سوال
میرے بیٹے کی موبائلوں کی دکان ہے۔ اس دکان پر بندے موبائل رکھوا دیتے ہیں کہ اسے سیل نہیں کرنا بس اسے اپنے پاس رکھو اور ہمیں قیمت دے دو جو بھی آپس میں طے پاتی ہے مثلاً دس ہزار قیمت طے پائی اور دو چار دن بعد آتے ہیں اور دو تین ہزار کا منافع اوپر دے کر دوبارہ موبائل لے جاتے ہیں۔
میرا سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح منافع لینا جائز ہے ؟ یہ بھی واضح رہے کہ منافع طے نہیں ہوتا کہ کتنا دینا ہے، وہ جو بھی اپنی مرضی سے دے دیتے ہیں۔
جواب
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!
مذکورہ صورت درحقیقت شرعی طور پر بیع (خرید و فروخت) نہیں ہے، کیونکہ بیع میں دو باتوں کا ہونا ضروری ہے:
1: فریقین کی رضامندی۔
2:بائع (بیچنے والا) قیمت کا مالک بن جائے اور فروخت شدہ چیز مشتری (خریدنے والا) کی ملکیت میں آجائے۔
جبکہ مذکورہ صورت میں تو موبائل کو بطور سیکورٹی دکاندار کے پاس رکھ کر اسے پابند کیا جارہا ہے کہ اسکو بیچنا نہیں ہے اور اسکے بدلے کچھ رقم لی جارہی ہے۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ بیع تو بالکل نہیں ہے، بلکہ دکاندار کے پاس موبائل گروی رکھ کر اس سے کچھ رقم بطور قرض لی جارہی ہے، اور پھر موبائل واپس لینے کے لیے بطور قرض لی گئی رقم کیساتھ کچھ مزید رقم بطور نفع شامل کرکے واپس کی جاتی ہے۔ جو کہ قرض پر نفع ہونے کی وجہ سے صریحا سود ہے۔
کیونکہ مسلمہ فقہی اصول ہے:
“كل قرض جر منفعة فهو ربا”. [السنن الصغرى للبيهقي:4/353، آثار المعلمي (18/ 453]
’ہر وہ قرض جس کی وجہ سے نفع ہو، وہ سود ہے‘۔
لہٰذا لوگوں کا دکاندار کے پاس موبائل یا کوئی اور چیز گروی رکھ کر اس سے کچھ رقم بطور قرض لینا اور بعد میں اس پر کچھ زائد رقم دے کر اپنی چیز واپس لینا جائز نہیں ہے، زائد رقم مقرر نہ کرکے اسکو درست کرنے کا حیلہ بنایا گیا ہے، لیکن یہ حیلہ درست نہیں ہے۔ بلکہ یہ زائد رقم قرض پر نفع ہونے کی وجہ سے سود کے زمرے میں آئے گی۔
اور سود ایک ناجائز، حرام کام اور گناہ کبیرہ ہے، قرآن و حدیث میں سود کے متعلق سخت وعید ہے۔
سود کا لین دین شرعاً اس قدر قبیح اور ناپسندیدہ ہے کہ اسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اعلان جنگ قرار دیاگیا ہے۔ قرآنِ کریم میں ہے:
“يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَذَرُوۡا مَا بَقِىَ مِنَ الرِّبٰٓوا اِنۡ كُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِيۡنَ ۞فَاِنۡ لَّمۡ تَفۡعَلُوۡا فَاۡذَنُوۡا بِحَرۡبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوۡلِه”. [البقرة: 278، 279]
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ سے ڈرو اور سود میں سے جو باقی ہے چھوڑ دو، اگر تم مومن ہو۔ پھر اگر تم نے یہ نہ کیا تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے بڑی جنگ کے اعلان سے آگاہ ہو جاؤ‘‘۔
سود اللہ اور اسکے رسول کیساتھ جنگ اور ایک لعنت ہے۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں:
“لَعَنَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آكِلَ الرِّبَا، وَمُؤْكِلَهُ، وَكَاتِبَهُ، وَشَاهِدَيْهِ، وَقَالَ: «هُمْ سَوَاءٌ»”. [صحیح مسلم: 4093]
’’رسول اللہ ﷺ نے سود کھانے والے، کھلانے والے، لکھنے والے اور اس کے دونوں گواہوں پر لعنت کی اور فرمایا: (گناہ میں) یہ سب برابر ہیں‘‘۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
مفتیانِ کرام
فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ عبد الحنان سامرودی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ مفتی عبد الولی حقانی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