آہ آج مولانا عبدالخالق سندھی بھی سفر آخرت کے راہی بن گئے
انا للہ وانا الیہ راجعون
عبدالرحیم ثاقب سموں صدرمدرس جامعہ دارالعلوم السلفیہ مٹھی روڈ نواکوٹ تھرپارکر
عجب قیامت کا حادثہ ہے، آستیں نہیں ہے
زمین کی رونق چلی گئی ہے، اُفق پہ مہر مبین نہیں
تری جدائی سے مرنے والے، وہ کون ہے جو حزیں نہیں ہے
مگر تری مرگ ناگہاں کا اب تک یقین نہیں ہے
یہ اشعار شورش کاشمیری نے مولانا ابو الکلام آزاد رحمہ اللہ کے سانحہ وفات پر کہے تھے او راب حال میں کچھ یوں ہوا جس کا بیان کرنا اشک بہائے بغیر ممکن ہی نہیں۔ ابھی مولانا محمد بلال جونیجو رحمہ اللہ کا سانحہٴ وفات کا زخم تازہ ہی تھا کہ تھرپارکر سے تعلق رکھنے والے والے بزرگ عالم دين مولانا عبدالخالق سندھی رحمہ اللہ جوکہ پروفيسر مولابخش محمدی صاحب کے چچا تھے اور سید انور شاہ راشدی حفظہ اللہ کے سسر کے والد کی وفات کے حادثے نے دلوں پر بجلی گرادی۔ اس الم ناک خبر نے دل ودماغ کو ہر دوسرے موضوع سے بے گانہ کر دیا۔ ہر جانے والا اپنے پیچھے ایسا مہیب خلا چھوڑ کر جارہا ہے کہ اس کے پُر ہونے کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔ جہاں تک علم کے حروف ونقوش، کتابی معلومات اور فن کا تعلق ہے اس کے کرنے والوں کی تو کوئی کمی نہیں، لیکن دین کا راسخ عالم وطہارت، سادگی وقناعت او رتواضع وللہیت کا البیلا انداز، جو کتابوں سے نہیں، بلکہ صرف اور صرف بزرگوں کی صحبت سے حاصل ہوتا ہے، آہستہ آہستہ ختم ہو رہا ہے۔
مولانا عبدالخالق سندھی رحمہ اللہ صاحب ایک ایسی شخصیت تھے کہ جس شجر سایہ دار تلے پہنچ کر ہر کس وناکس راحت وسکون پاسکتا تھا۔
فضیلۃ الشیخ مولانا عبدالخالق سندھی صاحب پورے سندھ کے سلفی علماء کی نظر میں احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے سندھی صاحب کی شخصیت ایسی دل نواز، حیات افروز اور ایسی باغ وبہار تھی کہ جس کی خصوصیات کو ایک مختصر تحریر میں سمونہ مشکل ہے ۔ ہر فن میں الله تعالیٰ نے انہیں ایک خاص ملکہ عطا فرمایا تھا۔ علم حدیث سے شغف اور انتہائی رقیق القلب بزرگ تھے ۔
دینی معلومات کا خزانہ تھے۔ شیخ سندھی صاحب وقت کے بھترين داعی اور خطیب تھے ۔ میں نے جب بھی ان کا خطاب سنا تو بھی شیخ سندھی صاحب کے سامنے موضوع پر دلائل ۔کے انبار ہوتے قرآن مجید کی تلاوت کرتے وقت اشکبار ہوجاتے ایک مرتبہ مجھے ان کی آبائی گاؤں حاجی مکو خورم میں خطاب سننے کا موقع ملا تو کیا دیکھتا ہوں کہ پوری مسجد سسکیوں سے گونج اٹھی کوئی آنکھ ایسی نہیں جو اشکبار نہ ہو
