مولانا حافظ عبدالعزیز علوی رحمۃ اللہ علیہ علم وعمل کے پیکر
ضلع فیصل آباد کی تحصیل جڑاں والا کا گاؤں چک 36 گ ۔ب اس اعتبار سے بڑا منفرد ہے کہ اسے بہت سے علماء، حفاظ اور اہل اللہ کا مسکن ہونے کا شرف حاصل ہے اور اس اعتبار سے ملک بھر میں کوئی دوسرا گاؤں اس کا سہیم و شریک نہیں ہے … حافظ عبداللہ محدث بڈھیمالوی، حافظ احمد اللہ محدث بڈھیمالوی، مولانا عبدالحکیم بڈھیمالوی، مولانا عبدالغنی بڈھیمالوی، مولانا عطاء اللہ، مولانا محمد عمر، مولاناعبداللہ امجد چھتوی، مولانا قاضی محمد اسلم سیف، مولانا عائش محمد، مولانا عتیق اللہ سلفی، مولانا غلام اللہ امرتسری، مولانا قدرت اللہ اور دیگر بے شمار علماء کرام کاتعلق اسی دور افتادہ گاؤں سے ہے اوران میں سے مولانا عتیق اللہ سلفی حفظہ اللہ کے سوا دیگر تمام حضرات راہگرائے ملک جاوداں ہو چکے ہیں…اسی سلک مروارید سے منسلک ہمارے فاضل دوست اور بھائی حضرت مولانا حافظ عبدالعزیز علوی رحمہ اللہ شیخ الحدیث جامعہ سلفیہ فیصل آباد بھی تھے، جو 10 دسمبر 2024 ء کو داعی اجل کو لبیک کہتے ہوئے ہمیں داغ مفارقت دے گئے ہیں، درج ذیل سطور میں حضرت حافظ صاحب ہی کا ذکر خیر مقصود ہے!
حافظ عبدالعزیز علوی رحمہ اللہ حافظ احمداللہ رحمہ اللہ کے سب سے بڑے صاحبزادے تھے، جو قیام پاکستان سے ساڑھے چار سال قبل 15 فروری 1943ء کو ضلع فیروز پور (بھارت) کے مشہور و معروف گاؤں بڈھیمال میں پیدا ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد بڈھیمال کے دیگر بہت سے لوگوں کی طرح آپ کا خاندان بھی مشکل مراحل سے گزرنے اور ہجرت کی صعوبتوں کو برداشت کرنے کے بعد چک 36 گ۔ ب میں سکونت پذیر ہوگیا۔
آپ کی تعلیم کا آغاز بہت چھوٹی عمر میں بڈھیمال ہی میں ہوگیا تھا،قیام پاکستان کے کچھ عرصہ بعد ہی آپ کے والد گرامی حافظ احمد اللہ تدریس کے فرائض انجام دینے کے لیے تاندلیانوالہ کے قریب جھوک دادو کے مدرسہ خادم القرآن و الحدیث میں تشریف لے گئے جسے حضرت مولانا میاں محمد باقررحمہ اللہ نے قائم فرمایا تھا۔ حضرت میاں صاحب بہت ہی عابد وزاہد شخصیت اور حضرت حافظ عبدالمنان محدث وزیر آبادی رحمہ اللہ کے تلمیذ رشید تھے۔ ہمارے ممدوح حافظ عبدالعزیز علوی نے اسی گاؤں کے سرکاری سکول میں پرائمری تک تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد آپ کے والد گرامی اوکاڑہ چلے گئے تو آپ نے وہاں مڈل کا امتحان پاس کیا اورپھر انہوں نے 1961 ء میں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ طور پر فیصل آباد میں میٹرک کا امتحان فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔ جب کہ اسی سال ہمارے گاؤں کے جن طلبہ نے میٹرک کا امتحان باقاعدہ سکول کی طرف سے دیا تھا، وہ سب ناکام ہوگئے تھے۔ آپ نے جب میٹرک کا امتحان دیا اس وقت آپ کے والد مدرسہ دارالقرآن والحدیث جس کا آج کل نام کلیۃالقرآن والحدیث ہے…میں تدریس کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ اس طرح آپ نے بھی پانچ سال تک اسی مدرسے میں تعلیم حاصل کی اور پھر 1963ء میں آپ نے جامعہ محمدیہ اوکاڑہ میں داخلہ لے لیا۔1964ء میں جب حکومت پاکستان نے ریاست بہاول پور کے عباسی خاندان کے قائم کردہ جامعہ عباسیہ کو جامعہ اسلامیہ کے نام سے ایک محدود دینی یونیورسٹی کا درجہ دے دیا، آپ نے بھی اس یونیورسٹی میں داخلہ لینے کا پروگرام بنایا، اس میں داخلہ کے لیے طلبہ کا کسی دینی مدرسے کا فارغ التحصیل ہونا شرط اور داخلہ ٹیسٹ میں کامیاب ہونا ضروری تھا، آپ اگر چہ کسی مدرسہ کے ابھی فارغ التحصیل تو نہ تھے تاہم آپ نے امتحان میں شامل ہونے کی تیاری شروع کر دی، اس امتحان میں تین سو سے زیادہ طلبہ شریک ہوئے، جن میں سے صرف سترہ کامیاب ہوئے اور ان میں سے ایک آپ بھی تھے۔ جامعہ اسلامیہ بہاول پور میں آپ نے جن اساتذہ کرام سے کسب فیض کیا، ان میں مولانا شمس الحق افغانی، مولانا عبدالرشید نعمانی اور مولانا احمدسعید کاظمی کے نام بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ آپ اپنے ان اساتذہ کا بے حد احترام کرتے اور وہ بھی آپ کی ذہانت و فطانت، محنت اور شرافت کی وجہ سے بہت شفقت فرماتے تھے۔ آپ فارغ اوقات میں اپنے اساتذہ کی رہائش گاہ پر بھی چلے جاتے، ان سے استفادہ کرتے یا کوئی کتاب لے کر مطالعہ کرتے۔ مولانا احمد سعید کاظمی کا احناف کی بریلوی شاخ سے تعلق تھا اور وہ ملتان کے مدرسہ انوار العلوم کے مہتمم اور شیخ الحدیث تھے۔ جنرل ضیاء الحق کی قائم کردہ مجلس شوریٰ کے رکن اور اپنے حلقے میں غزالی دوراں کے لقب سے مشہور تھے، انہوں نے ایک بار اپنے اس ہونہار شاگرد سے فرمایا کہ کسی وقت ملتان آنا، میں اپنے مدرسہ انوار العلوم کی آپ کو سند دوں گا۔ آپ کو افسوس تھا کہ آپ ملتان جاکر مولانا کاظمی سے سند حاصل نہ کرسکے۔ آپ کے استاذ مولانا عبدالرشید نعمانی بھی وقتاً فوقتاً پندونصائح سے نوازتے رہتے تھے، ایک دفعہ انہوں نے آپ کو نصیحت فرمائی کہ دس پندرہ سال تدریس سے پہلے تصنیف و تالیف کا کام شروع نہ کرنا کیونکہ علمی پختگی تدریس ہی سے پیدا ہوتی ہے۔
جامعہ محمدیہ اوکاڑہ میں تعلیم کی تکمیل سے پہلے ہی آپ نے جامعہ اسلا میہ بہاول پور میں داخلہ لے لیا تھا، اس لیے جامعہ اسلامیہ سے فراغت کے بعد آپ جامعہ محمدیہ اوکاڑہ ہی میں آگئے تاکہ مروّج نصاب کے مطابق اپنی تعلیم کی تکمیل کر لیں۔ اس وقت جامعہ محمدیہ میں استاذ گرامی منزلت حضرت مولانا محمد عبدہ الفلاح رحمہ اللہ شیخ الحدیث کے منصب پرفائز تھے۔ آپ نے ان سے صحیح بخاری شریف اور کچھ دیگر کتابوں کا درس لیا اور اس کے ساتھ ساتھ جامعہ محمدیہ کے بہت سے طلبہ کو فاضل عربی کے امتحان کی تیاری کروائی، خصوصاً
