مَحبّتوں کے گلاب زادے
نہیں ۔۔ نہیں ۔۔ مَیں اسے مَحبّت کا نام نہیں دے سکتا۔مَیں ایسے ناروا جذبے کو خلوص بھی نہیں کَہ سکتا۔مَیں ایسی نا معقول جسارتوں کو ہم دردی کا نام بھی نہیں دے سکتا۔مَحبّت اندھی نہیں ہُوا کرتی۔مَحبّت کبھی پاگل، مجنون اور مخبوط الحواس بھی نہیں ہو سکتی۔سب سے زیادہ بصارت اور بصیرت، بینائی اور دانائی تو مَحبّتوں میں ہی پنہاں ہُوا کرتی ہے۔شعور اور ادراک صرف رسم و رواج ہی نہیں بلکہ مَحبّتوں کا حقیقی مذہب ہُوا کرتے ہیں۔جو شخص مَحبّتوں کے نام پرخود سوزی کر لے، جو آدمی ایسے پاک و پَوِتر جذبے کے نام پر خود کو اور کسی دوسرے شخص کو خون میں نہلا دے تو یہ کبھی مَحبّت نہیں ہُوا کرتی۔ایسی خونیں بدعات اور لہو سے منسوب خرافات تو جہالت ہُوا کرتی ہیں۔مَحبّت کے نام پر خود کشی کرنے والے کیا جانیں کہ مَحبّتوں کی تفاسیر کیا ہُوا کرتی ہیں؟ خود کو ہمیشہ کے لیے آگ میں جھونک دینے والوں کو کیا خبر کہ مَحبّتیں کبھی اتنی نہیں بھٹک سکتیں کہ ان کا رخ جنتوں کے بجائے جہنموں کی طرف مڑ جائے۔جہنم کی طرف گمراہی جایا کرتی ہے، ہوس کی تکمیل میں ناکامی آگ سے لدی اور بھری منزلوں کی طرف گامزن ہُوا کرتی ہے۔
لڑکی کی ڈولی کسی اور کے ساتھ اٹھی، لڑکے نے کالا پتھر پی لیا، لڑکی دلھن بنی سسرال پہنچی، لڑکے کا جنازہ اٹھا، پھول سا لڑکا خار زار بھٹکتے جذبوں میں ایسا گم ہوا کہ کبھی لوٹ کر نہ آ سکے گا۔بہاول پور میں مَحبّت میں ناکامی پر لڑکے نے پہلے لڑکی کو فائر مارا اور بعد میں خود کو گولی مار کر خود کشی کر لی۔مَحبّتوں کے نام پر لوگ کتنے عذابوں اور سرابوں میں مبتلا ہو گئے ہیں، اس کے اعداد و شمار کا کوئی ٹھکانا ہی نہیں۔ایسے ہی ناروا احساسات کو آج مسلسل انگیخت مل رہی ہے کہ انسان حرص و ہوس کی تکمیل کی جانب بگٹٹ اور سر پٹ دوڑ پڑتا ہے اور عمر کے ایک خاص حصّے میں جب ایسی جستجوؤں کی راہ میں رخنے حائل ہو جائیں تو انسان موت کو گلے لگانے میں بھی تامّل نہیں کرتا۔
محبتوں کا ماخذ اللّہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات نہ ہو تو گمراہی اس کی ہمراہی بن جایا کرتی ہیں۔پھر کج فہمی اور کج روی پوری سج دھج کے ساتھ آ دھمکتی ہے۔پھر ذلّت کی قلّت نہیں رہا کرتی۔ حقیقی مَحبّتوں کے زاویے جس کی طرف بھی اپنا رخ کر لیں، ان کا مرکز اور منبع مَحبّتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی ہونا چاہیے۔انسان دنیا میں بھی ڈھیر سارے لوگوں سے مَحبّت کرتا ہے مگر ہماری انواع و اقسام کی محبت اللّہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مَحبّت کی مطیع اور تابع فرمان ہونی چاہیے۔بہ صورتِ دیگر انھیں بھٹک جانے سے کوئی روک ہی نہیں سکتا، مگر خبر نہیں چاہتوں کی یہ فصاحت ہم سے کیوں روٹھ گئی ہے؟ عقیدتوں کی یہ بلاغت اور نفاست ہم سے کیوں بدظنی اور بدگمانی پر اتر آئی ہے؟
