سوال (2599)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

“لَيْسَ مِنَّا مَنْ خبَّبَ امْرَأَةً عَلَى زَوْجِهَا”
[شعب الإيمان: 5433: 367/4، سلسلة صحيحة: 24/1]

«جس شخص نے کسی بھی عورت کو اس کے خاوند کے خلاف ابھارا، برانگیختہ کیا اور ایسا کردار ادا کیا جو دونوں میاں بیوی کے درمیان اختلافات کا باعث اور ذریعہ بن جائے اس کا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے اور وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے.

جواب

اس حدیث کا مطلب واضح ہے کہ میاں بیوی کے درمیان تیسرا شخص حائل ہوکر بدگمانیاں اور غلط فہمیاں پیدا کرتا ہے، اگر شوہر ملتا ہے تو اس کو بیوی کے خلاف ورغلاتا ہے یا بیوی کو شوہر کے خلاف ورغلاتا ہے، اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ میاں بیوی کے درمیان نفرت جنم لیتی ہے، نفرت کی وجہ سے دونوں الگ ہوجاتے ہیں، یاد رہے کہ یہ “نمام” یعنی چغل خور ہونے کی ایک شکل ہے جو کہ ایک مذموم صفت ہے، اس صفت کو معاشرے میں بھی معیوب سمجھا جاتا ہے، قرآن و حدیث میں بھی اس کی مذمت وارد ہوئی ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔

“وَلَا تُطِعۡ كُلَّ حَلَّافٍ مَّهِيۡنٍۙ ۞ هَمَّازٍ مَّشَّآءٍۢ بِنَمِيۡمٍۙ‏” [سورة القلم: 10,11]

«اور تو کسی بہت قسمیں کھانے والے ذلیل کا کہنا مت مان۔جو بہت طعنہ دینے والا، چغلی میں بہت دوڑ دھوپ کرنے والا ہے»
ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔

“وَيۡلٌ لِّـكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةِ” [سورة الهمزه: 1]

«بڑی ہلاکت ہے ہر بہت طعنہ دینے والے، بہت عیب لگانے والے کے لیے»

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

بارك الله فيكم وعافاكم

یہ حدیث الصحيحة میں اس جلد اور صفحہ پر موجود نہیں ہے، بلکہ [1/ 643،644] پر ہے، باقی یہ حدیث مختلف صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین سے مروی ہے، ہم صرف دو صحابہ کرام سے مروی روایت کی جامع تخریج اور اس کا حکم پھر “لیس منا” کا معنی و مفہوم بیان کرتے ہیں۔

ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﻣﻌﺎﻭﻳﺔ ﺑﻦ ﻫﺸﺎﻡ اﻟﻘﺼﺎﺭ، ﻧﺎ ﻋﻤﺎﺭ ﺑﻦ ﺭﺯﻳﻖ، ﻋﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻋﻴﺴﻰ، ﻋﻦ ﻋﻜﺮﻣﺔ، ﻋﻦ ﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ ﻳﻌﻤﺮ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻫﺮﻳﺮﺓ، ﻋﻦ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻗﺎﻝ: ﻣﻦ ﺧﺒﺐ ﺧﺎﺩﻣﺎ ﻋﻠﻰ ﺃﻫﻠﻪ ﻓﻠﻴﺲ ﻣﻦا، ﻭﻣﻦ ﺃﻓﺴﺪ اﻣﺮﺃﺓ ﻋﻠﻰ ﺯﻭﺟﻬﺎ ﻓﻠﻴﺲ منا۔
[مسند إسحاق بن راهويه: 134 صحيح]
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺑﻮ اﻟﺠﻮاﺏ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋﻤﺎﺭ ﺑﻦ ﺯﺭﻳﻖ، ﻋﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻋﻴﺴﻰ، ﻋﻦ ﻋﻜﺮﻣﺔ، ﻋﻦ ﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ ﻳﻌﻤﺮ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻫﺮﻳﺮﺓ، ﻗﺎﻝ: ﻗﺎﻝ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ: ” ﻣﻦ ﺧﺒﺐ ﺧﺎﺩﻣﺎ ﻋﻠﻰ ﺃﻫﻠﻬﺎ ﻓﻠﻴﺲ منا، ﻭﻣﻦ ﺃﻓﺴﺪ اﻣﺮﺃﺓ ﻋﻠﻰ ﺯﻭﺟﻬﺎ ﻓﻠﻴﺲ
[مسند أحمد بن حنبل: 9157 سنده صحيح]