’’ تفسیر بیضاوی‘‘ اور مشہور مصری ادیب لطفی منفلوطی کی ادب کی کتاب ’’العبرات ‘‘ تو ان طلبہ کو سبقاً سبقاً پڑھائی حالانکہ یہ دونوں کتابیں آپ نے نہیں پڑھی تھیں لیکن محنت سے مطالعہ کرکے آپ نے انہیں پڑھایا اور اگر کسی جگہ دشواری محسوس ہوتی تو استاذ محترم مولانا محمد عبدہ الفلاح رحمہ اللہ سے رہنمائی لے لیتے۔ آپ اپنے اس استاذ محترم سے بہت متاثر اور ان کے اسلوب تدریس کے بے حد مداح رہے، بحمد للہ راقم کو بھی ادارہ علوم اثریہ فیصل آباد میں استاذ محترم سے تلمذ کا شرف حاصل ہوا۔ بہرحال آپ کے لیے جامعہ محمدیہ میں فاضل عربی کے طلبہ کو پڑھانا تدریس کا پہلا تجربہ تھا، جو مستقبل میں آپ کے بہت کام آیا۔ آپ نے1966 ء میں نصاب کی تکمیل کے بعد سند فراغت حاصل کرلی، آپ کو جامعہ محمدیہ کی طرف سے بہترین طالب علم ہونے کا انعام بھی ملا۔ جامعہ محمدیہ اوکاڑہ سے سند فراغت حاصل کرنے کے باوجود آپ نے علمی تشنگی کی مزید تسکین کے لیے حضرت الامام حافظ محمد محدث گوندلوی رحمہ اللہ کی خدمت اقدس میں حاضری کا پروگرام بنایا اور1967 ء میں حضرت الشیخ الحافظ گوندلوی رحمہ اللہ سے جامعہ اسلامیہ گوجرانوالہ میں صحیح بخاری اور قرآن مجید کے پندرہ پاروں کا ترجمہ پڑھا اور اسی اثناء میں خود ہی قرآن مجید حفظ کرنے کی بھی سعادت حاصل کی۔ یاد رہے آپ کے والد گرامی شیخ الحدیث حافظ احمد اللہ رحمہ اللہ بھی حضرت حافظ محدث گوندلوی رحمہ اللہ کے ارشد تلامذہ میں سے تھے۔
1967 ء میں حضرت حافظ محدث گوندلوی رحمہ اللہ سے کسب فیض کے بعد آپ نے حضرت مولانا حکیم عبدالرحیم اشرف رحمہ اللہ کی پیش کش کوقبول کرتے ہوئے جامعہ تعلیمات اسلامیہ فیصل آباد سے تدریس کا آغاز کیا اور 1976ء تک مسلسل پانچ سال تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے۔ اسی اثناء میں آپ کا یہ بھی معمول رہا کہ قریباً ہر جمعرات کے دن اسباق سے فراغت کے بعد احباب کرام جناب قاری محمد ایوب فیروز پوری رحمہ اللہ، برادر مکرم حضرت مولانا ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ اور دیگر سے ملاقات کے لیے ادارہ علوم اثریہ میں تشریف لاتے رہے، ان دنوں راقم کا قیام بھی اسی ادارے میں تھا، اس لیے آپ کی زیارت کے مواقع میسر آتے رہے۔
اس کے بعد 1973 ء میں ایک سال جامعہ تعلیم الاسلام ماموں کانجن، 1974 ء میں
ایک سال دارالقرآن و الحدیث اور دو سال خطیب پاکستان مولانا محمد حسین شیخوپوری رحمہ اللہ کے قائم کردہ جامعہ محمدیہ میں تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے اور پھر 1977ء سے1986 ء تک حضرت مولانا سید حبیب الرحمن شاہ بخاری رحمہ اللہ کی دعوت پر راولپنڈی کے مدرسہ تدریس القرآن و الحدیث میں نوسال تک مسند تدریس پرفائز رہے۔ 1984 ء میں راقم اسلامی نظریاتی کونسل اسلام آباد سے وابستہ ہو گیا تھا، اس عرصہ میں ایک دوبار آپ کے ہاں قیام کاموقع ملا، اسی طرح ایک بار آپ بھی غریب خانہ پرتشریف لائے تھے1987-88 میں پھر دو سال جامعہ تعلیم الاسلام ماموں کانجن میں پڑھانے کے بعد 1989 ء میں ملک کی عظیم دینی دانش گاہ جامعہ سلفیہ فیصل آباد میں تشریف لے آئے اور تادم واپسیں جامعہ سے وابستہ رہے۔ اس طرح جامعہ سلفیہ میں آپ36 برس تک مسند تدریس پر فائز رہے۔ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ تعلیم سے فراغت کے بعد آپ نے ساری زندگی درس و تدریس میں بسر فرما دی، آپ نے مدارس میں رائج نصاب کے مطابق پہلی جماعت سے لے کرآخری جماعت کی تمام کتابیں کئی کئی بارپڑھائیں۔ پچاس سے بھی زیادہ مرتبہ تک آپ کو صحیح بخاری شریف پڑھانے کی سعادت نصیب ہوئی، اس باب میں دور دور تک آپ کا کوئی سہیم و شریک نہیں۔ آپ نہایت قابل، محنتی، ذہین و فطین اور طلبہ کے لیے سراپا محبت و شفقت استاد تھے۔ نہایت حلیم الطبع اور مرنجان مرنج طبیعت کے مالک تھے۔ بشری تقاضے کے مطابق اگر کبھی غصہ بھی آجاتا تو اس پر فوراً قابو پالیتے تھے، غصے کے عالم میں بھی آپ کی زبان پر ’’سبحان اللہ‘‘ کے الفاظ جاری ہو جاتے۔ کسی طالب علم کو اس کی کسی غلطی پر روکتے ٹوکتے تو اسے برا بھلا کہنے کے بجائے ’’شریف آدمی‘‘ کہہ کر مخاطب فرماتے، بلاشبہ ہزاروں طلبہ کے سینوں کو آپ نے علم و معرفت کے نور سے منور کیا اور اب تو آپ کے شاگردوں کے شاگرد بھی دین کی تبلیغ و اشاعت کے مختلف میدانوںمیں سرگرم عمل ہیں اوریہ ہزاروں لوگ آپ کے لیے صدقہ جاریہ ہیں۔
درس و تدریس کے علاوہ تصنیف و تالیف اور ترجمہ کے میدان میں بھی آپ نے بہت کارہائے نمایاں سر انجام دیئے ہیں۔ صحیح بخاری شریف، صحیح مسلم اورسنن ترمذی مع علل کا ترجمہ و تشریح زیور طبع سے آراستہ ہو چکا ہے۔ بہت سے اہل علم کی کتابوں پر مقدمات لکھے اور بیسیوں مختلف عنوانات پر بہت وقیع مقالات بھی سپرد قلم کئے جو مختلف جرائد و مجلات میں طبع ہوئے… یادش بخیر! 1974 ء میں جب راقم اور برادر عزیز محمد سرور طارق نے مل کر اسلامی کتب کی اشاعت کا طارق اکیڈمی کے نام سے سلسلہ شروع کیا تو حضرت علوی رحمہ اللہ نے بے شمار دعاوں سے نوازا، ان کی محبت و شفقت صرف دعاوں تک ہی محدود نہ رہی بلکہ اکیڈمی کی بے شمار کتابیں ان کی نظرثانی سے شائع ہوئیں، کئی کتب پر ان کی طرف سے مقدمات بھی تحریر ہوئے۔ ’’ماہنامہ علم وآگہی‘‘ کی اشاعت کے بعد تو ان کی محبت و شفقت دو چند ہوگئی۔ علم وآگہی کے مختصر مگر جامع مضامین کی اکثر ستائش کرتے، دعائیں دیتے، اپنے شاگردوں کو بھی مطالعہ کی تاکید کرتے۔ ان کی توجہ دلانے سے کئی علماء باقاعدگی سے میگزین منگواتے ہیں۔ ان کی یہ شفقت، علمی رہنمائی اور دعائیں جہاں قدم قدم مکتبہ طارق اکیڈمی اور ماہنامہ علم وآگہی کے لیے سعادتوں کا باعث ہے وہاں حضرت علوی رحمہ اللہ کے بلندی درجات کا باعث بنے گی … 2004ء میں اپنے ایک پیغام میں علم وآگہی کو دعائیں اور شاباش دیتے ہوئے لکھا:
’’ماہنامہ’’ علم وآگہی‘‘ ایک علمی وتحقیقی اور ادبی سے زیادہ ایک اصلاحی، تعلیمی، دعوتی اور تربیتی ماہنامہ ہے اور اسم بامسمیٰ کے مصداق، پڑھنے والوں کے علم وآگہی میں اضافہ کا باعث ہے۔ اس کے قارئین اور قلمی معاونین بھی دن بدن بڑھ رہے ہیں اور اس کی اشاعت مسلسل وسعت پذیر ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے منتظمین، متعلقین اور معاونین کے علم،مال ودولت اور صحت وعافیت میں خیروبرکت فرمائے تاکہ یہ سلسلہ ہمیشہ جاری رہے‘‘۔
ان کے محبتوں بھرے یہ کلمات خیر ادارہ علم وآگہی کے جملہ منتظمین کے لیے ایک سند اور اعزاز کی حیثیت رکھتے ہیں۔
آپ کے والد گرامی حضرت حافظ احمد اللہ رحمہ اللہ نے اپنی وفات سے دو تین سال پہلے گاؤں میں اپنی جگہ پر خطبہ جمعہ کی ذمہ داری بھی آپ کے سپرد فرما دی تھی، اس لیے تب سے لے کر اب تک گاؤں کی جامع مسجد میں خطابت کے فرائض بھی انجام دے رہے تھے۔علمی رسوخ کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے آپ کو عمل صالح کی بیش بہا دولت سے بھی نوازا تھا۔ حافظ قرآن تھے، کثرت کے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت فرماتے۔ سوموار اور جمعرات کا روزہ رکھتے، عبادت و ریاضت، تہجد گزاری و شب زندہ داری، مناجات اور ذکر و فکر الٰہی راتوں کے معمولات تھے۔ ایک بار میں نے رات کے اذکار کے بارے میں پوچھا تو آپ نے ان اذکار کی ایک طویل فہرست بتائی جو آپ کا روزانہ کا معمول تھے۔
آپ کی صحت اچھی تھی البتہ کچھ سالوں سے شوگر کا عارضہ تھا، علاج کے ساتھ ساتھ آپ پرہیز بھی بہت کرتے تھے۔ آخری دنوں میں علیل ہوئے تو علاج کے لیے فیصل آباد کے ایک نجی ہسپتال میں داخل کرادیئے گئے، علاج معالجہ جاری تھا کہ وہ وقت موعود آ پہنچا جس سے کسی بھی فرد بشر کو استثنا حاصل نہیں ہے۔ اس طرح 10 دسمبر بروز منگل بعد از نماز مغرب یہ المناک خبر پورے ملک میں آنا ً فاناً پھیل گئی کہ مجسم علم و عمل، پیکر نجابت و شرافت، مصنف و مترجم، مفتی و خطیب اورشیخ الحدیث جامعہ سلفیہ فیصل آباد حضرت مولانا حافظ عبدالعزیز علوی رحمہ اللہ وفات پاگئے ہیں۔ اگلے روز 11 دسمبر 2024 ء بروز بدھ صبح ساڑھے دس بجے کریسنٹ گراونڈ نزد ملت چوک فیصل آباد میں حضرت مولانا حافظ مسعود عالم حفظہ اللہ کی زیر امامت نماز جنازہ ادا کی گئی، جس میں ملک بھر کے اطراف واکناف سے آنے والے ہزاروں لوگوں نے شرکت کی، جن میں ایک بہت بڑی تعداد حضرات علماء و مشائخ اورآپ کے شاگردوں کی تھی۔
جامعہ کے مدیر برادر مکرم جناب چودھری محمد یٰسین ظفر حفظہ اللہ نے اس موقع پر ہر طرح کے بہترین انتظامات کیے تھے تاکہ جنازہ ادا کرنے والوں کو کوئی دشواری محسوس نہ ہو، اسی طرح دوسری نماز جنازہ آپ کے گاؤں چک36 گ۔ ب میں ہوئی،وہاں امامت کے فرائض آپ کے برادر اصغر مولانا حافظ عبدالکبیر علوی حفظہ اللہ نے ادا کئے اورچک 36 گ۔ب کے قبرستان میں ا للہ تعالیٰ کی یہ امانت اس کے سپرد کر دی گئی۔
اللّٰھم اغفرلہ و ارحمہ وعافہ واعف عنہ وادخلہ الجنۃ الفردوس وارفع درجاتہٖ فی اعلیٰ علیین!
تحریر: مولانا محمد خالد سیف
ماہنامہ علم و آگہی فیصل آباد
برائے میگزین رابطہ 03002945666