؕ فَرِيۡضَةً مِّنَ اللّٰهِؕ وَاللّٰهُ عَلِيۡمٌ حَكِيۡمٌ” [التوبة: 60]
صدقات تو صرف فقیروں اور مسکینوں کے لیے اور ان پر مقرر عاملوں کے لیے ہیں اور ان کے لیے جن کے دلوں میں الفت ڈالنی مقصود ہے اور گردنیں چھڑانے میں اور تاوان بھرنے والوں میں اور اللہ کے راستے میں اور مسافر میں (خرچ کرنے کے لیے ہیں)۔ یہ اللہ کی طرف سے ایک فریضہ ہے اور اللہ سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔
بس دیکھیں کہ وہ شخص ایسا نہ ہو کہ ضروریات کی نام پر خواہشات پوری کرتا رہے، اگر اس کے اخراجات اور بچے زیادہ ہیں، آمدنی کم ہے تو اس پر قرآن کی رو سے زکاۃ لگے گی۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