مولانا حفظ الرحمن ندویؒ کی وفات پر خط

یہ خط مولانا حفظ الرحمن ندویؒ کی وفات پر دارالعلوم ندوہ العلماء کے ناظم حضرت مولانا محمد رابع حسنی ندوی نور اللہ مرقدہ کے نام لکھا گیا تھا۔ افادہ عام کےلئے نشر مکرر ہے۔
استاذگرامی قدر! السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ
اللہ کرے آپ بخیر ہوں اور اللہ تعالی آپ کا سایہ ہم سب پر دیر تک قائم رکھے! سب سے پہلے ندوہ کے مایہ ناز استاذ مولانا حفظ الرحمن صاحب کی وفات پرہم فارغین ندوہ آپ سب کو تعزیت پیش کرتے ہیں، اتنے طویل مدت تک ساتھ رہنے اور پھر بچھڑنے کا غم یقینا بہت المناک ہوتا ہے، مگر اللہ تعالی صبر پر اجر وثواب کا وعدہ کرتا ہے اس لیے یہ غم بھی موجب ثواب واجر ہے۔ اللہ تعالی اسکا اجر سب کو عطافرمائے۔ آپ نے مرحوم کے لواحقین کو تعزیت کرتے ہوے بہت برحق لکھا ہے۔
” مرحوم کی زندگی بڑی زاہدانہ تھی، انکی استعداد ایسی تھی کہ وہ بڑی سے بڑی ملازمت کرسکتے تھے، لیکن انھوں نے دنیا نہیں دیکھی، دین دیکھا اور دین کے لیے اپنے آپ کو وقف کردیا)۔
تقریبا ندوہ میں جتنے بھی اساتذہ ہیں سبھی اسی زمرہ میں آتے ہیں۔ انھوں نے دنیا کے بجاے دین کی خدمت کے لیے اپنی زندگی وقف کررکھی ہے، مگر دوصورتوں میں بہت تکلیف دہ حالات دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ایک بیماری کے وقت دوسری وفات کے وقت۔ جہاں تک بیماری کی بات ہے تو سارے اساتذہ نہ تو متمول گھرانہ سے تعلق رکھتے ہیں اور نہ ہی انکی تنخواہ سے اتنا بچ پاتا ہے کہ ناگہانی حالات میں وہ کام آے۔ اکثر وبیشتر یہ دیکھا جاتا ہے کہ اگر کوئی استا ذ کسی خطرناک بیماری میں مبتلا ہوجاتا ہے تو ان کے لیے چندہ جمع کرنا پڑتا ہے۔یہ بہت تکلیف دہ امر ہے۔ ایک وہ استاذ جس نے ادارہ کے لیے زندگی وقف کردی کیا ان کے علاج کی ذمہ داری اس ادارہ پر عائد نہیں ہوتی؟ کیا یہ ممکن نہیں کہ ندوہ ایک ایسا فنڈ بنائے جس سے اساتذہ کے علاج ومعالجہ میں مدد دی جاسکے۔ کیا اخلاقی اور شرعی نقطہ نظر سے یہ درست ہے کہ جس شخص نے تندرستی کی حالت میں ہمارے ادارہ کی عمر بھرخدمت کی اس کو بیماری کی حالت میں بے یارومددگار چھوڑدیاجائے؟
دوسرا مرحلہ وفات کے بعد آتا ہے، ہر انسان کے گھریلو حالات مختلف ہوتے ہیں، کسی کے بچے وفات کے وقت چھوٹے ہوتے ہیں تو کسی کے بچے برسرروزگار، کوئی خاندانی طور پر کچھ جائداد کا مالک ہوتا ہے تو کوئی نادار، وفات کے بعد کچھ روز تودوست احباب، شاگرد اور چاہنے والے فکرمند رہتے ہیں، مگر ایک مختصر مدت کے بعد متوفی کے اہل وعیال پر کیا گذرتی ہے، اس کا علم کسی کو نہیں ہوتا۔ کیوں نہ کوئی ایسا قدم اٹھایا جاے کہ وفات کی صورت میں ضرورت پڑنے پر چند سالوں تک اپنے ادارہ کے ذریعہ انکے اہل وعیال کی بنیادی اخراجات کی تکمیل کی جاسکے۔اگر ضرورت ہو تو انکی رہائش، انکے بچوں کی تعلیم اور روزانہ اخراجات کے لیے کچھ رقم ادا کی جا سکے۔ کیا اللہ تعالی ادارہ اور ادارہ سے منسلک افراد جس میں میں بھی شامل ہوں یہ سوال نہیں کریگا کہ جس نے ہمارے دینی ادارہ کی خدمت میں پوری زندگی صرف کردی اور اپنے لیے کچھ نہیں کیا، اس کے لیے تم لوگوں نے کیوں نہیں کچھ کیا؟
اب سب سے بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فنڈ کہاں سے آئیگا۔ تو اگر کرنے کی صحیح نیت ہو تو یہ بھی انشاء اللہ آسان ہوجائگا۔ میرے خیال میں اسکا بوجھ ندوہ پر نہ ڈالا جایے، اسکا بوجھ فارغین ندوہ پر ڈالا جایے جس میں راقم بھی شامل ہے۔ آپ کی سرپرستی میں ایک فنڈ (اساتذہ فنڈ) کے نام سے قائم کیا جاے، اور تمام فارغین ندوہ سے اس میں ڈونیشن دینے کی اپیل کی جایے۔ اسکا اکاونٹ بھی الگ ہو اور کمیٹی بھی الگ ہو، فنڈ کی کمیٹی میں پچاس فیصد ممبران فارغین ندوہ کی ہو جس میں تمام ممالک کی نمائندگی ہو اور پچاس فیصد ندوہ کے اتنظامیہ کی، جو فنڈ کو چلانے کے ذمہ دار ہوں۔ ہزاروں کی تعداد میں ملک وبیرون ملک پھیلے ہوئے ندوی فضلاء کے لیے ایک رقم جمع کرنا کچھ مشکل کام نہیں۔ بس ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کی شروعات کی جائے۔ اگر حضرت والا کی سرپرستی میں یہ فنڈ قائم کیا جا تا ہے تو ایک طرف ہمارے اساتذہ کو ایسے حالات میں بہت بڑی مدد مل سکے گی تو دوسری طرف آپ کے ذریعہ ایک ایسی نظیر قائم ہوجائیگی جس پر دوسرے مدارس والے بھی عمل کرنا شروع کردیں گے۔
امید ہیکہ ندوہ کی انتظامیہ اور حضرت والا ان تجاویز پر سنجیدگی کے ساتھ غور فرمائیں گے!
والسلام

نقی احمد ندوی، ریاض، سعودی عرب

یہ بھی پڑھیں: دل کی سختی کی مذمت