مولانا عبدالرشید مجاہد آبادی حفظہ اللہ کا مختصر تعارف

«مَنْ يُرِدِ اللہ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ،»

جس شخص کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھلائی کا ارادہ کرے اسے دین کی سمجھ عنایت فرما دیتا ہے

شیخ الحدیث مولانا عبد الرشید مجاہد آبادی کا شمار پاکستان کے دینی مدارس کے مشہور مدرسین میں ہوتا ہے۔
ماشاءاللہ وہ نصف صدی سے زائد مدت سے خدمت تدریس انجام دے رہے ہیں۔ ہرفن کی تمام کتابیں کئی کئی دفعہ پڑھاچکے ہیں۔ علم صرف کی صرف بہائی سے لے کر شافیہ تک علم نحو کی نحو میر سے لے کر شرح جامی اور شرح ابن عقیل تک ۔ فقہ کی قدوری سے لے کر ہدایہ تک۔ اسی طرح اصول حدیث، اصول فقہ، عربی ادبیات اور دیگر مروجہ نصاب کی سب چھوٹی بڑی کتابوں کی تدریس پر انھیں عبور حاصل ہے۔ تفسیر وحدیث کی تدریس تو ان کا محبوب ترین موضوع ہے۔ تفسیر میں بیضاوی، جلالین اور جامع البیان کا درس متعدد مرتبہ دے چکے ہیں۔ پھر کتب حدیث میں بلوغ المرام سے لے کر صحیح بخاری تک کی تدریس کا مرحلہ نہایت حسن و خوبی کے ساتھ کئی دفعہ طے کر چکے ہیں۔ اب وہ صرف کتب حدیث پڑھاتے ہیں اور طلبا ان کے طرز تدریس اور انداز تفہیم سے بہت متاثر ہیں۔
علاوہ ازیں وعظ و خطابت میں بھی ان کا ایک خاص اسلوب ہے جس سے سامعین بے حد متاثر ہوتے ہیں۔ وہ جس جذبے اور خلوص سے اپنی بات لوگوں تک پہنچاتے ہیں، وہ ان کے دلوں میں بیٹھتی اور ذہنوں میں راسخ ہوتی چلی جاتی ہے۔
دعا ہے اللہ تعالیٰ صحت وعافیت کے ساتھ انھیں عمر دراز عطا فرمائے اور وہ ہمیشہ درس و تدریس اور وعظ خطابت کے ذریعے اس کے دین کی تبلیغ و اشاعت میں مصروف رہیں۔
آمین یا رب العالمین

●شیخ الحدیث مولانا عبدالرشید مجاہد آبادی حفظہ اللہ (رئیس: مركزاُم الھدی لاہور)کا مختصر تعارف

