مودودیت کے چولے میں خود ساختہ سلفیت

بجواب
سلفیت یا برہمنیت

قارئین کرام: منہج سلف وہ واضح اور روشن شاہراہ ہے جس پر کبھی اندھیرا نہیں ہوتا، کیونکہ یہ شاہراہ کتاب وسنت اور فہم صحابہ، تابعین و تبع تابعین سے منور ہے.
اصل موضوع کو بیان کرنے سے قبل چند باتوں کا سمجھ لینا از حد زیادہ ضروری ہے:
1- نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شریعت کو سمجھنے کیلئے جو معیار مقرر کیا وہ “ما انا علیہ وأصحابی” ہے، اور الحمد للہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین میں سے کسی ایک سے بھی بدعت کا صدور نہیں ہوا، گویا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس راستہ پر چلنے کا حکم دیا جس پر ذرہ برابر بھی بدعت کی آمیزش نہ ہو، اس لئے ہر جمعہ کے خطبہ میں “وایاکم و محدثات الأمور، کل بدعۃ ضلالہ” کا درس ان صحابہ کرام کو دیا کرتے تھے جن سے بدعت کا صدور ممکن نہیں تھا.
2- صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے زمانے میں کئی بدعتوں نے اور بدعتی فرقے نے جنم لیا، جیسے خوارج، قدریہ، روافض وغیرہ، لیکن ہمیں ایک بھی صحابی کا قول یا عمل ایسا نہیں ملتا جس میں انہوں نے اہل بدعت کے سردار جیسے ذو الخویصرہ التمیمی، عبد اللہ الراسبی، معبد الجہنی اور عبد اللہ بن سبا وغیرہم کی کاوشوں سے استفادہ کی ترغیب دی ہو!!
حالانکہ خوارج، روافض اور قدریہ کے مذکورہ سرداروں میں کچھ نہ کچھ تو خوبی ضرور رہی ہوگی، بلکہ خوارج کی عبادت کی تعریف تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیث میں کی ہے، اعتدال کا تقاضا تو یہ تھا کہ صحابہ کرام اپنے زمانے کے مسلمانوں کو خوارج سے عبادت، تلاوت، زہد و ورع اور نماز وغیرہ میں اطمینان و سکون سیکھنے کی تلقین کرتے جس طرح آج لوگ مولانا مودودی اور وحید الدین خان صاحبان سے استفادہ کرنے کی تلقین کرتے ہیں، بلکہ اس کے خلاف بولنے والوں کو “برہمنیت” کا خطاب بھی دیتے ہیں…
3- “سلفیت” کسی کی جاگیر نہیں کہ جس کے منہ میں جو آئے اسے “سلفیت” قرار دے دے، اور جو چاہے منہ اٹھا کر “سلفیت” کے اصول و ضوابط پر نقد کرنے لگے، “سلفیت” کتاب و سنت کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے فہم سے سمجھنے کا نام “سلفیت” ہے، اس لئے اس نام پر کچھ بیان کرنے کیلئے کتاب و سنت اور اقوال صحابہ و سلف صالحین سے استدلال نہایت ضروری ہے، کیونکہ منہج و عقیدہ کے سلسلے میں لم یدع الأول للآخر مقالا.
4- “سلفیت” کوئی نو وارد فکر نہیں کہ مولانا مودودی اور وحید الدین خان صاحبان جیسے لوگوں کے دفاع کیلئے اس کے اصول و ضوابط کو بالایے طاق رکھ کر تہذیب و شائستگی ہر حد کو پار کر دیا جائے، اور اپنے اور اپنے ہم فکر لوگوں کو چھوڑ کر سب کو “سلفی برہمن” کا خطاب دیا جائے.
5- “سلفیت” خالص کتاب و سنت کی تعلیم کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اور سلف صالحین کے فہم کی روشنی میں سمجھنے کا نام ہے، اسے سمجھنے کیلئے ہمیں مولانا مودودی اور مودودیت نواز لوگوں کی قطعی ضرورت نہیں، کیوں کہ مولانا مودودی اور وحید الدین خان جیسے گمراہ لوگوں کی گمراہ فکر کے بنا ہی ہمارا دین مکمل ہے، الحمد للہ.
