سوال (5938)
موجودہ حالات میں تحریک لبیک اور گورنمنٹ کے درمیان جو معاملات ہوئے ہیں اور پولیس اور رینجرز کی کارروائی میں جو ہلاکتیں ہوئی ہیں شرعی اعتبار سے ان افراد کی اموات کس زمرہ میں آئیں گی جبکہ انہوں نے حکومت کے خلاف خروج کیا؟
جواب
اللہ اعلم. اللہ رب العالمین ایسے فتنوں اور ان میں موت سے ہر ایک کو بچائے!
فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ
پیارے بھائی ٹی ٹی پی والے تو مسلح خروج کرتے ہیں ان پہ آپ یہ بات کر سکتے ہیں۔
البتہ یہ مسلح خروج نہیں تھا بلکہ انکے بقول یہ پر امن احتجاج تھا۔
میرے خیال میں بھی شاید وہ غیر مسلح تھے یہ اس طرح نکلنے اور روڈ بلاک کر کے لوگوں کو تکلیف میں ڈالنے کو جرم کہا جا سکتا ہے حکومت کی اجازت کے بغیر جلوس نکالنے کو جرم کہا جا سکتا ہے البتہ اسکو ٹی ٹی پی جیسا خروج قرار نہیں دیا جا سکتا یہ میری رائے ہے۔
باقی جو شہادت کے بارے سوال ہے تو اس کے لئے پہلی شرط تو عقیدہ کہ ہے چاہے پولیس والا ہو یا ٹی ایل پی والا ہو اگر اسکا عقیدہ درست نہیں تو اسکو کبھی شہید نہیں کہا جا سکتا ہے۔
اور دونوں طرف میں جن کا عقیدہ درست تھا ان کے شہید ہونے کی دوسری شرط علامہ ابتسام الہی ظہیر حفظہ اللہ کے ہی ایک کالم میں بیان ہوئی تھی کہ انکی نیت دیکھی جائے گی کہ وہ پولیس والے کس نیت سے یہ کام کر رہے تھے اور لبیک والے کس نیت سے یہ کام کر رہے تھے دونوں اجتہادی غلطی پہ بھی ہو سکتے ہیں یا ایک اجتہادی غلطی پہ بھی ہو سکتا ہے دونوں جنت میں بھی جا سکتے ہیں۔
جیسے علیؓ نے کہا تھا کہ قتلانا وقتلاھم فی الجنۃ پس اگر آپ پہلی شرط ثابت کر دیتے ہیں کہ عقیدہ درست ہے تو پھر دوسری شرط نیت ہو گی۔ واللہ اعلم
فضیلۃ العالم ارشد حفظہ اللہ
سائل: جزاکم اللہ خیرا کثیرا محترم عقیدہ اور نیت تو اللّٰہ تعالیٰ ہی جانتے ہیں، اصل سوال یہ ہے کہ ہمارا اس موقع پر کیا کام اور موقف ہونا چاہیے تاکہ ہم گناہ سے بچ سکیں؟
جواب: جی محترم بھائی نیت تو کوئی نہیں جانتا مگر عقیدہ تو ہم اکثر کا جان سکتے ہیں اور جس کا نہیں جانتے اس کے بارے کچھ سوچنے کی ضرورت ہی کیا ہے کہ وہ شہید ہیں یا نہیں ہیں
پس ہمارا اس موقع پہ بس یہ اصولی موقف ہونا چاہئے کہ جس کا عقیدہ درست ہو گا اور جسکی نیت درست ہو گی وہی شہید ہو گا اسی لئے تو کہتے ہیں کہ کسی کو شہید کہیں تو ساتھ ان شاللہ کہیں ۔ اسی پہ امام بخاری نے وہ باب باندھا ہے کہ لا یقول فلان شہید.
فضیلۃ العالم ارشد حفظہ اللہ
سائل: شیخ محترم ایک طرف TLP یا دوسرے حضرات انکا عقیدہ درست نہیں لیکن دوسری طرف وہ رسول اللہ سے بے پناہ محبت بھی کرتے ہیں کیا وہ شہید نہیں کہلائیں گے ؟کیا ان کو مشرک کہا جاۓ گا صرف عقیدہ درست نا ہونے کی بنیاد پر؟
ایک اعتراض انکا یہ بھی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ توحید تو شیطان کی بھی بہت پختہ تھی لیکن وہ بھی دھتکار دیا گیا رسول کی نافرمانی کرنے کی وجہ سے تو صرف توحید کا کوئی فائدہ نہیں بطور مثال شیطان
اسکی وضاحت کردیں
جزاک اللہ خیرا
جواب: پیارے بھائی آپ کے دو اشکال ہیں پہلا یہ اشکال کہ اگر مشرک بھی نبیﷺ سے شدید محبت کرے تو اسکا شرک معاف کر کے اسکو شہید کہا جا سکتا ہے دوسرا یہ اشکال کہ کیا شیطان کی بھی توحید پختہ تھی اور وہ گناہگار توحید کی وجہ سے نہیں بلکہ رسول اللہ کی نافرمانی کی وجہ سے ہوا رسول اللہ سے محبت نہ کرنے کی وجہ سے ہوا
پہلا اشکال:
آپ کو علم ہے کہ قرآن کہتا ہے کہ ان اللہ لایغفر ان یشرک بہ کہ اللہ شرک کو معاف نہیں کرتا باقی کسی چیز کو معاف کر سکتا ہے لیکن آپ سمجھتے ہیں کہ جو نبیﷺ سے محبت کرنے لگے تو پھر اس محبت کی وجہ سے وہ شرک بھی معاف ہو سکتا ہے لیکن آپ نے سورہ زمر کی آیت 65 پڑھیں تو پتا چلے گا کہ جس نبیﷺ کی محبت کی وجہ سے آپ شرک کی چھوٹ دے رہے ہیں خود اس نبیﷺ کو اللہ نے کیا کہا فرمایا:
وَلَقَدْ أُوحِيَ إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكَ لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ
کہ تم کو بھی یہ بات بتا رہے ہیں اور تم سے پہلے ہر نبی کو بھی یہ بتایا ہے کہ تم نے بھی اگرشرک کیا تو تیرے سارے اعمال ضائع ہو جائیں گے مزید وضاحت کی ضڑورت تو نہیں لیکن میں دو مثالیں بتا دیتا ہوں ایک ابو طالب کی ہے جو ہم سب سے زیادہ نبیﷺ سے محبت کرتے تھے ان کے بارے احمد رضا خان بریلوی کی اپنی فتاوی رضویہ کی انتیسویں جلد میں ایک رسالہ ہے جس میں انہوں نے ابو طالب کے بارے لکھا ہے کہ انکو اپنی اولاد اور پوری دنیا سے زیادہ محبت رسول اللہ ﷺ سے تھی مگر شرک کی وجہ سے انکی بخشش نہیں ہوئی اور اللہ نے قرآن میں انکا جنازہ پڑھانے سے منع کرتے ہوئے ما کان للنبی والذین امنوا ان یستغفروا للمشرکین کی آیت ارات دی (یہ سب اسی رسالہ میں لکھا ہے جو دعوت اسلامی کی ویب سائیٹ پہ بھی موجود ہے شرح المطالب فی مبحث ابی طالب نام ہے) اسی میں احمد رضا خان ابوداود اور مصنف ابن ابی شیبہ کی روایت لاتے ہیں کہ جب ابو طالب فوت ہوئے تو علیؓ نے نبیﷺ کو کہا ان عمک الشیخ الضال قد مات قال اذھب فوار اباک ۔ یعنی علی نے کہا کہ آپ کا گمراہ بوڑھا چچا فوت ہو گیا تو فرمایا کہ جاو اور اسکو دفن کر دو یعنی نہ علیؓ نے جنازہ پڑھا نہ رسول اللہﷺ نے پڑھا
دوسری مثال اسی علیؓ کی ہے کہ جو لوگ علیؓ سے شدید محبت کرتے تھے مگر شرک کرتے ہوئے انکو رب کہتے تھے ان قوم زط کے ستر بندوں کو علی نے آگ میں ڈلوا لیا بخاری میں جسکا ذکر موجود ہے۔
پس یاد رکھیں مشرکین مکہ کو بھی آپ ﷺ سے محبت تھی وہ آپ کو مانتے تھے انکو اختلاف تھا تو اللہ کے احکامات پہ تھا یعنی تاحید پہ تھا رسول اللہ ﷺ سے نہیں تھا اس کو سورہ انعام کی آیت 33 میں یوں بیان کیا ہے کہ فإنهم لا يكذبونك ولكن الظالمين بآيات الله يجحدون یعنی انکو آپ سے کوئی مسئلہ نہیں انکا مسئلہ تو اللہ کی نافرمانی ہے۔
دوسرا اشکال:
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ شیطان کی توحید بہت پختہ تھی انکو توحید کی الف ب کا علم نہیں توحید کا معنی اللہ کی اطاعت اور عبادت ہے تو شیطان کے شیطان بننے کی ابتدا ہی اللہ کی نافرمانی سے ہوئی جب اس نے سجدے سے انکار کیا اور اپی ناقص عقل کو اللہ کے حکم پہ فوقیت دی کہ میں آگ سے پیدا کیا گیا ہوں اور یہ مٹی سے پیدا کیے گئے ہیں۔
ہاں آپ نے جو لکھا کہ صرف توحید کا کوئی فائدہ نہیں جب تک محبت رسولﷺ نہ ہو تو یہ بات بات سو فیصد درست ہے بلکہ بخاری میں رویت ہے کہ عمر ؓ نے رسول اللہ ﷺ کو کہا کہ لانت احب الی من کل شئی الا من نفسی کہ آپ مجھے ساری دنیا سے زیادہ محبوب ہیں سوائے میری جان کے تو آپ ﷺ نے کہا لا والذی نفس محمد بیدہ حتی اکون احب الیک من نفسک تو نبیﷺ نے کہا کہ میں محمد کی جس کے ہاتھ میں جان ہے اسکی قسم تم مومن نہیں ہو سکتے جب تک مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ محبوب نہ کر لو تو پھر عمرؓ نے کہا الان یا رسول اللہ ﷺ لانت احب الی من نفسی کہ آج کے بعد آپ مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں پس محبت رسول ﷺ کے بغیر توحید کسی کام کی نہیں اسکی بھی مثال عبداللہ بن ابی کی موجود ہے جو نیک اعمال کرتا تھا نمازیں پڑھتا تھا جہاد بھی کرتا تھا لیکن محبت رسول ﷺ نہیں تھی تو رسول اللہ ﷺ نے جنازہ بھی پڑھایا اپنا کرتا بھی دیا لعاب بھی ڈالا لیکن کچھ اس کے کام نہ آ سکا
پس یاد رکھیں خالی توحید کا بھی فائدہ نہیں اور خالی محبت کا بھی فائدہ نہیں دونوں میں سے ایک دوسرے کی جگہ کفایت نہیں کرتی ہے اوپر آیات اور ثالوں سے واضح ہے۔
فضیلۃ العالم ارشد حفظہ اللہ