نام و پیدائش

کرشن لال(عبدالرشید) بن گوراں دتہ 1930 کو ڈھلیانہ رینالہ خورد میں پیدا ہوئے۔

●آئیں دیکھتے ہیں کرشن لال سے عبدالرشید کیسے بنا۔۔۔۔؟

کرشن لال مالدار گھرانے میں پیدا ہوا اس کے آباؤاجداد نے اپنے خرچے سے گاؤں میں ایک مندر یعنی “بت خانہ” بنایاتھا جس میں دیوی دیوتاؤں کی مورتیاں رکھی گئی تھی جس کی پوجا کرتے تھے کرشن لال بچپن میں اپنے مذہب کے مطابق مورتی پوجا اس کے سامنے پوجتا اس کے سامنے شبد اور بھجن پڑھتا اور آرتی کرتا تھا۔کرشن لال کے والد کی وفات کے بعد ان کی والدہ نے فیصلہ کرلیا کہ اب اپنے تین بیٹوں کی تربیت اور نگہداشت میں صرف ہوگی۔ ان کے گاؤں میں ایک پرائمری سکول تھا کرشن لال نے اسی سکول میں داخلہ لیا اور پرائمری تک پاس کی ان کے گاؤں سے ایک میل کے فاصلے پر موضع کماں میں وہ ینکلرمڈل سکول تھا، پرائمری پاس کرنے کے بعد وہ اپنے ہم جماعت لڑکوں کے ساتھ صبح جاتااور چھٹی کے بعد گھر آجاتا۔ کرشن لال چونکہ سمجھ دار اور ہوشیارتھا اس لیے سکول کی تعلیم کے علاوہ اس کے ذمے دو کام اور لگائے گئے تھے جو خاص مذہبی نوعیت کے تھے ان کے گاؤں ہندوؤں نے مندر میں پوجا پاٹھ کے لیے دیسی مہینے کی پہلی تاریخ مقرر کررکھی تھی۔ یہ کرشن لال کی ذمہ داری تھی کہ اس تاریخ کو وہ تمام ہندوؤں کے گھر میں جائے اور پوجا کے لیے انہیں مندر میں لائے۔
قارئین کرام سوچ رہے ہوں گے کہ ہم یہاں تک پہنچ گئے ہیں لیکن ابھی تک کرشن لال کے ساتھ ہی چل رہے ہیں،عبدالرشید کہاں ہے جس کے نام سے عنوان قائم کیا گیاان کی خدمت میں گزارش ہے کہ تھوڑی دیر صبر کیجئے ۔اب کرشن لال موضع کماں کے ورینکلر مڈل سکول میں داخل ہوگیا ہے اور اس کی عبدالرشید کا روپ دھار نے یا اس مذہب کے مطابق اپنی “جوانی “بدلنے کی پہلی منزل ہے اوروہ تھوڑی دیر کے بعد نہ صرف عبدالرشید ہوجائے گا بلکہ آپ دیکھیں گے کہ مولانا عبدالرشید کی شکل میں آپ کے سامنے ہوگا۔
سکول میں حسن اتفاق سے ان کے تمام اساتذہ مسلمان تھے ان میں سے ایک ماسٹر محمد زکریا ہیں، دوسرے ماسٹر احمد دین اور تیسرے ماسٹر معراج الدین۔یہ تینوں اساتذہ طلباء کے لیے
بے حد خیر خواہ تھے نہایت محبت سے پڑھاتے تھے لیکن ان کے ہم جماعت لڑکے ہندوبھی تھے، مسلمان بھی تھے، سکھ بھی تھے اور عیسائی بھی تھے چاروں مذاہب سے تعلق رکھنے والے یہ لڑکے گاؤں سے اکٹھے سکول جاتے اور اکٹھے واپس آتے ہیں۔آپس میں ان کی مذہبی چھیڑ چھاڑ بھی ہوتی رہتی اور ساتھ ہی باہمی محبت بھی ہے کرشن لال اپنے ساتھیوں سے کہا کرتا تھا کہ کرشن جی مہراج کا مرتبہ بہت بلند ہے اور وہی اصل بھگوان ہیں اس کی دلیل کیا ہے؟
اسکا صحیح جواب وہ نہیں دے سکتا۔بس وہی کچھ کہتا ہے جو اس نے گھر میں اپنے بڑوں سے سنا ہے۔