اگر اس مضمون کے اخیر میں مولانا عبد السلام مدنی صاحب کا نام نہ ہوتا نیز جمعیت اہل حدیث کے جس منصب پر وہ فائز ہیں اگر اس کا ذکر نہ ہوتا تو ہم بالجزم اس مضمون کو کسی ایسے اخوانی یا تحریکی کا مضمون قرار دیتے جس کا سینہ اور فکر منہج سلف کے تئیں بغض و عداوت میں جھلس کر سیاہ ہوگیا ہے، اسی سیاہی کو اس نے اپنے اس مضمون میں انڈیل دیا ہے، لیکن جب ہم نے مولانا کا نام دیکھا تو بڑا تعجب ہوا، لیکن “لکل رجال ھفوۃ” کے تحت ان کے اس مضمون کو ہم نے ان کی اجتہادی غلطی پر محمول کیا، چونکہ غلطی کو صحیح کرنا قانون فطرت اور شرعی ذمہ داری بھی ہے اس لئے اپنی انگلیوں کو حرکت میں لانا پڑا.
مولانا نے اپنے مضمون میں جس خوش بیانی اور سنجیدگی و شائستگی کا مظاہرہ کیا ہے، ہم رد عمل میں اس کا جواب زبانی نہیں دے سکتے، جگہوں پر اس کی مختصر توجیہ کرنے پر اکتفا کریں گے.
اصل موضوع کی جانب آنے سے قبل بیت القصید بتاتا چلوں تو بہتر ہے، اہل حدیثیت اور سلفیت کے خلاف مولانا عبد السلام مدنی صاحب کی یہ تمام تر کوششیں، تحریریں اور مقالات صرف اور صرف مولانا مودودی اور وحید الدین خان صاحبان کے دفاع میں ہے، اور دفاع کی نوعیت یہ ہے کہ: جب ان پر مولانا مودودی اور وحید الدین خان جیسی گمراہ کن شخصیت، اور داعیان اہل بدعت کے افکار کی نشر و اشاعت کے متعلق اعتراض ہوا تو مولانا عبد السلام صاحب نے خود ساختہ اصول و ضوابط کی تالیف شروع کردی، اور اول روز سے آج تک مولانا مودودی اور وحید الدین خان جیسے گمراہ لوگوں کے افکار و نظریات کی نشر و اشاعت کے جواز کی وکالت کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں، چاہے اس کیلئے انہیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے اقوال اور سلف صالحین کے اصول و ضوابط کی ہی قربانی کیوں نہ دینی پڑے…
مولانا کے اٹھائے گئے شبہات کا جواب دینے سے قبل چند سطور میں یہ واضح کردوں کہ: مولانا مودودی اور وحید الدین خان صاحب اہل بدعت کے سرداروں میں سے ہیں، نیز داعیان بدعت بھی ہیں، اور ان کے اپنے فرقے اور جماعت بھی ہیں.
مذکورہ وضاحت کی ضرورت اس لئے پڑی کیوں کہ سلف صالحین کا موقف اہل بدعت کے رؤساء اور اور داعیان کیلئے الگ ہے، جبکہ عام اور غیر داعیان بدعتیوں کے متعلق الگ ہے، اس فرق کو سمجھ لیں گے تو مولانا کے اٹھائے گیے شبہات سے دلوں میں گردش کرنے والی قلق و اضطراب کی کیفیت کافور ہوجائے گی ان شاء اللہ..
اب ہم مولانا کے اٹھائے گئے شبہات کا قسط وار ایک ایک کرکےجائزہ لیں گے بإذن اللہ..