وہ تین اشخاص بھی مَحبّتوں کے ایسے عجب دیپ روشن کیے بیٹھے تھے کہ جن کی پاکیزگی، عمدگی، شایستگی اور شستگی پر آنکھیں چھلک پڑتی ہیں۔وہ سب سے زیادہ نفیس مَحبّتوں کی چھب، ڈھب اور سندرتا میں گندھے تھے۔بس کسی لمحے ان کی مَحبّتوں کی اطاعت و تابع فرمانی کے تناسب میں کچھ ایسی نامناسب بھول ہو گئی جو نہیں ہونا چاہیے تھی۔جہاں چاہتوں کے بے لوث جذبے بڑی ٹھاٹ باٹ رکھتے ہوں وہاں ایسی بھول اور لغزش کب گوارا کی جاتی ہیں؟ سو محبوب ناراض ہو گیا، پھر آنسو تھے، آہیں تھیں، بے چینیاں اور بے تابیاں تھیں کہ سانس لینا محال ہو گیا تھا۔ساری دنیا ہی تنگ اور دشوار ہونے لگی تھی۔جان سے پیارے محبوبؐ نے حکم دیا کہ اپنی بیویوں سے علاحدگی اختیار کر لو، اطاعت اور تابع فرمانی کے خوگر فوراً بولے کہ صرف علاحدگی اختیار کر لیں یا اپنی بیویوں کو طلاق دے ڈالیں، قاصد گویا ہُوا نہیں صرف قربت سے منع کیا گیا ہے طلاق دینے کا حکم نہیں دیا گیا۔ان تین میں سے ایک کا نام حضرت کعب بن مالکؓ تھا۔مَحبّتوں کے استعارے بنے یہ لوگ وہ تھے کہ جن کی چاہتوں کی بنیاد اور اساس فقط اللّہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت تھی۔فوراً اپنی بیویوں کو میکے بھیج دیا۔ محبوب کیا روٹھا ساری دنیا ہی اجاڑ اور سنسان لگنے لگی تھی۔ آنسو تھمنے میں نہیں آ رہے تھے۔ صحابہ ء کرامؓ ان سے بے رخی اور بے توجہی برت رہے تھے کہ محبوب کا حکم یہی تھا۔ حضرت کعبؓ بن مالک اپنے چچا زاد بھائی ابو قتادہ کو سلام کرتے ہیں مگر جواب نہیں ملتا، کہتے ہیں مَیں نے اللّہ کی قسم اٹھا کر کہا کہ میں اللّہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مَحبّت کرتا ہوں مگر ابو قتادہؓ بالکل ہی اَن جان بن جاتے ہیں کہ جیسے جانتے ہی نہیں۔اگرچہ ہجر و فراق کے ان پچاس دنوں نے کعبؓ بن مالک کو اندر سے توڑ ڈالا تھا مگر خود سوزی اور خودکشی نہ کی گئی۔ اپنی بیوی کو میکے بھیج دینا اس بات کا واضح ثبوت تھا کہ بیوی کے ساتھ ان کی مَحبّت بھی اللّہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مَحبّت کے تابع تھی۔اللّہ نے ان کے لیے بشارتیں نازل فرمائیں اور اللّہ دل سے توبہ کرنے والوں کو سچی خوشیوں سے نوازتا ہے۔
آپ جس مسلمان سے بھی پوچھ لیں وہ حرمتِ رسولؐ کے لیے جان تک قربان کر دینے کے دعوے کرتا دکھائی دے گا مگر یاد رکھیے کہ مَحبّت کے بغیر حرمت کا تصور ہی نہیں ہوتا اور اطاعت کے بنا مَحبّت کے دعوے بھی تو محض ڈھکوسلے ہی ہُوا کرتے ہیں۔جھوٹی مَحبّتوں کے نام پر خود کشیاں کرنے والو! حرص و ہوس کی تکمیل میں ناکامی پر اپنی اور دوسروں کی جان لینے والو! کسی بھی شخص کی عزت اور ناموس کی طرف ہاتھ بڑھانے والو سنو! محبتوں کا گلاب زادہ حضرت کعب بن مالکؓ تھا۔اس لیے کہ اس کے جذبوں سے مَحبّت کی جو بھی مہک اٹھتی تھی اس میں محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشبو گندھی ہوئی تھی۔آج چاہتوں کی رمز سے ناواقف نوجوان جھوٹی مَحبّتوں کے جس سراب کو گلے لگا کر خودکشی کر لیتے ہیں وہ سارے عذاب زادے ہی تو ہیں، وہ سب کے سب کسی سراب کدے کے باسی ہی تو ہیں۔سراج لکھنوی نے کیا ہی خوب صورت شعر کہا ہے!
آگ اور، دھواں اور، ہوس اور، ہے عشق اور
ہر حوصلہ ء دل کو مَحبّت نہیں کہتے
( انگارے۔۔۔حیات عبداللہ )