اس طرح کی یہ بحث و مباحثہ ان ہم جماعت لڑکوں کا روز کا معمول تھا اور مشغلہ بھی تھا اس طرح چلتے چلتے ایک دن آیا کہ “اللہ دتہ” اور عطاء محمد نے کرشن لال کو کلمہ توحید لا الہ الا اللہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پڑھادیا کرشن لال نے بغیر کسی جبر کے بدرجہ غایت مسرت کے ساتھ یہ کلمہ پڑھ لیا لیکن اسمی اعتبار سے وہ کرشن لال ہی ہے اور جسمانی لحاظ سے نابالغ۔ ذہنی اعتبار سے اسے کچھ معلوم نہیں اسلام میں کون سی خوبی اور کون سی صداقت ہے جس نے اسے کلمہ پڑھنے اور اسلام قبول کرنے پر آمادہ کیا ہے۔بس اس کے دل کی آواز ہے جو اسلام کی طرف لے آئی ہے اور ناقابل بیان سوچ ہے جس نے اسے اس راہ پر لگا دیا ہے ہندو مذہب سے وہ کلیة دور ہوگیا۔
آٹھویں جماعت میں اس نے اپنے دونوں ساتھیوں سے نماز بھی سیکھ لی تھی اور ان کے طریق ادا کے بارے میں بھی معلومات حاصل کر لی تھی پھر لوگوں سے چھپ چھپا کر نماز پڑھنے بھی لگا تھامڈل کا امتحان ہوا اور کرشن لال کو اچھے نمبروں میں کامیابی حاصل ہوئی۔ اب وہ ذہنی طور سے مسلمان تھا لیکن سوال یہ پیدا ہوا کہ نماز پڑھنے کے لیے کیا طریقہ اختیار کیا جائے؟ یہ بات کس سے پوچھ بھی نہیں سکتا تھا۔ اس کے راز دان دو ہی افراد تھے ایک عطاء محمد اور دوسرا اللہ دتہ۔ کرشن لال کس طرح اپنے گھر کی کھوہی کےپانی سے وضو کرتا اور مندر میں جا کر وہاں آلتی پالتی مار کر مغرب کی طرف رخ کرکے بیٹھ جاتا اور اشارے سے نماز ادا کرلیتا ایک دن مسجد میں وضو کررہا تھا کہ اتفاق سے ان کے بھائی (ہنسراج) کا ادھر سے گزر ہوا اور اس نے اسے دیکھ لیا۔ بعض اور رشتے داروں کو بھی پتہ چل گیا۔اسے پکڑ لیا گیا اور خوب پٹائی کی گئی۔ممدوح کا کہنا ہے کہ اس پٹائی میں جو سرور تھا زبان اس کے بیان سے قاصر ہے اب والدہ کو بھی معلوم ہوگیا کہ کرشن لال کے تیور اچھے نہیں، یہ مسلمانوں میں قدم رکھنے لگا ہے بولی بیٹا! میرے پاس سونے کے زیورات ہیں اس کے علاوہ اور بھی بہت کچھ ہےجو تمہارا جی چاہے لے لوں۔ لیکن مسلمان نہ ہوجانا۔
مڈل پاس کرنے کے بعد کسی نہ کسی طرح اشارے کنائے سے کرشن لال نماز تو پڑھتا رہا لیکن ممدوح نے سوچا کہ کہیں ملازمت کی صورت پیدا ہو جائے تو زیادہ مناسب ہوگا اوکاڑہ چونگی میں کام کرنا شروع کردیا۔اوکاڑہ شہر میں ان کے بعض رشتے دار رہتے تھے۔جن کے ہاں کبھی کبھار ممدوح چلا جایا کرتے تھے۔اب کرشن لال کا اشہب حیات ایک بالکل نئی منزل میں داخل ہوتا ہے آہستہ آہستہ مولانا عبدالرشید کے نام سے متعارف ہوتے ہیں۔
شیخ محترم کو مولوی نور محمد ایک دن ضلع منٹگمری(حال ساہیوال ) لے گئے اور وکیل سے مل کر حقیقت حال بیان کی تو وکیل نے پوری بات سن کر اے ڈی ایم کی عدالت میں کرشن لال کی طرف سے ایک درخواست پیش کی کہ میں ہندو مذہب سے تعلق رکھتا تھا۔اب بغیر کسی قسم کے جبر واکراہ کے اپنی مرضی سے مسلمان ہونا چاہتا ہوں۔عدالت نے اس کے قبول اسلام کی درخواست منظور کرلی۔