1- مولانا صاحب فرماتے ہیں: “آج سلفی برہمنوں کے کئی خودساختہ اصولوں میں سے ایک اصول پر گفتگو ہوگی۔ غیر سلفی اہل علم سے استفادہ نہ کرنا انکا اپنا خودساختہ مفروضہ ہے، کوئی علمی اصول نہیں ہے، علمی اصول یہ ہے کہ ہر ایک کی غلطی پر رد کیا جائیگا، لیکن ہر ایک سے اخوت کا رشتہ نبھایا جائیگا، اور ان کی ہر کاوش سے استفادہ کیا جائیگا جس میں غلطی نہ ہو”.

قارئین کرام: مولانا نے جس اصول کو “خود ساختہ” قرار دیا ہے ذیل میں اس کے دلائل پڑھیں، اور سمجھنے کی کوشش کریں، ہم اس اصول پر قرآن، حدیث اور اقوال صحابہ و سلف صالحین سے دلائل پیش کریں گے، پھر آپ ملاحظہ فرمائیں کہ مولانا صاحب نے غصہ اور رد عمل میں کہاں کہاں اور کیسے کیسے غچہ دیا ہے، اور باطل کو حق اور حق کو باطل بنا دیا ہے:

1- اللہ رب العالمین فرماتا ہے: ((وَقَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ أَنْ إِذَا سَمِعْتُمْ آيَاتِ اللَّهِ يُكْفَرُ بِهَا وَيُسْتَهْزَأُ بِهَا فَلَا تَقْعُدُوا مَعَهُمْ حَتَّىٰ يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ ۚ إِنَّكُمْ إِذًا مِّثْلُهُمْ)).
تمہیں یہ بات قرآن مجید میں بتا دی گئی ہے کہ جب تم کسی کو اللہ رب العالمین کی آیات کا انکار کرتے یا اس کا مذاق اڑاتے سنو تو ان کے ساتھ نہ بیٹھو، یہاں تک کہ وہ اسے چھوڑ کر دوسری گفتگو نہ کریں، اگر تم نے ان کی اس کفریہ مجلس میں شرکت کی تو تم انہی کے جیسے ہوگے.
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: اس آیت کریمہ کے مفہوم میں ہر قسم کا بدعتی تاقیامت داخل ہے.
[تفسیر بغوی (1/ 714)]
ابن جریر طبری رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: اس آیت کریمہ میں ہر قسم کے بدعتی اور فاسق و فاجر کی بدعی اور فسق و فجور کی مجلس و محفل میں بیٹھنے کی ممانعت آئی ہے.
[تفسیر الطبری (9/ 321)]
علامہ صدیق حسن خان رحمہ اللہ اسی آیت سے ملتی جلتی سورہ انعام کی آیت (68) کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اس آیت کریمہ میں ان لوگوں کیلئے بہت ہی عظیم نصیحت ہے جو ان بدعتیوں کی ہم نشینی اختیار کرنے میں تساہل برتتے ہیں جو اللہ کے کلام میں تحریف کرتے ہیں، کتاب وسنت سے کھلواڑ کرتے ہیں، اس کے معانی و مطالب کو اپنی گمراہ کن خواہشات، فاسد تقلید اور بے کار بدعت کے مطابق بیان کرتے ہیں، چنانچہ ان اہل بدعت کی ہم نشینی اختیار کرنے میں تساہل برتنے والا اگر ان کی بدعتوں پر رد نہیں کرتا تو کم از کم ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا چھوڑ دے، ان اہل بدعت کی مجلس سے دوری اختیار کرنا اس کیلئے زیادہ مشکل نہیں ہوگا.
اور اگر اہل سنت ان بدعتیوں کی مجلس میں بلا کسی شرعی سبب کے شریک ہوں گے تو ممکن ہے کہ بدعتی حضرات ان کے شریک ہونے کو اپنے فائدے کیلئے استعمال کریں، اور عوام کو شبہ میں ڈالیں کہ (دیکھو اگر ہم اچھے نہیں ہوتے تو فلاں فلاں اہل سنت کے علما وفضلاء ہماری مجلس میں شریک نہیں ہوتے) ایسی صورت میں ان کی مجلس میں شریک ہونا ان کی باتوں کو سننے سے زیادہ فساد کا باعث ہو سکتا ہے!!!
