مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی ؒ نمایاں ترین علمی و دعوتی شخصیت

مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ ( 1909ـ 1987 ) بیسویں صدی میں بر صغیر کی اہم اور نمایاں ترین علمی و دعوتی شخصیت ہیں۔ ایک ایسی شخصیت جس نے نصف صدی سے زیادہ عرصے تک علم و معرفت اور جماعت و جمعیت کی خدمت کی۔ جنہوں نے مختلف سطحوں پر دیرپا اثرات چھوڑے۔ جمعیت و جماعت کو منظم کیا، علمی ضرورتیں پوری کیں، مفید علمی کتابیں تصنیف کیں، اسلاف کے ورثے کو تحقیق کے ساتھ شائع کیا، اہل علم کی ٹیم تیار کی، ان کی علمی و فکری تربیت کی اور اپنے عمل و کردار سے اسلاف کی یاد تازہ کر دی۔ ایک فرد جو بنیادی طور پر مرکزی رہنما کی حیثیت اختیار کر جائے۔ جس کی پوری زندگی دعوتی، علمی، تنظیمی اور جماعتی سرگرمیوں کی نذر ہو اور جو اپنے عمل سے بتائے کہ کام کیسے کیا جاتا ہے۔
ہمارے شیخ محمد عزیر شمس رحمہ اللہ جن شخصیات سے بہت زیادہ متاثر تھے اور جن کا تذکرہ کرتے ہوئے بالعموم وہ آبدیدہ ہو جاتے تھے، مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ ان میں سر فہرست تھے۔ ” آثار حنیف بھوجیانی” شیخ محمد عزیر شمس رحمہ اللہ کی مستقل یاد دہانیوں کا عملی مظہر ہے جسے احمد شاکر صاحب نے ترتیب دیا ہے۔ اس میں مولانا محمد عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ کی 1925 سے 1987 تک کی تحریریں ہیں، آثار حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ چار جلدوں میں ہے۔ پہلی جلد میں دروس و فتاویٰ جات، دوسری جلد میں علمی مقالات، تیسری جلد میں ماہنامہ رحیق اور ہفت روزہ الاعتصام کے اداریے اور چوتھی جلد میں کتابوں پر تبصرے اور تراجم علماء و اعیان ہیں۔
ہر ایک جلد شاہکار ہے، ان آثار سے مولانا محمد عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ کی علمی و فکری اور دعوتی و جماعتی حیثیت کا بھی پتہ چلتا ہے اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کام کیسے کیا جاتا ہے۔ کیسے علمی کام کے راستے بنائے جاتے ہیں، کیسے علمی و فکری تحریریں قلم بند کی جاتی ہیں۔ سلف سے محبت کیا ہوتی ہے، ان کے ورثے کی اشاعت کا جذبہ کیا ہوتا ہے، تنقید کیسے کی جاتی ہے، اہل علم سے کام کیسے لیا جاتا ہے اور کیسے آخرت رخی زندگی جی جاتی ہے۔
مولانا کی ایک ایک تحریر سے سنجیدگی، متانت اور علمی رفعت ٹپکتی ہے۔ جہاں تنقید ہے وہاں انصاف ہے اور جہاں اسلاف کا ذکر ہے وہاں تحقیق بھی ہے اور جذبہ محبت و عقیدت بھی۔ معارف کے پایے کا الرحیق ہو یا الاعتصام ہر جگہ مولانا کے علمی و فکری زاویے روشن ہیں۔ دنیا آپ کو التعلیقات السلفیہ کے لیے جانتی ہے اور جاننا بھی چاہیے لیکن اس کے علاوہ بھی آپ کی حیثیت بہت بلند ہے۔ ابو زہرہ مصری کی اعلام امت پر لکھی گئی کتابوں کا ترجمہ کرا کر اپنی تحقیق و مقدمے اور تعلیقات سے شائع کر کے اردو کو مالا مال کیا۔ ابن تیمیہ رحمہ اللہ پر لکھی گئی ان کی کتاب کو اپنی تعلیقات کے ساتھ شائع کیا اور لا زوال خدمت انجام دی۔ یہی کام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی حیات پر لکھی گئی کتاب پر کیا۔
سچ پوچھیے تو آثار حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ کی یہ چاروں جلدیں انسائیکلوپیڈیا سے کم نہیں۔ یہ نصف صدی سے زیادہ کی علمی، فکری اور جماعتی تاریخ کا اظہاریہ بھی ہے اور نئی نسل کے لیے سبق بھی کہ علم و معرفت کی خدمت کیسے کی جاتی ہے۔
اہل حدیث علماء کے فتاویٰ جات کس طرح کے علمی نمونے ہیں، اداریے کیسے لکھے جاتے ہیں، علمی مقالات میں تحقیق و اعتدال کیا چیز ہوتی ہے، مختلف مکاتب فکر کے علماء سے کیسے استفادہ کیا جاتا ہے اور کس سلیقے سے اپنا اختلاف درج کرایا جاتا ہے، رد کیسے کیا جاتا ہے اور مسلکی و ملی زندگی میں توازن کا طریقہ کیا ہے۔ یہ ساری چیزیں یہاں سیکھنے کو ملتی ہیں اور ان کے علاوہ بھی علم و ادب کے بہت سے لعل و گہر ہاتھ آتے ہیں۔
دعا ہے کہ اللہ پاک بھوجیانی رحمہ اللہ کے لیے ان اعمال کو صدقہ جاریہ بنائے، مرتب کو جزائے خیر دے اور نسل نو کو ان سے سیکھنے کی توفیق ارزانی کرے۔

ثناءاللہ صادق تیمی

یہ بھی پڑھیں: یوں مسکرا نہ دیکھ کے، ہاں مسکرا کے دیکھ