ابتدائی دینی تعلیم کا آغاز

ممدوح کو میاں باقر رحمہ اللہ کے پاس جھوک دادو بھیج دیا گیا۔لیکن شیخ محترم کا وہاں جی نہیں لگا۔گھوم پھر کر وہ بنگلہ گوگیرہ آگئے۔پھر کچھ عرصہ کے بعد عبدالرشید کو میاں محمد باقر رحمہ اللہ کے پاس جھوک دادو بھیجا گیا۔قاعدہ یسرناالقرآن چند روز میں ختم کرلیا اورپھر قرآن مجید پڑھنے لگے۔قرآن مجید مکمل کیا تو درسی کتاب “ابواب الصرف “دےدی گئی۔میاں باقر رحمہ اللہ سے مشکاۃ المصابیح پڑھی اور ساتھ دوسری درسی کتب بھی پڑھی۔یہاں مولانا محمد داؤد بھوجیانی رحمہ اللہ اور مولانا محمد بھٹوی رحمہ اللہ کے ذمے تھے۔

ڈھلیانہ مدرسہ میں حصول علم

ڈھلیانہ کے اسلامی مدرسے میں حصول علم کا سلسلہ شروع کردیا۔
یہاں جن مشائخ کرام سے اخذ فیض کیا
مولانا حافظ اسحاق صاحب
مولانا حافظ عبداللہ آف (جھنڈا بگا)
مولانا حبیب الرحمن لکھوی رحمہ اللہ
اسی دوران بیمار ہوگئےاور ٹائیفائڈ بخار کی گرفت میں آگئے۔ بیماری کی وجہ سےانھیں گاؤں لایا گیا۔ انیس روز ان پر اس بخار کا زور رہا اور یہ بالکل بے ہوش رہے۔ ان کے معالج ڈاکٹر نصر اللہ تھے جو ان کے گاؤں کے رہنے والے تھے۔ آخر کار انھوں نے ان کی والدہ سے کہا کہ اس کا علاج میرے بس سے باہر ہے۔ معلوم ہوتا ہے اس لڑکے کا آخری وقت آ گیا ہے۔ چنانچہ والدہ نے ڈاکٹر کے اظہار مایوسی کے بعد دل کڑا کرکے بیٹے کے لیے کفن کا کپڑا خرید لیا اور اس کےسرہانے رکھ دیا۔پھرچاول پکائے اور غریبوں اور مسکینوں میں تقسیم کیے اور ان سے بیٹے کی صحت کے
لیے دعا کی درخواست کی۔ چاولوں کی تقسیم کا سلسلہ جاری تھا کہ ڈاکٹر آیا اور اس نے کہا کہ میرے پاس آخری چارہ کار کے لیے ایک دوا ہے، وہ کھلا کر دیکھتے ہیں، ممکن ہے اللہ شفا بخش دے۔ چنانچہ ڈاکٹر نے ایک گولی عبدالرشید حفظہ اللہ کےمنہ میں ڈالی۔ گولی منہ میں جاتے ہی شیخ عبدالرشید صاحب کو قے آئی اوران کے اندر سے خون کا ایک لوتھڑا نکلا، اس کے ساتھ ہی ان کی آنکھ کھل گئی اور زندگی کے آثار ظاہر ہونے لگے۔ اپنے سرہانے پڑا ہوا کفن کا کپڑا بھی انھوں نے دیکھا۔ اس وقت ان کی عمر بیس برس کی تھی۔یہ اللہ کا ان پر خاص کرم ہے کہ ان کی ہر منزل پُر بہاررہی اور ہر منزل کا ہر قدم جادہ مستقیم پر رہا۔

دارالعلوم تقویةالاسلام میں داخلہ

صحتیابی کے بعد موضع ڈھلیانہ کے مدرسے میں دوبارہ حصول علم کا سلسلہ شروع کردیا اور پھر اسی مدرسے سے انھیں سند فراغت حاصل ہوئی۔اس کے بعد لاہور آکر دارالعلوم تقویةالاسلام میں داخلہ لیا۔اس کا نصاب مکمل کیا اور پنجاب یونیورسٹی سے فاضل عربی کا امتحان بھی پاس کرلیا۔

جن مشائخ کرام سے کسب فیض کیا

(1)میاں محمد باقر صاحب جھوک دادو ان سے بعض ابتدائی کتابیں پڑھیں اور بہت کچھ حاصل کیا۔
(2)مولانا محمد داؤد بھوجیانی رحمہ اللہ: ان سے ہدایۃ النحو پڑھی۔
(3)مولانا حافظ محمد بھٹوی رحمہ اللہ: ان سے صرف ونحو اور حدیث کی بعض کتابیں پڑھیں۔
(4)شیخ الحدیث حضرت مولانا حافظ محمد اسحاق رحمہ اللہ: ان سے ادب عربی، صرف ونحو اور صحیح بخاری پڑھی۔
(5)مولانا محمد عبداللہ صاحب (جھنڈا بگا): ان سے صحیح مسلم اور ابوداؤد کا درس لیا۔
(6)مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ: ان سے عقائد کی تعلیم حاصل کی۔
(7)مولانا محمد عبدہ الفلاح رحمہ اللہ: ان سے تفسیر بیضاوی پڑھی اور دیوان حماسہ پڑھا۔
(8)مولانا شریف اللہ خاں رحمہ اللہ: ان سے مسلم الثبوت، توضیح تلویح، ہدایہ اخیرین سلم العلوم کتابیں پڑھیں۔
(9) مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ ان سے مقدمہ ابن الصلاح پڑھا۔
(10)مولانا سید محمد داؤد غزنوی رحمہ اللہ: ان سے تفسیر اتقان پڑھی۔(11)مولانا محمد حنیف ندوی رحمہ اللہ: ان سے البلاغۃ الواضحہ پڑھی۔ (12)مولانا حبیب الرحمن لکھوی رحمہ اللہ: ان سے کافیہ پڑھا۔
(13)مولانا عطاء اللہ لکھوی رحمہ اللہ: ان سے ہدایۃ النحو پڑھی۔
ان اساتذه عالی قدر کے علاوہ سرکاری سکول میں ان کو جن حضرات سے حصول علم کے مواقع ملے، ان کے نام پہلے لکھے جاچکے ہیں، یہ تمام حضرات اپنی اپنی باری سے سفر آخرت اختیار کر چکے ہیں۔ رحمهم الله تعالٰی