ہم نے اس قسم کی لعنت والی بے شمار مجلسیں دیکھی ہیں، لیکن ہم نے حق کی نصرت و تائید اور باطل کے رد میں اپنی پوری کوشش جھونک دی اور کوئی بھی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کیا.
جسے شریعت مطہرہ کی معرفت ہے وہ یقینی طور پر جانتا ہے کہ جتنی خرابی اور بگاڑ اہل بدعت اور گمراہ کن افکار و نظریات کے حاملین کی ہم نشینی اختیار کرنے اور ان کی مجلس میں شریک ہونے میں ہے اتنی خرابی تو گناہ اور حرام کا ارتکاب کرنے والوں کی مجلس میں شریک ہونے میں بھی نہیں، بالخصوص وہ لوگ جنہیں کتاب وسنت کا علم نہ ہو، اور نہ ہی ان علوم میں درک حاصل ہو ان کیلئے اہل بدعت کی مجلس میں شریک ہونا یاان کی ہم نشینی اختیار کرنا تو اور زیادہ خطرناک اور فساد و بگاڑ کا باعث ہے، کیونکہ ہو سکتا ہے کہ بدعتی اپنے جھوٹ، بدعات و خرافات اور ضلالت و گمراہی کو اس کے سامنے اس انداز میں پیش کرے کہ اس شخص کو وہ چیز اچھی لگے اور اس کے دل میں اس طور پر گھر کر جائے کہ اس کا علاج بہت ہی مشکل ہو جائے، اور پھر وہ زندگی بھر اس بدعت کو حق سمجھ کر عمل کرتا رہے اور اسی حال میں اس کی موت بھی ہو جائے، حالانکہ وہ عمل بالکل باطل اور منکر تھا.
[فتح البیان في مقاصد القرآن (4/ 165)]

2- یہود ونصاری کی کتابوں پر ہمارا اجمالی ایمان ہے، اور یقینا وہ کتابیں وحی الٰہی سے خالی نہیں ہیں، لیکن اس کے باوجود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کتابوں کو پڑھنے سے روکا ہے بلکہ ناراضگی کا اظہار بھی کیا، کیوں کہ اس میں حق کے ساتھ باطل کی بھی آمیزش ہے، اور ہمارے پاس ایسی تعلیمات موجود ہیں جو صرف حق ہے۔
چنانچہ جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ یہودیوں کی کتاب کا بعض نسخہ لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، یہ دیکھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم غصہ ہوگئے اور فرمایا:

(( أمتهوكون يا ابن الخطاب؟! والذي نفسي بيده؛ لقد جئتكم بها بيضاء نقيّة، لا تسألوهم عن شيء فيخبروكم بحق فتكذبوا به أو بباطل فتصدقوا به، والذي نفسي بيده؛ لو أنّ موسى عليه السلام كان حياً ما وسعه إلا أن يتّبعني )).
[حديث حسن، الإرواء ( 6/338-340 )]
مفہومِ حدیث: اے عمر رضی اللہ عنہ ابھی تک تم متردد ہو، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، یقینا میں تمھارے پاس بالکل صاف ستھری شریعت لے کر آیا ہوں، یہود ونصاری سے کچھ نہ پوچھا کرو، ہوسکتا ہے وہ تمہیں حق بتائیں اور تم انہیں جھٹلا دو، یا جھوٹ بتائیں تو تم انہیں سچ مان لو، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر آج موسی علیہ الصلاۃ والسلام بھی زندہ ہوتے تو انہیں بھی مجھ پر ایمان لانا پڑتا۔
ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: وعمر انتفع بهذا حتى أنه لما فتحت الإسكندرية وجد فيها كتب كثيرة من كتب الروم فكتبوا فيها إلى عمر فأمر بها أن تحرق وقال: حسبنا كتاب الله.