عمار بن رزیق الضبی علی الراجح ثقہ راوی ہیں انہیں امام یحیی بن معین،امام علی بن مدینی،امام ابو زرعہ الرازی نے مطلقا ثقہ کہا ہے امام مسلم، امام ابو عوانہ،امام ابن خزیمہ،امام ابن حبان نے ان سے الصحیح میں حدیث لی ہے اور أحواص بن جواب أبو الجواب راوی علی الراجح ثقہ ربما وھم ہے مگر یہاں ان کی روایت کا شاہد صحیح سند سے موجود ہے اور ان کی متابعت بھی زید بن حباب وغیرہ نے کر رکھی ہے۔ یوں یہ سند بھی صحیح ہے

ﺣﺪﺛﻨﺎ اﻟﺤﺴﻦ ﺑﻦ ﻋﻠﻲ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺯﻳﺪ ﺑﻦ اﻟﺤﺒﺎﺏ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋﻤﺎﺭ ﺑﻦ ﺭﺯﻳﻖ، ﻋﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻋﻴﺴﻰ، ﻋﻦ ﻋﻜﺮﻣﺔ، ﻋﻦ ﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ ﻳﻌﻤﺮ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻫﺮﻳﺮﺓ، ﻗﺎﻝ: ﻗﺎﻝ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ: ﻟﻴﺲ منا ﻣﻦ ﺧﺒﺐ اﻣﺮﺃﺓ ﻋﻠﻰ ﺯﻭﺟﻬﺎ، ﺃﻭ ﻋﺒﺪا ﻋﻠﻰ ﺳﻴﺪﻩ
[سنن أبو داود : 2175 ، 5170 صحيح]
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋﺒﺪﺓ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ ﺁﺩﻡ ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋﻤﺎﺭ ﺑﻦ ﺭﺯﻳﻖ ﻋﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻋﻴﺴﻰ ﻋﻦ ﻋﻜﺮﻣﺔ ﺑﻦ ﺧﺎﻟﺪ ﻋﻦ ﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ ﻳﻌﻤﺮ ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻫﺮﻳﺮﺓ ﺭﺿﻲ اﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ ﻗﺎﻝ: ﻗﺎﻝ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ: ﻟﻴﺲ منا ﻣﻦ ﺧﺒﺐ اﻣﺮﺃﺓ ﻋﻠﻰ ﺯﻭﺟﻬﺎ ﻭﻻ ﻣﻤﻠﻮﻛﺎ ﻋﻠﻰ ﺳﻴﺪﻩ۔
[مسند البزار: 9564 صحيح، دیکھیے السنن الکبری للنسائی: 9170، معجم ابن الأعرابی: 798]
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻭﻛﻴﻊ، ﺣﺪﺛﻨﺎ اﻟﻮﻟﻴﺪ ﺑﻦ ﺛﻌﻠﺒﺔ اﻟﻄﺎﺋﻲ، ﻋﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﺑﺮﻳﺪﺓ، ﻋﻦ ﺃﺑﻴﻪ ﻗﺎﻝ: ﻗﺎﻝ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ: ﻟﻴﺲ ﻣﻦا ﻣﻦ ﺣﻠﻒ ﺑﺎﻷﻣﺎﻧﺔ، ﻭﻣﻦ ﺧﺒﺐ ﻋﻠﻰ اﻣﺮﺉ ﺯﻭﺟﺘﻪ ﺃﻭ ﻣﻤﻠﻮﻛﻪ ﻓﻠﻴﺲ ﻣﻨﺎ
[مسند أحمد بن حنبل: 22980 سنده صحيح]
ولید بن ثعلبہ کو امام یحیی بن معین نے ثقہ کہا ہے۔
[الجرح والتعديل: 9/ 2]

امام ابن حبان نے اس سے الصحیح: 4363 میں حدیثی اور الثقات میں ذکر کیا، امام حاکم نے اس کی حدیث کو صحیح الاسناد کہا [مستدرک حاکم: 7816]،حافظ ابن حجر نے ثقہ کہا [تقریب: 7418] اور باقی سند صحیح متصل ہے۔

ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻧﺼﺮ ﺑﻦ ﻋﻠﻲ ﻗﺎﻝ ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﺩاﻭﺩ، ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ اﻟﻮﻟﻴﺪ ﺑﻦ ﺛﻌﻠﺒﺔ ﻋﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﺑﺮﻳﺪﺓ، ﻋﻦ ﺃﺑﻴﻪ، ﺭﺿﻲ اﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ، ﻗﺎﻝ: ﻗﺎﻝ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ: ﻟﻴﺲ منا ﻣﻦ ﺣﻠﻒ ﺑﺎﻷﻣﺎﻧﺔ ﻭﻟﻴﺲ ﻣﻨﺎ ﻣﻦ ﺧﺒﺐ اﻣﺮﺃﺓ، ﺃﻭ ﻣﻤﻠﻮﻙ.
[مسند البزار: 4425 صحيح]
ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺇﺳﺤﺎﻕ اﻟﺜﻘﻔﻲ، ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻫﻨﺎﺩ ﺑﻦ اﻟﺴﺮﻱ، ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻭﻛﻴﻊ، ﻋﻦ اﻟﻮﻟﻴﺪ ﺑﻦ ﺛﻌﻠﺒﺔ اﻟﻄﺎﺋﻲ، ﻋﻦ اﺑﻦ ﺑﺮﻳﺪﺓ ﻋﻦ ﺃﺑﻴﻪ ﻗﺎﻝ ﻗﺎﻝ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ: “ﻣﻦ ﺧﺒﺐ ﺯﻭﺟﺔ اﻣﺮﻯء ﺃﻭ ﻣﻤﻠﻮﻛﻪ، ﻓﻠﻴﺲ منا، ﻭﻣﻦ ﺣﻠﻒ ﺑﺎﻷﻣﺎﻧﺔ ﻓﻠﻴﺲ منا
[صحيح ابن حبان: 4363 سنده صحيح]

اور جہاں تک بات ہے “ليس منا” کی تو یہ الفاظ ایک امور پر وارد ہوئے ہیں جس کا معنی ومفہوم یہ ہرگز نہیں کہ ایسا شخص امت مسلمہ سے خارج ہو جاتا ہے، شعب الایمان میں ایک روایت کے بعد یوں وضاحت کئ گئی ہے۔

ﻭﻗﻮﻟﻪ: ﻟﻴﺲ ﻣﻨﺎ ﻳﺮﻳﺪ ﻟﻴﺲ ﻋﻠﻰ ﺳﻨﺘﻨﺎ ﻓﺈﻥ اﻟﺴﻨﺔ ﻓﻲ ﻗﺮاءﺓ اﻟﻘﺮﺁﻥ اﻟﺤﺬﺭ ﻭاﻟﺘﺤﺰﻥ، ﻓﺈﺫا ﺗﺮﻙ ﺫﻟﻚ ﻛﺎﻥ ﺗﺎﺭﻛﺎ ﻟﺴﻨﺔ، ﻭاﻟﻠﻪ ﺃﻋﻠﻢ
[شعب الایمان: 2375]

امام بغوی نے ایک روایت کے بعد کہا:

ﻭﻗﻮﻟﻪ: ﻓﻟﻴﺲ ﻣﻨﺎ ﻣﻌﻨﺎﻩ: ﻣﻦ ﻟﻢ ﻳﻮﺗﺮ ﺭﻏﺒﺔ ﻋﻦ اﻟﺴﻨﺔ، ﻓﻠﻴﺲ ﻣﻨﺎ
[شرح السنة للبغوي:4/ 103]
معالم السنن میں ہے۔
ﻭﻗﻮﻟﻪ ﻟﻴﺲ ﻣﻨﺎ ﻣﻌﻨﺎﻩ ﻣﻦ ﻟﻢ ﻳﻮﺗﺮ ﺭﻏﺒﺔ ﻋﻦ اﻟﺴﻨﺔ ﻓﻠﻴﺲ ﻣﻨﺎ
[معالم السنن:1/ 286]

شرح صحیح البخاری لابن بطال میں ہے:

ﻭﻗﻮﻟﻪ: (ﻣﻦ ﻟﻢ ﻳﻮﺗﺮ ﻓﻟﻴﺲ ﻣﻨﺎ)، ﻳﻘﺘﻀﻰ اﻟﺘﺮﻏﻴﺐ ﻓﻴﻪ، ﻭﻣﻌﻨﺎﻩ: ﻟﻴﺲ ﺑﺂﺧﺬ ﺳﻨﺘﻨﺎ ﻭﻻ ﻣﻘﺘﺪ ﺑﻨﺎ، ﻛﻤﺎ ﻗﺎﻝ: (ﻟﻴﺲ ﻣﻨﺎ ﻣﻦ ﻟﻢ ﻳﺘﻐﻦ ﺑﺎﻟﻘﺮﺁﻥ)، ﻭﻟﻢ ﻳﺮﺩ ﺇﺧﺮاﺟﻪ ﻣﻦ اﻹﺳﻼﻡ۔
[شرح صحيح البخارى لابن بطال:2/ 581]

كشف المشكل من حديث الصحيحين:1/ 279 میں ہے

ﻗﻮﻟﻪ: ” ﻟﻴﺲ ﻣﻨﺎ ” ﺃﻱ ﻟﻴﺲ ﻋﻠﻰ ﻃﺮﻳﻘﺘﻨﺎ ﻭﺳﻨﺘﻨﺎ

ایک اور جگہ ہے ۔

ﻗﻮﻟﻪ: ﻓﻟﻴﺲ ﻣﻨﺎ ﻓﻘﺎﻝ ﺃﺑﻮ ﻋﺒﻴﺪ ﻟﻴﺲ ﻣﺘﺨﻠﻘﺎ ﺑﺄﺧﻼﻗﻨﺎ ﻭﺃﻓﻌﺎﻟﻨﺎ. ﻭﻗﺎﻝ ﻏﻴﺮﻩ: ﻟﻴﺲ ﻣﻦ ﺃﻫﻞ ﺩﻳﻨﻨﺎ. ﻭﻗﺎﻝ ﻗﻮﻡ: ﻟﻴﺲ ﻣﺜﻠﻨﺎ( اس طرح سے لیس مثلنا کہنے کا رد وانکار کیا ہے سلف صالحین نے دیکھیے السنة للخلال ) [كشف المشكل من حديث الصحيحين: 1/ 405]

حافظ نووی ایک روایت کے تحت لکھتے ہیں:

ﻓﻘﺎﻝ اﻟﻌﻠﻤﺎء ﻣﻌﻨﺎﻩ ﻟﻴﺲ ﻋﻠﻰ ﻫﺪﻳﻨﺎ ﻭﺟﻤﻴﻞ ﻃﺮﻳﻘﺘﻨﺎ ﻛﻤﺎ ﻳﻘﻮﻝ اﻟﺮﺟﻞ ﻻﺑﻨﻪ ﻟﺴﺖ ﻣﻨﻲ
[شرح النووي على مسلم :2/ 50]

شیخ عبدالمحسن العباد لکھتے ہیں

ﻣﻌﻨﻰ ﻗﻮﻟﻪ (ﻟﻴﺲ ﻣﻨﺎ) ﻗﻮﻟﻪ: [ ﻟﻴﺲ ﻣﻨﺎ] ﻳﻌﻨﻲ ﺃﻧﻪ ﻟﻴﺲ ﻋﻠﻰ ﻃﺮﻳﻘﺘﻨﺎ ﺃﻭ ﻟﻴﺲ ﻋﻠﻰ ﻣﻨﻬﺠﻨﺎ، ﺃﻭ ﻋﻠﻰ ﻣﺎ ﻳﻨﺒﻐﻲ ﺃﻥ ﻳﻜﻮﻥ ﻋﻠﻴﻪ ﻣﻦ ﻫﻮ ﻣﻨﺎ، ﻭﻫﺬا ﻳﺪﻝ ﻋﻠﻰ ﺗﺄﻛﻴﺪ ﻭاﺳﺘﺤﺒﺎﺏ ﺗﺤﺴﻴﻦ اﻟﺼﻮﺕ ﺑﺎﻟﻘﺮﺁﻥ
[شرح سنن أبی داود ﺷﺮﺡ ﺣﺪﻳﺚ ﺃﺑﻲ ﻟﺒﺎﺑﺔ ﻓﻲ اﻟﺘﻐﻨﻲ ﺑﺎﻟﻘﺮﺁﻥ]
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