تدریس کا آغاز

تحصیل علم اور شادی کے بعد شیخ محترم کو ذریعہ معاش کی فکر لاحق ہوئی۔چنانچہ انھیں ساہیوال کے ایک سکول میں بطور عربی ٹیچر مل گئی۔ طے شدہ پروگرام کے مطابق صبح کے وقت گھر سے نکلے اور سائیکل پر سوار ہوکر ” واں رادھا رام ” حبیب آباد پہنچے۔وہاں کسی جگہ سائیکل رکھ کر بس کے ذریعے ساہیوال جانا چاہتے تھے۔لیکن وہی ہوتاہے جومنظور جو خدا چاہتا ہے۔اللہ کی مشیت کے بغیر انسان کچھ نہیں کرسکتا۔واں رادھا رام پہنچ کر سڑک پر کھڑے ہوئے تو دیکھا کہ حضرت میاں باقر رحمہ اللہ بیٹھے ہیں۔
میاں صاحب نے ان کو نہیں دیکھا۔ ان کی نظریں نیچی تھیں۔ ان کو دیکھ کر دل میں خیال آیا کہ یہ مجھے سکول کی ملازمت سے روکنے کے لیے آئے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ یہ مجھے دیکھ لیں، اس لیے جلدی سے ادھر اُدھر ہوجانا چاہیے۔ لیکن فوراً ذہن نے فیصلہ کیا کہ یہ تو بہت بری بات ہے۔ میں دو سال ان کے پاس رہا ہوں اور ان سے استفادہ کرتا رہا ہوں۔ انھوں نے مجھے دین کی سیدھی راہ پر لگایا اور بہترین انداز سے میری تربیت کی۔ یہ میرے مربی ہیں، میرے مرشد ہیں، میرے ہادی ہیں، میرے بہت بڑے محسن ہیں۔ انھوں نے میرے دل کی بنجر زمین کو صالحیت کی نعمت عظمی سے آشنا کرنے کی سعی فرمائی ہے۔ ان سے نہ ملنا بہت بڑی احسان فراموشی ہوگی۔ چناںچہ یہ میاں صاحب کی طرف بڑھے اور انھیں سلام عرض کیا۔
انھوں نے اوپر نظر اٹھا کر ان کو دیکھا تو اپنے انداز خاص سے فرمایا: بھرا تو کدے جاؤں ایں (بھائی تم کہاں جارہے ہو؟)
جواب دیا: میں ساہیوال کے ایک ہائی سکول میں عربی ٹیچر مقرر ہوگیا ہوں، وہاں جارہا ہوں ۔ شادی ہوگئی ہے۔ غریب آدمی ہوں۔ کوئی کام تو کرنا چاہیے۔ یہ اچھا کام ہے جو آسانی سےمل گیا ہے۔
میاں صاحب کے چہرے پر عام طور سے مسکراہٹ چھائی رہتی تھی۔ مسکراتے ہوئے فرمایا: تم مسجد کے لیے پیدا ہوئے ہو اور تمہیں مسجد ہی میں رہنا چاہیے۔ کسی مسجد میں بیٹھ جاؤ۔ کوئی بڑی
کتابیں پڑھانے والا نہیں ملتا تو چھوٹے بچوں کو قاعدہ یسرنا القرآن پڑھانا شروع کردو۔ اللہ تعالی برکت دے گا۔ دنیا اور آخرت کے لیے یہی کام فائدہ مند ہے۔ اس قسم کی باتیں انھوں نے تفصیل سے کیں اور خدمت دین کے سلسلے کی کئی حدیثیں سنائیں۔
میاں صاحب وعظ کر کے اپنے گاؤں جھوک دادو چلے گئے اور مولانا عبدالرشید مجاہد آبادی ڈھلیانہ کے اس مدرسے میں پہنچ گئے جہاں سے حصول علم کیا تھا اور سند فراغت لی تھی۔ مدرسے کے مہتمم حاجی قطب الدین سے بات کی تو انھوں نے ان کو مدرسے کا مدرس مقرر کرلیا۔ تین سال سے اس مدرسے میں مولانا عبدالرشید مجاہد آبادی حفظہ اللہ کا سلسلہ تدریس جاری تھا کہ اخبار الاعتصام میں مرکزی جمعیت اہل حدیث کی طرف سے دار العلوم تقویۃ الاسلام (واقع شیش محل روڈ۔لاہور ) کی بلڈنگ میں جامعہ سلفیہ کے درجہ تخصص کے اجرا کا اعلان پڑھا۔ یہ دو سال کا کورس تھا، مولانا عبدالرشید اسلام پوری درجہ تخصص میں شمولیت کی۔یہ درجہ دینی مدارس کے