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس نصیحت سے عمر رضی اللہ عنہ نے فائدہ اٹھایا، چنانچہ ان کے دورِ خلافت میں جب اسکندریہ فتح ہوا تو وہاں اہل روم کی بہت سی کتابیں پائی گئیں، عمر رضی اللہ عنہ سے ان کتابوں کے متعلق پوچھا گیا کہ ان کتابوں کا کیا کیا جائے، تو عمر رضی اللہ عنہ نے ان تمام کتابوں کو جلانے کا حکم دیا، اور فرمایا کہ ہمارے لئے کتاب اللہ ہی کافی ہے.
[مجموع الفتاوى (17/ 41)].
مفضل بن مہلہل فرماتے ہیں کہ: لو كان صاحب البدعة إذا جلست إليه يحدثك ببدعته حذرته , وفررت منه , ولكنه يحدثك بأحاديث السنة في بدو مجلسه , ثم يدخل عليك بدعته , فلعلها تلزم قلبك , فمتى تخرج من قلبك.
مفہوم: کسی بھی بدعتی کی مجلس میں بیٹھوگے تو وہ شروع سے ہی اپنی بدعت کو بیان نہیں کرے گا، کیوں کہ اگر وہ بدعت سے ہی مجلس کی شروعات کرےگا تو تم ان کی مجلس سے اٹھ کر چلے جاؤگے، اس لئے وہ مجلس کی ابتدا ان احادیث سے کرتا ہے جو عظمتِ سنت پر دلالت کرتی ہوں، پھر اس کے بعد دوران گفتگو اپنی بدعات کو قدرے چالاکی سے پیش کرے گا، اگر وہ بدعت سنت کے نام پر تمہارے دل میں جگہ بنا لے تو پھر کیسے باہر نکلے گی؟
[الابانۃ لابن بطہ (ص140، رقم الاثر 394)].
ابو قلابہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ((لا تجالسوا أهل الأهواء، فإنكم إن لم تدخلوا فيما دخلوا فيه لبسوا عليكم ما تعرفون)).
اہل بدعت کے ساتھ نہ بیٹھا کرو، اگر تم ان کی بدعت نہ بھی قبول کرو پھر بھی ان کے ساتھ بیٹھنے کا کم از کم یہ تو اثر ہوگا کہ وہ تمہاری معلومات اعر عقائد کے متعلق تمہیں شکوک و شبہات میں ڈال دیں گے.
[الابانہ الکبری (2/ 437)]
امام اوزاعی رحمہ اللہ سے دریافت کیا گیا کہ اس شخص کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے جو یہ کہتا ہو: ((أنا أجل أهل السنة، وأجالس أهل البدع)) ؟
میں اہل سنت کے ساتھ بھی بیٹھتا ہوں اور اہل بدعت کے پاس بیٹھ کر بھی استفادہ کرتا ہوں.
امام اوزاعی رحمہ اللہ نے فرمایا: ((هذا رجل يريد أن يسوي بين الحق والباطل)).
ایسا کہنے والا شخص حق و باطل کو برابر سمجھتا ہے..
امام ابن بطہ رحمہ اللہ مذکورہ اثر پر تعلیق لگاتے ہوئے فرماتے ہیں: ((إن هذا رجل لا يعرف الحق من الباطل، ولا الكفر من الإيمان، وفي مثل هذا نزل القرآن، ووردت السنة عن المصطفى صلى الله عليه وسلم، قال الله تعالى: ((وإذا لقوا الذين آمنوا قالوا آمنا وإذا خلوا إلى شياطينهم قالوا إنا معكم)).
ایسا شخص حق و باطل کے مابین تمیز کرنا نہیں جانتا، اور نہ ہی اسے کفر و ایمان کا فرق معلوم ہے، اسی قسم کے لوگوں کے بارے میں قرآن کی آیت اور احادیث وارد ہوئی ہیں، اللہ رب العالمین نے فرمایا: منافقین جب اہل ایمان سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم بھی ایمان والے ہیں، اور جب اپنے شیطان یعنی یہودیوں کے پاس جاتے ہیں تو کہتے ہیں ہم تمہارے ساتھ ہیں.