شیخ سندھی صاحب خوبصورت و،درمیان قد ،سفید ریش بزرگ تھے۔ کوئی اگر آپ کو دیکھتا تو آنکھ ہٹانے کو اس کا دل نہ چاہتا۔ رنگ گورا سرخی مائل تھا۔ چہرے سے نورانیت ٹپکتی تھی، داڑھی پوری سنت کے مطابق تھی۔ ان کا چہرہ بارعب تھا۔ غصے کے وقت ان کے چہرے پر جلال کی ایک کیفیت طاری ہو جاتی تھی۔ با ت کرتے تو ہر کوئی ان کی گفتگو سے ان کا گرویدہ ہو جاتا۔ صاف صاف الفاظ میں گفتگو فرماتے، جس سے کوئی بھی ان کی بات سمجھے بغیر نہ رہتا۔ شیخ سندھی کو الله تعالیٰ نے جو دعوت وتبليغ کا ملکہ عطا فرمایا تھا، وہ شاذ ونادر ہی کسی کو نصیب ہوتا ہے ۔ آپ اردو اور سندھی زبان میں وعظ کرتے تھے
شیخ سندھی رحمہ اللہ سادہ، خوش اخلاق تھے۔ کوئی بڑے سے بڑا سخت،سنجیدہ شخص بھی آپ کی مجلس میں مسکرائے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ الله تعالیٰ نے ان کو بہت سی خوبیاں بھی عطا فرمائی تھی
شیخ سندھی رحمہ اللہ ایک ممتاز عالم دین، بے لوث مجاہد اور ایک بزرگ وروحانی شخصیت بھی تھے۔ شیخ سندھی کی شخصیت کو تمام علمی حلقوں میں بھی عزت واحترام اور عقیدت ومحبت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔
شیخ سندھی رحمہ اللہ کی قوت حافظہ، وسعت مطالعہ، ذوق کتب بینی، اکابر واسلاف کے تذکروں سے ان کا شغف دین کے لیے ان کا خاص جذبہ للہیت، ان کی نجی محافل اور اسباق، میں علماء اھل حدیث اور مسلک سے محبت، ان کا ذوق مہمان نوازی، ان کی باغ وبہار استاذوں اور شاگردوں سے علمی مجلسیں۔ ان میں سے کوئی ایسی چیز نہیں جیسے ہم بھلا سکیں۔
شیخ سندھی رحمہ اللہ کی پوری زندگی دین کی خدمت میں گذری اور انہیں زندگی میں بہت بڑے حادثے سے گزرنا پڑا دو نوجوان بیٹوں کی شہادت ایک بوڑھے باپ پر کیا گزرتی ہے ۔میں نے ان جیسا صابر نہیں دیکھا ان کی زندگی سے ہمیں یہی سبق ملتا ہے کہ دین اور دینی داروں سے محبت کی جائے۔ علمائے حق کے زیر سایہ رہ کر ان کی اتباع واطاعت میں اپنی جان بھی پیش کرنے سے پیچھے نہ رہا جائے۔ حق چاہے کتنا بھی کڑوا کیوں نہ ہو اس کو بیان کرنے سے ہرگز پیچھے نہ ہٹنا چاہیے۔ بہرحال شیخ ہمارے بھائی شیخ پروفیسر مولابخش محمدی کے چچا تھے اور ہمارے بھی بزرگ تھے پیار دیتے دعائیں دیتے رحمہ اللہ رحمة واسعة ، شیخ پروفيسر مولا بخش محمدی پر بزرگ چچا جانے کا صدمہ بجلی بن کرگرا ہو گا،کیوں کہ نیکی اور دعاؤں کا باب بند ہوگیا ہے ایسی بزرگ شخصیت کا اس جہاں سے اٹھ جانا بہت بڑا صدمہ ہے ۔ الله تعالیٰ ان کو اور ان کے احباب ورشتے داروں کو صبر جمیل نصیب فرمائے۔ شیخ سندھی رحمہ اللہ کو اپنی آغوش رحمت میں جگہ عطا فرمائے اور ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین #
جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں
کہیں سے آبِ بقائے دوام لا ساقی
یہ بھی پڑھیں: شیخ محمد عطاء الرحمن مدنی بھی راہی ملک بقا ہوئے۔