فارغ التحصیل حضرات کے لیے جاری کیاگیا تھا اور داخلے کے لیے باقاعدہ امتحان لیا گیا تھا۔ جامعہ سلفیہ کا یہ سلسلہ تعلیم ایک سال دار العلوم تقویۃ الاسلام میں جاری رہا۔ اس کے بعد اسے لائل پور (فیصل آباد) منتقل کردیا گیا تھا۔ لیکن مولانا عبدالرشید اسلام پوری اور حافظ عبدالرشیدگوہڑوی وہاں نہیں گئے۔ان دونوں کو مزید تعلیم کے لیے مولانا سید محمد داؤد غزنوی رحمہ اللہ نے لاہور میں جامعہ اشرفیہ میں داخل کرا دیا تھا۔جامعہ سلفیہ اور جامعہ اشرفیہ میں یہ ایک ایک سال معروف اساتذہ سے تعلیم حاصل کرچکے تھے، نیز خود حضرت مولانا سید محمد داؤد غزنوی رحمہ اللہ کے حلقہ شاگردی میں رہ چکے تھے، اس لیے مولانا ان کی قابلیت اور محنت سے آگاہ تھے۔ وہ ان دونوں کو رشیدین کے لقب سے یاد فرمایا کرتے تھے۔ انھوں نے دارالعلوم تقویتہ الاسلام میں ان کی تقرری فرمادی۔ اور ۔ ان دونوں کی خوش قسمتی تھی کہ جوانی کے دور میں ان کو حضرت مولانا غزنوی رحمہ اللہ نے یہ اعزاز بخشا اور ایسے دار العلوم
کے استاذ مقرر کیا جو تدریسی، علمی اور عملی اعتبار سے ایک عظیم الشان تاریخ رکھتا تھا۔ مولانا نے ان سے فرمایا کہ آپ دونوں (رشیدین ) مجھے غزنوی سے وعدہ کریں کہ ہم غزنوی کو نہیں چھوڑیں گے اور میں غزنوی آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ آپ کو نہیں چھوڑوں گا۔
اس قول و قرار کے بعد مولانا نے ان کو دارالعلوم کے اساتذہ کی جماعت میں شامل فرما لیا۔
مولانا عبدالرشید مجاہد آبادی حفظہ اللہ مدرس کے علاوہ خطیب بھی ہیں اُس وقت مصری شاہ میں سلطان پورہ کے قریب بی بی احاطہ میں اہل حدیث کی ایک مسجد تھی جو ایک بزرگ وزیر علی شاہ نے مرکزی جمعیت اہل حدیث کے نام وقف کی تھی ، یہ کل رقبہ دو کنال پانچ مرلے کا تھا، مولانا غزنوی نے مولانا عبدالرشید مجاہد آباد حفظہ اللہ کو اس مسجد میں خطابت کا فریضہ انجام دینے کا حکم دیا۔ انھوں نے مولانا کے ارشاد کے مطابق خطابت کا سلسلہ شروع کر دیا، لیکن اس سے کچھ عرصہ پیشتر مسجد توحید گنج (مغل پورہ) کے منصب خطابت پر مولانا حافظ اسماعیل ذبیع فائز تھے، وہ راولپنڈی تشریف لے گئے تو وہاں کی مجلس انتظامیہ نے خطابت وامامت کے لیے مولانا عبدالرشید مجاہد آبادی حفظہ اللہ سے رابطہ پیدا کیا۔ بات مولانا غزنوی تک پہنچی تو انھوں نے فرمایا کہ آپ ان سے یہ طے کرلیں کہ خطبہ جمعہ کے علاوہ صرف جہری نمازیں (مغرب، عشاء اور فجر ) اس مسجد میں پڑھایا کریں گے۔ چنانچہ شیخ محترم کے فرمان کے مطابق معاملہ طے ہوگیا۔ مسجد کی انتظامیہ نے رہائش کے لیے مکان بھی دے دیا اور ساٹھ روپے ماہانہ وظیفہ بھی دینے لگے۔ مسجد توحید گنج میں وہ تین وقت (مغرب عشا اور فجر کی نمازیں پڑھاتے تھے۔ نماز فجر کے بعد قرآن مجید کا درس دیتے اور خطبہ جمعہ ارشاد فرماتے تھے۔ دارالعلوم تقویۃ الاسلام سے مغل پورہ نو دس کلومیٹر کے فاصلے پر ہوگا۔ مولانا عبدالرشید مجاہد آبادی حفظہ اللہ روزانہ صبح کو سائیکل پر گھر سے چلتے اور عین وقت پر دارالعلوم پہنچ جاتے۔ پھر عصر کے بعد دارالعلوم سے روانہ ہوتے اور شام سے پہلے گھر چلے جاتے۔ یہ ان کا ہر روز کا معمول تھا، جس پر وہ گرمی، سردی، بارش، آندھی، ہر حال میں اللہ تعالی کے فضل سے کئی سال عمل کرتے رہے۔
شیخ الحدیث عبد الرشید مجاہد آبادی حفظہ اللہ تقریباً چھ سال غزنوی صاحب رحمہ اللہ کی حیات مبارکہ میں دارالعلوم میں خدمت تدریس انجام