[الابانہ الکبری (2/ 456)]
ابن عون رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ((من يجالس أهل البدع أشد علينا من أهل البدع)).
جو بدعتی کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہے وہ ہمارے لئے بدعتی سے زیادہ خطرناک ہے..
امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ((أهل البدع ما ينبغي لأحد أن يجالسهم، ولا يخالطهم، ولا يأنس بهم)).
اہل بدعت کی ہم نشینی اختیار کرنا، ان سے میل جول رکھنا اور ان سے الفت و محبت رکھنا کسی کیلئے مناسب نہیں.
[الابانہ الکبری (2/ 475)]
مولانا عبد السلام مدنی صاحب، کیا بدعتی کے ساتھ اٹھنا بیٹھنے اور ان کی کتابوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنے کا حکم ایک ہی نہیں؟ کیوں کہ دونوں صورت میں ان سے استفادہ ہی مقصود ہے.
اہل بدعت کی کتابوں سے استفادہ کے متعلق سلف صالحین کی کیا رائے ہے وہ بھی ملاحظہ فرما لیں: مروذی کہتے ہیں کہ میں نے امام احمد رحمہ اللہ سے کہا کہ: استعرت كتابا فيه أشياء رديئة، ترى أن أخرقه أو أحرقه؟ قال: نعم، قال المروذي: قال أبو عبد الله: يضعون البدع في كتبهم، إنما أحذِّر عنها أشد التحذير.
ترجمہ: میں نے ایک کتاب عاریتا لی ہے، جس میں کچھ شریعت مخالف چیزیں ہیں، کیا میں اس کتاب کو پھاڑ دوں یا جلا دوں؟، تو امام احمد رحمہ اللہ نے فرمایا: ہاں بالکل اسے جلا دو یا پھاڑ دو، کیوں کہ اہل بدعت اپنی کتابوں میں بدعت داخل کر دیتے ہیں، میں اس قسم کی کتابوں سے سختی سے منع کرتا ہوں.
[هداية الأريب الأمجد ( ص : 38 )].
امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ((إياك والخوض فيه والنظر في كتبهم بحال)).
اہل بدعت کی کتابوں کو پڑھنے اور اسے مطالعہ کرنے سے ہر حال میں بچنا ضروری ہے.
[الفتاوى الکبری (6/ 561)].
امام ابو زرعہ رازی رحمہ اللہ سے حارث محاسبی کی کتابوں کے متعلق دریافت کیا گیا: امام ابو زرعہ نے فرمایا: یہ بدعت و گمراہی کی کتابیں ہیں، ان سے دور رہو، کتاب و سنت اور آثار سلف سے تمسک اختیار کرو، وہی تمہارے لئے کافی ہے.
سائل نے کہا: حارث محاسبی کی کتابوں میں عبرت و نصیحت ہے (یعنی فوائد ہیں)..
امام ابو زرعہ نے فرمایا: جو کتاب اللہ سے عبرت و نصیحت حاصل نہ کر سکے اسے کہیں اور نہیں حاصل ہو سکتی.
کیا تمہیں نہیں پتا کہ امام مالک، امام سفیان ثوری، امام اوزاعی اور ان جیسے دیگر اساطین علم نے اس قسم کی کتابوں کو خطرات و وساوس پیدا کرنے والی کتاب قرار دیا ہے، ان کتابوں کے مؤلفین نے اہل علم کی مخالفت کی. پھر فرمایا: لوگ کس قدر جلدی بدعت قبول کرلیتے ہیں؟
[تاريخ بغداد (8/ 211)]

امام ذہبی رحمہ اللہ امام ابو زرعہ رحمہ کے مذکورہ کلام پر تعلیق لگاتے ہوئے فرماتے ہیں: آج کے زمانے میں تو حارث محاسبی جیسا ملنا بھی مشکل ہے، (حارث محاسبی معتزلہ اور روافض کے رد میں کافی کتابیں لکھی ہیں، جب کہ مولانا مودودی نے روافض و معتزلہ کی تائید میں کتابیں لکھی ہیں، قارئین: فرق کو سمجھیں) اگر ابو زرعہ ابو طالب المکی، ابن جہضم اور سلمی وغیرہ کتابیں دیکھ لیتے تو ان کی عقل جواب دے جاتی..
