مولانا عبدالواحد المعروف محمد مسعود تبسم کاشمیری

جامعہ دار السلام عمر آباد کی قدیم نشانی اور مرحوم جامعہ رحمانیہ دہلی کی آخری یادگار مولانا عبدا لواحد المعروف محمد مسعود تبسم کاشمیری 16 جون 2025 ءبروز سوموار کو 99 برس کی عمر میں وفات پا گئے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون

پیدائش

مولانا عبدالواحد بن حافظ محمد اسحاق بن سلطان احمد1926ء کو گجرات کے نواحی علاقے جلالپور جٹاں میں پیدا ہوئے۔ پیدائشی نام مسعود تھا۔ خاندان مسلکی اعتبار سے دیوبندی تھا لیکن والد محترم نے بعد ازتحقیق مسلک اہل حدیث اختیار کرلیا۔چار سال کے تھے کہ والدہ کی آغوش محبت سے محروم ہوگئے۔والد محترم نے اوکاڑہ کے ایک اہل حدیث خاندان میں دوسری شادی کرلی اور وہیں ایک مسجد میں امامت وخطابت کے فرائض سرانجام دینا شروع کردیے۔ مسعود بھی والد کے ساتھ اوکاڑہ آگئے۔ یہاں والد کے نئے سسرال میں اکثر نام ’’عبد ‘‘سے شروع ہوتے تھے تو اسی مناسبت سے ان کا نام بھی تبدیل کرکے عبد الواحد رکھ دیا گیا۔

دینی تعلیم

عبدالواحدنے قرآن مجید والد محترم سے پڑھا اور بلوغ المرام، کریما اور گلستان وغیرہ جیسی ابتدائی کتب بھی انہیں سے پڑھیں۔ اسی دوران پرائمری کا امتحان پاس کیا ۔ عمر کے گیارہویں سال میں تھے کہ دینی تعلیم کے حصول کیلئے والد محترم اس دور کی مشہور درس گاہ جامعہ رحمانیہ دہلی چھوڑ آئے۔ وہاں مولانا عبید الرحمن عاقل اور مولانا عبید اللہ محدث رحمانی مبارکپوری جیسے نابغہ روزگار مسند تدریس پر متمکن تھے۔ یہ 1938 کے لگ بھگ کی بات ہے۔ دو سال وہاں رہے۔ اس دوران مولانا عبیدالرحمن سے مشکاۃ المصابیح کا درس لیا۔
بعد ازاں جنوبی ہند کی مشہور علمی درسگاہ جامعہ دارالسلام عمر آباد کی کشش انہیں اپنے ہاں کھینچ لے گئی۔ عمرآباد میں بھی انہیں بہترین اساتذہ میسر آئے۔ چنانچہ مولانا غضنفر حسین شاکر نائطی سے ادب کی کتب پڑھین۔ مولانا عبد السبحان اعظمی سے ابوداؤد اور دیگر چند کتب کا درس لیا۔ مولانا نعمان اعظمی تلمیذ شیخ الکل سے بھی استفادہ کا موقع میسر آیا لیکن ابھی باقاعدہ شاگردی کا مرحلہ آیا ہی چاہتا تھا کہ 1946 میں عمر آباد میں طاعون کی وبا پھیل گئی۔ جامعہ خالی ہوگیا اورتمام طلباء اپنے گھروں کو چلے گئے۔صرف یہ اور ایک دوسرا طالب علم دور کا ہونے کی وجہ سے باقی رہ گئے۔ گھر جا کر دوبارہ عمر آباد واپسی مشکل تھی۔ چنانچہ مولانا عبد السبحان سے سند کی درخواست کی۔ انہوں نے اپنے ہاتھ سے دونوں کو سند لکھ کر مرحمت فرمائی۔
قیام پاکستان کے بعد مولانا عبدالواحد نے منشی فاضل اور او۔ٹی کاامتحان دیا اور بطور فارسی استاد سرکاری ملازمت اختیار کرلی۔ 1952 سے 1986 تک جہلم، گجرات اور گردونواح کے مختلف سکولوں میں خدمات سرانجام دیں۔

تصنیف وتالیف

تصنیف وتالیف سے بھی شغف تھا۔ چند کتب یادگار چھوڑیں، جوان کے علمی تنوع کا مظہر ہیں۔ جن میں خلفاء وسلاطین،محدثات(وجود وشہود کی بحث)،نفث الرحمانی(فارسی متن اور اردو ترجمہ)،شہر خوباں(جلالپور جٹاں بیسویں صدی میں )،الصلاۃ القائمہ (نماز اور ارکان نماز)،حکیم الامت اقبال اور دین فطرت اسلام، اور عبدہ ورسولہ( سیرت نبوی ﷺ) قابل ذکر ہیں۔

شعر وشاعری

شعر وشاعری کا بھی ذوق رکھتے تھے۔ تبسم تخلص تھا۔ پنجابی ،اردو اور فارسی تینوں زبانوں میں ان کا شعری کلام مطبوع ہے۔ حال وخیال(ردیف الف تا یا مجموعہ کلام)،منزل ومحمل(شعری مجموعہ)اور سفینہ برگ گل (پنجابی، اردو اور فارسی کلام) ان کی شعری یادگار ہیں۔

خوش عقیدگی

مرحوم ہمارے شیخ مولانا عبداللہ اصغر کاشمیری حفظہ اللہ وشافاہ کے برادر اکبر تھے۔ والد کی وفات کے بعد اوکاڑہ سے جلالپور جٹاں واپس آئے تو خاندان کا مسلکی رنگ عود آیا لیکن اہل حدیث اساتذہ کا اثر باقی تھا۔ چنانچہ فروری کے آخر میں ان کی ملاقات کیلئے جہلم سے جلالپور جٹاں گیا تو صاحب فراش تھے اور گذشتہ ایک سال سے بینائی بھی ختم ہوچکی تھی۔ کچھ عقدی پہلوؤں پر گفتگو ہوئی تو ان کی خوش عقیدگی کا اندازہ ہوا۔اس دوران ان پر اطراف کتب ستہ کی قراءت کرکے اجازت طلب کی تو گوجرانوالہ کے بعض اہل حدیث مدارس کا نام لے کر کہنےلگے: وہاں اس فن کے علماء موجود ہیں۔ ان سے استفادہ کریں۔ بہرحال درخواست دوبارہ دہرائی تو اجازت دے دی۔ واپسی پر اپنی تصنیف ’’عبدہ ورسولہ‘‘ بھی عنایت فرمائی۔
اللہ تعالیٰ مولانا کی مغفرت فرمائے۔ان کی بشری لغزشوں سے درگزر فرما کر جنت کا داخلہ نصیب فرمائے۔ پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔آمین
ملاقات کا ذریعہ بننے والے شیخ محمد حسین ظاہری حفظہ اللہ کا شکریہ ادا نہ کرنا بھی ناسپاسی ہوگی۔ اسی طرح مولانا کے بیٹے محمد طاہر صاحب بھی شکریہ کے مستحق ہیں جنہوں نے یہ موقع فراہم کیا۔

✍️ عبدالقدوس راشد
مدرس جامعہ علوم اثریہ جہلم