دیتے رہے۔ غزنوی صاحب رحمہ اللہ کو کبھی ان سے کوئی شکایت نہیں ہوئی۔ جب مولانا اس دار فانی سے عالم آخرت کو رخصت ہوگئے تو ان کے فرزند گرامی پروفیسر سید ابوبکر غزنوی کو دارالعلوم تقویۃ الاسلام کے مہتمم و ناظم مقرر کیا گیا۔ ان کے عہد اہتمام میں بھی شیخ الحدیث عبدالرشید مجاہد آبادی حفظہ اللہ چھ سال درس و تدریس کی خدمت میں مصروف رہے۔ پھر ان کی اہلیہ بیمار ہوگئیں تو انھیں اس خدمت سے مجبوراً الگ ہونا پڑا۔ اس طرح انھوں نے بارہ سال دار العلوم تقویۃ الاسلام میں فریضہ تدریس سرانجام دیا۔
کئی سال مولانا عبد الرشید مجاہد آبادی حفظہ اللہ مغل پورہ کی مسجد توحید گنج میں خطبہ جمعہ ارشاد فرماتے اور نماز فجر کےبعد درس قرآن دیتے رہے۔ مغل پورہ کے ساتھ ہی ایک آبادی کا نام رام گڑھ تھا، قیام پاکستان سے قبل یہ ہندوؤں کی آبادی تھی۔ قیام پاکستان کے بعد یہاں مسلمان آباد ہوئے اور اس آبادی میں اہل حدیث کی مسجد تعمیر ہوئی۔ جو لوگ اس مسجد کی تعمیر و ترقی کے لیے بہت زیادہ سرگرم اور کوشاں تھے، ان میں ایک نمایاں نام مستری محمد حسن کا تھا۔
پھر ایک وقت آیاکہ مولانا عبدالرشید مجاہد آبادی حفظہ اللہ نے اس مسجد میں ڈیرے ڈال دیے اور وہاں خطابت کے ساتھ سلسلہ تدریس بھی شروع کر دیا گیا۔رام گڑھ کا نام بدل کر اسے مجاہد آبادبنادیاگیااورساتھ ہی مولاناعبدالرشید
اسلام پوری بھی مولانا عبدالرشید مجاہد آبادی ہوگئے۔ مسجد کی مجلس انتظامیہ سے مولانا عبدالرشید مجاہد آبادی حفظہ اللہ نے مدرسے کے قیام سے متعلق بات کی تو انھوں
نے شیخ محترم سے کہا کہ مدرسہ بے شک قائم کرلیجیے لیکن اس کے انتظام و انصرام کے ذمہ دار آپ خود ہی ہوں گے۔ شیخ محترم نے اللہ پر توکل کر کے مسجد میں مدرسہ قائم کر دیا۔ پہلے یہاں ریاض القرآن کے نام سے حفظ قرآن کا انتظام تھا۔ پھر ریاض القرآن والحدیث کے نام سے باقاعدہ مدرسہ جاری کر دیا گیا اور تحفیظ القرآن کے ساتھ درس نظامی کی تعلیم کے لیے بھی طلباء کا داخلہ ہونے لگا۔ مسجد میں مولانا کی خطابت کا سلسلہ پہلے ہی سے جاری تھا، جس نے جلد ہی بہت شہرت حاصل کر لی تھی۔
ابتدائی مرحلے میں مولانا عبد الرشید اکیلے ہی درس نظامی کے طلبا کو پڑھاتے تھے۔ پھر ایک ساتھی اور مل گئے ۔ اس کے بعد تین ساتھی مزید میسر آگئے اور مولانا سمیت یہ تعداد چار تک پہنچ گئی۔ مولانا ممدوح نے 37 سال کا طویل عرصہ لاہور کی اس جامع مسجد اہل حدیث مجاہد آباد میں گزارا اوراس طویل مدت میں سیکڑوں لوگوں نے ان سے قرآن وحدیث کی تعلیم حاصل کی۔
ہمارے دینی مدارس کا یہ عجیب معاملہ ہے کہ ایک ہی معلم کئی مضامین روزانہ پڑھاتا ہے۔ وہ تفسیر قرآن بھی پڑھاتا ہے، حدیث کی مختلف کتابیں بھی پڑھاتا ہے، اصول حدیث، فقہ اور اصول فقه، عربی ادبیات، منطق و فلسفہ اور صرف و نحو وغیرہ علوم کی چھوٹی بڑی کتابوں کی تدریس کا ذمہ دار ایک ہی معلم ہے۔ اس معلم کی ہمت کی داد دیجیے کہ وہ ایک دن میں کتنے ہی مضامین پڑھاتا ہے۔
پھرجامعہ الدراسات الاسلامیہ ہربنس پورہ لاہور میں کینال بنک، عزیز پلی فتح گڑھ کے قریب جگہ لی مدرسے کے لیے اور وہاں پر آغاز کردیا جو بحمد اللہ جاری ہے اور مختلف شعبہ جات قائم ہیں۔