[میزان الاعتدال (1/ 431)].

امام ذہبی رحمہ اللہ کے کلام پر تعلیق لگاتے ہوئے شیخ ربیع المدخلی حفظہ اللہ فرماتے ہیں: اللہ رب العالمین امام ذہبی پر رحمتیں نازل فرمائے، اگر امام ذہبی مولانا مودودی، سید قطب اور یوسف قرضاوی وغیرہم ککی کتابوں میں باطل عقائد و نظریات کی ترویج، راہ حق سے انحراف، بدعت اور اہل بدعت کا دفاع اور ان کی نصرت و تائید، بعض انبیاء اور صحابہ کرام پر سب و شتم، وحدت الوجود، صوفیت، اعتزال، خارجیت، تکفیر اور دیگر گمراہیاں دیکھ لیتے تو ان کا کیا حال ہوتا؟
[منہج اہل السنہ والجماعہ فی نقد الکتب والرجال والطوائف (ص: 135- 136)].
امام بغوی رحمہ اللہ کہتے ہیں: ((قد مضت الصحابة والتابعون وأتباعهم وعلماء السنة على هذا، مجمعين متفقين على معاداة أهل البدع ومهاجرتهم)).
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین، تابعین عظام، تبع تابعین اور اہل سنت والجماعة کے تمام علماء کا اہل بدعت کے تئیں بغض و عداوت اور ان سے قطع تعلقی پر اتفاق ہے.
[شرح السنة (/ 227)].
اور ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: ((كان السلف ينهون عن مجالسة أهل البدع، والنظر في كتبهم، والاستماع لكلامهم)).
سلف صالحین اہل بدعت کی ہم نشینی سے، ان کی کتابوں کو پڑھنے سے اور ان کی گفتگو سننے منع کیا کرتے تھے.
یاد رہے کہ ابن قدامہ رحمہ اللہ نے پورے سلف صالحین کا یہ موقف نقل کیا ہے جس میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سب سے پہلے شامل ہیں، اور اگر اس مسئلہ میں اختلاف ہوتا تو ابن قدامہ یا بغوی رحمہما اللہ ضرور نقل کرتے.
علامہ صدیق حسن خان رحمہ اللہ فرماتے ہیں: سنت یہی ہے کہ روافض، خوارج، جہمیہ، قدریہ، مرجئہ، کرام یہ اور معتزلہ جیسے بدعتیوں اور گمراہ فرقوں کو چھوڑ کر ان سے دوری اختیار کی جائے، ان سے بحث و مناظرہ سے پرہیز کیا جائے، نہ ان کی کتابوں کو پڑھا جائے اور نہ ہی ان کی باتوں کو سنا جائے…
[قطف الثمر (ص: 144)]
ایک جگہ فرماتے ہیں: بدعت و گمراہی کے دعاۃ سے دوری اختیار کرنا اہل سنت والجماعت کا متفق علیہ عقیدہ ہے.
[قطف الثمر (ص: 140)]
مولانا مودودی اور وحید الدین خان جن میں مذکورہ تمام گمراہ فرقوں کی بدعتیں جمع ہوں، بلکہ مزید نت نئی بدعتیں اور گمراہیاں موجود ہوں ان کے بارے میں نواب صاحب رحمہ اللہ کی کیا رائے ہوتی؟
ابن بطہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: کوئی اس خوش فہمی میں نہ رہے کہ وہ عالم ہے اور صحیح العقیدہ ہے تو اہل بدعت کی مجلسوں میں اٹھنے بیٹھنے سے اس پر کوئی اثر نہیں ہوگا.. میں نے بعض لوگوں کو دیکھا ہے کہ وہ اہل بدعت کے خلاف بڑے شدید تھے، ان پر نکیر اور رد کرنے کیلئے ان کی مجلسوں میں گئے، پھر ان بدعتیوں کے شبہات میں ایسے پھنسے کہ انہی کے ہو کر رہے گئے..
