شیخ الحدیث مولانا عبدالمجيد فردوسی کی رحلت!
انا للہ و انا الیه راجعون۔۔۔
شیخ الحدیث مولانا عبدالمجيد فردوسی( سینیر مدرس مدرسہ تقویة الإسلام 493 گب اوڈاں والا) کی رحلت!
رواں ماہ کی عیسوی حساب سے پہلی تاریخ تھی، ذہن میں اوڈاں والا کے بزرگان عالی مرتبت کی خدمت میں حاضر ہونے کا خیال دل میں پیدا ہوا، مغرب سے کچھ دیر بعد اوڈاں والا کی بڑی مسجد میں پہنچا، شیخ الحدیث حافظ امین یعقوب صاحب حفظه الله کی خدمت میں حاضری دینے کے بعد اپنے مہربان شیخ الحدیث مولانا عبدالغفور صاحب کی خدمت میں حاضر ہونے کے لیے چھوٹی مسجد کا رخ کیا، نماز عشاء کا وقت ہوتے ہی مولانا عبدالغفور صاحب نے راقم کو حکما مصلی امامت پر جا کھڑا کیا، انکار کی مجال کہاں؟ نماز کے بعد میں اپنے ساتھی سے گفتگو میں مشغول ہوگیا، جب مسجد سے باہر نکلنے لگے تو ساتھی نے مسجد کے ایک کونے میں کرسی پر براجمان پہلی صف کے ایک بزرگ کی طرف اشارہ کر کے بتایا کہ یہ مولانا عبدالمجید فردوسی ہیں، جو اس وقت ذکر و فکر میں منہمک تھے، مولانا کا نام تو اس سے پہلے بھی سن رکھا تھا لیکن ان سے یہ میری پہلی ملاقات تھی اور یہی آخری ملاقات ثابت ہوئی، میں مولانا کے قریب ہوا وہ ہماری طرف متوجہ ہوئے تو میں نے ان کو نہایت ادب سے آگے بڑھ کر سلام عرض کیا انہوں نے بھی خندہ پیشانی سے جواب دیا اور ساتھی سے میرے متعلق پوچھا یہ بچہ کون ہے؟ اس نے بتایا اس کا نام عبداللہ مرتضی ہے اور یہ فیصل آباد سے حاضر ہوا ہے۔ پھر مولانا نے پوچھا یہ کس علاقے سے ہے تو ساتھی نے بتایا یہ جھنگ سے ہے، مولانا نے یہ سن کر میرا مکمل پتا معلوم کر لیا تو میں نے عرض کی کہ آپ اصلا جھنگ کے ہیں یا وہاں آپ کے رشتہ دار رہتے ہیں تو مولانا نے بتایا کہ جھنگ سیٹلائیٹ ٹاؤن کی کسی مسجد میں طویل عرصے سے خطابت کے فرائض انجام دے رہے ہیں، میں نے ان سے مسجد کا مکمل پتا معلوم کیا اور دل ہی دل میں یہ عھد کر لیا کہ آئندہ گھر گیا تو جمعہ مولانا کی اقتداء میں اداء کروں گا لیکن اللہ کو یہ منظور نہیں تھا اب یہ پختہ عزم ایک نا ختم ہونے والی حسرت بن گیا ہے، جیسا کہ شروع میں عرض کیا کہ نماز کے بعد ہم بات چیت میں مشغول ہوگئے تھے مولانا نے ہمیں دیکھ لیا تھا کیوں کہ انہوں نے پہلی صف میں نماز پڑھی تھی، جب ہم ان سے اجازت لے کر چلنے لگے تو انہوں نے آخر میں نہایت مشفقانہ لہجے میں ہمیں نصیحت فرمائی کہ نماز کے بعد آپس میں گفتگو کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے اور دیر تک ذکر اذکار کرنے چاہئیں۔ ان کی نصیحت سننے کے بعد ہم نے ان سے اجازت لی اور مسجد سے نکل آئے لیکن مولانا حسب معمول دیر تک بیٹھے ذکر و فکر میں مشغول رہے۔
مولانا کچھ عرصہ سے بیمار تھے اس دن بھی بیماری کے اثرات ان پر موجود تھے، یہ میری ان سے پہلی اور آخری ملاقات تھی، اب وہ اللہ کے حضور پہنچ چکے ہیں، ہمیں حسن ظن ہے کہ وہ ایک نیک صالح، پرہیزگار، تقوی شعار شخصیت تھے، جس کی زندگی کا ایک ایک لمحہ خدمت دین حنیف کے لیے وقف تھا، انہوں نے تدریس و خطابت ہر دو میدانوں میں خدمت دین انجام دی، ہم اللہ رب العزت سے دست بدعا ہیں کہ وہ ان کی نشری لغزشوں سے درگزر فرمائے اور ان کے درجات بلند فرمائے ان کے لواحقین کو صبر جمیل عطاء فرمائے اور ان کے تلامذہ اور دیگر تعلق رکھنے والے احباب کو توفیق دے کہ وہ اس عظیم انسان کے حالات زیست قلمبند فرما کر ان کا جو ہم پر دعاؤں کے علاوہ حق ہے اس کو بھی اداء کرنے کی کوشش کریں۔ آمین یا رب العالمین۔
حرره: رانا عبداللہ مرتضی السلفي۔