شیخ محترم کے تلامذہ

مولانا عبد الرشید مجاہد آبادی کے بے شمار شاگردوں میں سے چند شاگردوں کے نام درج ذیل ہیں۔
(1)فضیلةالشیخ حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ (مصنف کتب کثیرہ)
(2)حافظ عبد الوحيد صاحب :ایڈیٹر اخبار الاعتصام ۔ لاہور
(3) مولانا محمد شریف الہ آبادی رحمہ اللہ قصور
(4)حافظ محمد اشرف قمر صاحب لاہور
(5)مولانا اصغر علی صاحب
عربی ٹیچر ہائی سکول شکر گڑھ
(6)مولانا عطاء الله صاحب
خطیب جامع مسجد اہل حدیث فیروز وٹواں ضلع شیخو پوره
(7)حافظ عبد الرؤف صاحب
نائب ناظم جامعہ الدراسات الاسلامیہ ہربنس پورہ۔ لاہور
(8)حافظ مصطفى صادق حفظہ اللہ
خطیب مسجد رضوان ( بجلی گھر ) لاہور ومدرس جامعہ الدراسات الاسلامیہ ہربنس پورہ لاہور۔
(9)حافظ احمد شاکر صاحب
مدیر مسئول ہفت روزہ “الاعتصام ۔ لاہور
(10) مولا نا محمد ادریس ہاشمی صاحب ۔ایڈیٹر ماہنامہ صدائے ہوش ۔ لاہور
(11)مولانا حفیظ الرحمن لکھوی حفظہ اللہ مدیر: ابن تیمیہ لاہور۔
(12)مولانا عبد الحلیم مرحوم
شیخ الحدیث جامعہ محمدیہ۔ اوکاڑہ
(13)مولانا حبیب الرحمن یزدانی شهید رحمہ اللہ
(14)مولانا سید حبیب الرحمن شاہ راولپنڈی۔
(ماخذ)
شیخ محترم کے متعلق مزید تفصیلی معلومات کے لیے آپ شیخ محترم کا انٹرویو جو (کتاب) کی شکل میں طبع ہے “مندر سے مسجد تک” کا ملاحظہ کیا جاسکتا ہے، جو مولانا اسحاق بھٹی صاحب رحمہ اللہ نے کیاتھا۔ جہاں سے ہم نے استفادہ کیا۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ آپ کو صحت وتندرستی کے ساتھ تادیر قائم ودائم رکھے تاکہ ان کے علم وفضل، قابلیت وتجربے سے لوگ مستفید ہوسکیں۔
اور ہمیشہ ان کی زبان کو کلمہ حق بیان کرنے کے لیے مزید طاقت عطا فرمائے،ممدوح کی جہود طیبہ کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے

●ناشر: حافظ امجد ربانی
● فاضل: جامعہ سلفیہ فیصل آباد
●مدرس: جامعہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ سندر لاہور

یہ بھی پڑھیں: مولانا محمد صدیق رحمہ اللہ کا مختصر تعارف