[الابانہ الکبری (2/ 469)].
ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: بدعتیوں سے علم حاصل کرنے میں دو خرابیاں ہیں:
1- اغتراره بنفسه فيحسب أنه على حق.
وہ بدعتی عجبِ نفس میں مبتلا ہو جائے گا اور یہ سمجھے گا کہ وہ حق پر ہے۔
2-اغترار الناس به.
اور دوسری خرابی یہ ہوگی کہ لوگ اس سے دھوکے میں پڑ جائیں گے.
[شرح حلیۃ طالب علم (ص 138)].

یعنی جب عام لوگ دیکھیں گے کہ علماء اور طلبہ علم ان بدعتیوں سے علم حاصل کر رہے ہیں تو وہ اس دھوکے میں پڑ جائیں گے کہ یہ بدعتی حق پر ہیں، کیوں کہ اگر وہ حق پر نہیں ہوتے تو یہ حق پرست علماء ان سے علم حاصل کیوں کرتے ہیں یا ان سے علم حاصل کرنے کی تلقین کیوں کرتے؟ عوام کو تو حق وباطل کے درمیان تمییز بالکل بھی نہیں ہوتی ہے، وہ اپنے علماء کی تقریر و تحریر اور ان کے تعامل وتصرف سے ہی سیکھتے ہیں۔
مولانا عبد السلام مدنی صاحب: جس اصول کو آپ “خود ساختہ” قرار دے رہے ہیں سطور بالا میں کتاب و سنت، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اور سلف صالحین کے اقوال کی روشنی میں وہی اصول سلفیت ہے، اور جو آنجناب فرما رہے ہیں وہ خود ساختہ اور “مودودیت و وحیدیت زدہ” اصول ہے، چنانچہ آپ سے گذارش ہے کہ: آپ نے اپنی پہلی تحریر میں اچھائی اور خرابی کا کچھ فیصد نکال کر خمینی زندیق کے پرستار مولانا مودودی اور مولانا وحید الدین خان سے استفادہ کے تعلق سے جو ضابطہ بنایا تھا اس کے کیا دلائل ہیں؟ برائے مہربانی کتاب و سنت اور اقوال صحابہ و سلف صالحین کی روشنی میں واضح کر دیں.
نیز سلف صالحین کے جو اقوال اوپر گزرے ہیں کیا وہ “برہمنیت زدہ” ہیں؟
یا پھر “مودودیت زدہ” چشمہ لگا کر دیکھنے سے سلف صالحین کے اقوال “برہمنیت زدہ” لگتے ہیں؟
چونکہ مولانا مودودی اور وحید الدین خان صاحب اپنے زمانے کے بہت بڑے بڑے بدعتیوں میں سے ہیں، اپنے بدعات کی ترویج و تبلیغ میں وہ ہمیشہ کوشاں رہے اس لئے آپ سے گذارش ہے کہ ایسے بدعتی کی کتابوں اور ان کے علم سے استفادہ کا حکم کتاب و سنت اور اقوال صحابہ و سلف صالحین کی روشنی میں تحریر فرما کر شکریہ کا موقع دیں…
نیز مذکورہ اقوال سلف صالحین کی روشنی میں ایسے شخص کا کیا حکم ہے جو مولانا مودودی اور وحید الدین خان جیسے گمراہ اور داعیان بدعت سے استفادہ کو ضروری یا مستحب قرار دیتا ہو، نیز ان کے افکار و نظریات کی نشر و اشاعت کی پرزور وکالت کرتا ہو؟

نوٹ: سلفیت کے خلاف مولانا عبد السلام مدنی صاحب کے اٹھائے گئے شبہات کا جواب اللہ رب العالمین کی توفیق و مدد سے قسط وار آتا رہے گا ان شاء اللہ.

ابو احمد کلیم الدین یوسف
(جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ)