محبتوں کے پیاسے رشتے

رشتہ ناتا کوئی بھی ہو، انتہائی دل نشیں اور مَحبّت آفریں ہوتا ہے۔آپ اپنے دل کے تاروں کو چُھو کر دیکھیں تو ہر رشتہ منفرد مَحبّتوں کا امین دکھائی دے گا۔اپنے ارد گرد اور اپنے ماحول پر طائرانہ نظر ہی ڈالیں تو آپ کو اجلے رشتوں کا ا یک انتہائی تابناک اور سَت رنگا حصار ضرور دکھائی دے گا۔ والدین کی نکھری نکھری مَحبّتیں، اولاد کی اجلی اجلی چاہتیں، بیوی بچّوں کا دھنک رنگ پیار اور بہن بھائیوں کی تابندہ الفتیں ہر سمت آپ کے لیے دامن وا کیے کھڑی دِکھائی دیں گی، مگر یہ دنیا کو کیا ہو چلا؟ کہ ان تمام رشتوں ناتوں میں دراڑیں پڑ چکیں۔ہر طرف ایک کھلبلی اور بے کلی سی مچی ہے اور ہر کوئی اپنی دھن میں مست ہے۔لوگ ان رشتوں کے تقاضوں سے بے پروا ہو کر معلوم نہیں کن راہو ں پر دوڑے جا رہے ہیں۔والد ین ہوں یا اولاد، ایک دوسرے کی مَحبّتوں کی پیاس سے نڈھال دکھائی دیتے ہیں۔ بہن بھائی اور خاوند بیوی میں اتنی خلیج حائل ہو چکی ہے کہ اسے پاٹنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ لوگ اس قدر روکھے اور پھیکے ہو چکے ہیں کہ ان رشتوں کی قربت، ان کی نزاکت اور تقاضوں کا ذرا احساس تک نہیں، بے حسی اور بے رخی کا دیمک ہر تعلق کو چاٹ کر اندر سے کھوکھلا کرتا جا رہا ہے۔کتنے ہی گھروں میں تو یہ تعلق اور رشتے مستقل بنیادوں پر ایک خار اور آزار بن کر زندگی بھر کا روگ بن گئے ہیں۔یہ گھرانے لُولے لنگڑے تعلقات کے ساتھ زندگی کے اس سفر پر گرتے، پڑتے، سسکتے اور لاٹھیاں ٹیکتے چلے جا رہے ہیں۔ یہ لوگ اپنی بے پروائی، بے اعتنائی اور بے رغبتی پر اتنے ڈھیٹ ہو چکے ہیں کہ اپنے دلوں میں نرماہٹ کا کوئی گوشہ پیدا کر کے تعلقات بحال کرنے پر آمادہ ہی نظر نہیں آتے۔اگر ہم اپنے دلوں میں مَحبّتوں کے لیے تھوڑی سی گنجایش پیدا کر لیں تو یقین کریں کہ یہ چاہتیں آپ کے دروازہ ء دل پر دستک دے کر آپ کے تن من میں سما جائیں گی۔بوڑھی والدہ گھر کے کسی کونے میں پڑی سسک رہی ہے مگر مَحبتوں کا رخ اس طرف مڑتا ہی نہیں، قبر میں پاؤں لٹکائے بوڑھا والد کسی کوٹھڑی میں پڑا کھانس کھانس کر ادھ موا ہو چکا مگر مروّت اور مودّت ادھر جھانکنے کے لیے تیار ہی نہیں۔بیوی رات گئے تک گھر میں منتظر بیٹھی ہے، گھر سے باہر دوستوں کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف خاوند کو ذرا احساس ہی نہیں کہ کوئی اس کے لیے پلکیں بچھا کر بیٹھا ہے اور کتنی ہی بیگمات ایسی ہیں کہ جن کی میک اپ کٹ میں موجود کوئی ایک چیز بھی اپنے خاوند کے لیے نہیں، گھر سے باہر جاتے وقت وہ میک اپ سے لد جاتی ہیں مگر گھر میں ان کے اندر پھوہڑپن کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا ہے۔شادی کو برسوں بیت چکے مگر یہ خاوند اور بیوی ایک دوسرے کے ہو کر بھی ایک دوسرے کے نہ ہو سکے۔
سائنس دان اب تمام جذبات اور احساسات پر تحقیقات میں لگے ہوئے ہیں اور ہر روز نئی بات کھوج نکالتے ہیں۔سائنس آج اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ رشتے داروں کے ساتھ تعلقات بگاڑنے سے انسان کی عمر کم ہوتی ہے۔ڈنمارک کے محققین کہتے ہیں کہ بیوی، دوستوں یا رشتے داروں کے ساتھ اکثر ہونے والی بحث اور جھگڑوں سے درمیانی عمر میں موت کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔کمیونٹی ہیلتھ کے ایک میگزین میں ایک محقّق کا کہنا ہے کہ مسلسل ہونے والی بحث سے مَردوں اور بے روزگار لوگوں کو زیادہ خطرات ہوتے ہیں۔کوپن ہیگن یونی ورسٹی کے محققین کہتے ہیں کہ مسلسل بحث اور جھگڑے سے موت کی شرح میں اضافہ ہوسکتا ہے۔اس سے قبل یہ تحقیق بھی ہوچکی ہے کہ جو انسان اپنی بیوی، بچّوں اور خاندان کے قریبی افراد کے ساتھ اکثر بحث میں الجھتا ہے، اسے دل کے امراض کے حد سے زیادہ امکان ہوتے ہیں۔اس کے علاوہ ایسا شخص بلڈ پریشر کا مریض بھی بن سکتا ہے۔جدید تحقیق کے مطابق بحث اور جھگڑے سے پیدا ہونے والے دباو کا اثر سب سے زیادہ مَردوں پر پڑتا ہے، اس سے کولیسٹرول کی مقدار بڑھ جاتی ہے، جو دل کے امراض کا سبب بنتی ہے۔اس مطالعے میں چھتیس سے باون سال کے نو ہزار آٹھ سو ستاون مرد اور خواتین کو شامل کیا گیا۔ان کی معلومات سے اس بات کے امکانات کو تلاش کرنے کی کوشش کی گئی کہ کشیدہ معاشرتی تعلقات اور جلد موت کے درمیان کیا تعلق ہے؟ اس مطالعے کے دوران یہ انکشاف ہوا کہ شریکِ حیات اور بچّوں کی طرف سے کیے جانے والے مسلسل اور روز روز کے جھگڑوں سے موت کے خطرات میں پچاس سے سو فی صد تک اضافہ ہو جاتا ہے۔کوپن ہیگن یونی ورسٹی کا کہنا ہے کہ ویسے تو تشویش اور جھگڑے روزہ مرّہ زندگی کا حصّہ ہیں لیکن جن لوگوں کی اپنے نزدیکی رشتے داروں یا پارٹنر سے کھٹ پٹ رہتی ہے، انھیں دل کے دورے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔
جدید دنیا کے سائنس دانوں کو اس حیرت انگیز انکشاف پر اچنبھا کرنے کی چنداں ضرورت نہیں، اس لیے کہ مسلمانوں کے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آج سے تقریباً چودہ سو سال قبل ساری انسانیت کو یہی بات واشگاف الفاظ میں بتا چکے ہیں، جسے آج یورپ اور امریکا کے سائنس دان لیبارٹریز میں کھوجنے کے لیے خون پسینا ایک کر چکے ہیں۔حدیث کی سب سے زیادہ معروف کتاب صحیح بخاری کو اٹھا لیجیے اور حدیث نمبر پانچ ہزار نو سو چھیاسی کا مطالعہ کیجیے۔نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جسے یہ پسند ہو کہ اس کی روزی میں کشادگی اور اس کی عمر میں اضافہ ہو تو اسے چاہیے کہ وہ صلہ رحمی کرے۔سائنس کے محققین کو سائنس کے میدان میں تجربات کے ساتھ ساتھ قرآن و حدیث کا مطالعہ بھی کرنا چاہیے کہ وہ حقائق جنھیں آج کی سائنس درست ثابت کر چکی ہے، ان کے متعلق قرآن اور احادیث کیا کہتی ہیں؟ سائنس آج دنیا کو باور کروا رہی ہے کہ کشیدہ خاطر تعلقات سے انسان کی عمر گھٹتی ہے جب کہ آج سے چودہ سوسال قبل حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہی بات بیان فرما چکے ہیں کہ صلہ رحمی کرنے سے عمر میں اضافہ ہوتا ہے۔مَیں کہتا ہوں ابھی سائنس کی یہ تحقیق ادھوری ہے اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صلہ رحمی کو صرف عمر میں اضافے کا سبب بیان نہیں فرمایا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ رزق میں اضافے کا باعث بھی بتلایا ہے۔ قطع رحمی ایسا فعل ہے کہ صحیح بخاری کی حدیث نمبر پانچ ہزار نو سو چوراسی کے مطابق ” قطع رحمی کرنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔” مَحبّتیں بانٹنے اور صلہ رحمی تقسیم کرنے کے متعلق متعدد احادیث موجود ہیں۔جامع ترمذی حدیث نمبر دو ہزار پانچ سو گیارہ میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ” ظلم و زیادتی اور قطع رحمی دو ایسے جرائم ہیں کہ اللّہ آخرت کی سزا کے ساتھ ساتھ دنیا میں ہی ان کو فوری سزا بھی دے دیتا ہے، ان دو جرائم کے علاوہ کوئی جرم ایسا نہیں کہ جس کی سزا کا اللّہ اس طرح اہتمام کرتا ہو ” صلہ رحمی کے متعلق یہ انتہائی لطیف اور حساس بات بھی نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمائی کہ” بدلے میں صلہ رحمی کرنے والا حقیقت میں صلہ رحمی کرنے والا نہیں بلکہ اصل صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے جب قطع رحمی کی جائے تب وہ صلہ رحمی کرے۔ ” (صحیح بخاری، حدیث نمبر5991 )۔
اپنوں کی بے اعتنائی، بے وفائی اور بے رحمی کی خراشیں انسان کے دل پر اتنی گراں گزرتی ہیں کہ یہ بھلائے نہیں بھولتیں، اس لیے کہ وہ اپنے ہوتے ہوئے بھی اپنے نہیں بنتے۔اصل سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے ان کا بننے کی کوشش کی ہے؟ معلوم نہیں ہم لوگ کن سانچوں میں ڈھل گئے ہیں؟ کہ جو لوگ زندہ ہوتے ہیں ہم ان کو اَہمّیت نہیں دیتے اور جب ان میں کوئی دنیا سے رخصت ہو جائے تو پھر اس کی خوبیوں کو یاد کر کے روتے ہیں۔ کیا یہ بات عجیب نہیں کہ ہمیں زندہ لوگوں میں خامیاں ہی خامیاں دِکھائی دیتی ہیں، جب کہ مرنے والوں میں خوبیاں ہی خوبیاں؟ کتنے ہی رشتے اب بھی ہماری مَحبتوں کی پیاس سے نڈھال ہیں۔بوڑھے والدین اپنی اولاد کی مَحبّت کی آس لگائے بیٹھے ہیں، مگر دوستوں پر سب کچھ وار دینے والوں کے منہ میں والدین کے لیے دو مَحبت بھرے بول تک نہیں۔یہ چاند کی سی ٹھنڈک کا احساس رکھنے والے رشتے، تپنے کیوں لگے ہیں؟ ان میں وہ رنگا رنگی، وہ تنوّع اور وہ بانکپن کیوں باقی نہیں رہا جو ہمارے اسلاف کا شعار تھا؟ رشتوں کی یہ کھٹاس، مٹھاس میں کیوں نہیں بدل رہی؟ اسلام سے دوری کے بعد سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ ہم خود ان جھلستے اور آگ برساتے موسموں میں بارش کا پہلا قطرہ بننے پر آمادہ نہیں، ہم ان گرم ہوا کے جھکّڑوں میں بادِ نسیم کا پہلا جھونکا بننے کے لیے تیار نہیں۔یہ ماحول اور معاشرہ اسی وقت بہار افروز ہوگا جب ہم سب مل کر رشتوں ناتوں میں وہی رنگ بھر دیں گے جس کی تعلیم اللّہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں دی اور اب جدید سائنس بھی اسی کا تقاضا کرتی ہے۔
چلو اب مل کے ہجر و حبس کا موسم بدلتے ہیں
ذرا سا تم بدل جاؤ، ذرا سا ہم بدلتے ہیں

( انگارے۔۔۔حیات عبداللہ )

یہ بھی پڑھیں: عائشہ ام المؤمنین رضی اللہ عنہا کے اجر میں شراکت