مولانا حافظ عبدالعزیز علوی (میرے مشفق استاذ گرامی)

بڑے غم واندوہ اور حزن وملال سے یہ خبر سنی کہ استاذ گرامی قدر شیخ الحدیث، استاذ الاساتذہ حضرت مولانا حافظ عبدالعزیز علوی (تغمدہ اللہ برحمتہ ورضوانہ) دنیا فانی کو خیر باد کہ گئے(انا للہ وانا الیہ راجعون)
مجھے جامعہ تعلیم الاسلام مامونکانجن میں حضرت حافظ صاحب سے شرف تلمذ حاصل ھوا، 1974 میں جب میں دوسری کلاس میں تھا تو حضرت حافظ صاحب اپنے والد گرامی حضرت مولانا حافظ احمداللہ رحمہ اللہ کی جگہ صحیح مسلم پڑھانے کے لیے جامعہ تعلیم الاسلام میں تشریف لائے، ان کے والد گرامی اس سال حج پر تشریف لے گئے تھے، دو سال بعد حضرت حافظ احمداللہ رحمہ اللہ بطور شیخ الحدیث کسی اور جامعہ میں تشریف لے گئے اور حضرت علوی صاحب جامعہ میں دوبارہ مستقل تشریف لے آئے، چھٹی کلاس میں ان سے سنن ابو داود پڑھنے کا شرف حاصل ھوا، حافظ صاحب کو اللہ تعالی نے بہت ساری خوبیوں سے نوازا تھا، تقوی و پرھیز گاری، نماز کی پابندی، وسیع مطالعہ، طلبہ کے ساتھ مشفقانہ رویہ، دنیا سے بے نیازی، کلمہ حق کہنے کی جرات، علوم متداولہ پر عبور، لباس اور خوراک میں انتہا درجے کی سادگی اور بہت ساری خوبیوں سے حضرت علوی صاحب متصف تھے
انداز تدریس:
57 سال انہیں تدریس کا شرف حاصل رھا، نصابی کتب کے مطالعہ کے ساتھ ساتھ دیگر کتابیں بھی اکثر ان کے مطالعہ میں رھتیں، ان دنوں سید ابوالحسن ندوی کی کتابیں ان کے زیر مطالعہ تھیں، دوران تدریس متعلقہ کتاب کے ساتھ ساتھ بہت ساری معلومات فراھم کرتے، جس سال ھم نے سنن ابوداود پڑھی اس سے کچھ عرصہ قبل سنن ابوداود كی بہت مفصل اور مطول شرح “المنھل العذب المورود” نئی نئی مارکیٹ میں آئی تھی، حضرت حافظ صاحب بالاستیعاب اس کا مطالعہ فرماتے، اور بڑی شرح وبسط سے درس ارشاد فرماتے، سبق سے متعلقہ مسائل اتنی وضاحت سے بیان فرماتے، محسوس ھوتا کہ دن رات سنن ابو داود کی شروح کے مطالعہ میں رھتے ھیں، دوران سبق طلبہ کو اکتاہٹ محسوس نہ ھونے دیتے، طلبہ کے ساتھ مشفقانہ رویہ اور تبسم آمیز لہجہ طلبہ کو گرویدہ بنا لیتا، طلبہ کے لیے ان کا تکیہ کلام تھا” او شریف آدمی” چھوٹے بڑے ھر طالبعلم کا اکرام کرتے، سلام کہنے میں ہمیشہ پہل کرتے، تمام طلبہ ان کے تقوی وتدین کی وجہ سے حد درجہ ان کا احترام کرتے۔
دینی غیرت:
استاذ گرامی قدر، انتظامی معاملات سے بالکل بے نیاز رھتے تھے، انتظامیہ کا احترام کرتے، مگر کلمہ حق کہنے میں کوئی باک محسوس نہ کرتے، ایک دفعہ سعودی مہمان وزٹ کر رھے تھے تو کسی نے تصویر بنانا شروع کر دی، استاذ گرامی قدر نے مہمان کے سامنے اس کو منع کیا، کہ یہ کام نہ کریں۔
1974 کی تحریک ختم نبوت کے آغاز میں جامعہ تعلیم الاسلام کے اساتذہ وطلبہ نے جلوس نکالا، جب شہر کے چوک میں تقاریر ھونے لگیں تو پولیس نے لاٹھی چارج کر دیا، شرکاء منتشر ھو گئے مولانا برق التوحیدی پولیس کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ھو گئے ان پر کافی تشدد ھوا اور کئی دن تک وہ بستر پر رھے، ریلوے اسٹیشن پر طلبہ پھر جمع ھوئے تو پولیس نے حملہ کر دیا، مولانا عبدالرشید ھزاروی رحمہ اللہ سے ھاتھا پائی ھوئی، ان کا گریبان پھاڑ دیا گیا، وہ منظر میری آنکھوں کے سامنے ھے جب ایک سپاھی نے حضرت علوی صاحب کو بازو سے پکڑ کر کھینچا اور وہ اس وقت اللہ اکبر کا نعرہ بلند کر رھے تھے۔
سادگی: حضرت علوی صاحب بہت سادہ مزاج اور تکلفات سے بے نیاز تھے، ایک دفعہ فرمایا کہ میں عموما گرمیوں میں صابن کے بغیر نہاتا ھوں، یہی وجہ ھے کہ وہ وقت کا ضیاع نہیں کرتے تھے، فارغ اوقات میں بھی مطالعہ فرماتے، ایک دفعہ مغرب کے بعد جامعہ سلفیہ میں ان کو سلام پیش کرنے کے لیے حاضر ھوا تو مسجد میں طلبہ کے درمیان بیٹھے مطالعہ فرما رھے تھے، مطالعہ کے ساتھ ساتھ طلبہ کی نگرانی بھی ھو رھی تھی، اس انداز کو عزیمت کہا جا سکتا ھے کہ مطالعہ کی نگرانی کے لیے اساتذہ کی ڈیوٹیاں لگائی جاتی ھیں، جبکہ علوی صاحب بنفس نفیس طلبہ کی نگرانی کی ذمہ داری از خود نبھا رھے تھے۔
میں نے مورخ جماعت حضرت قاضی محمد اسلم سیف رحمہ اللہ سے بہت کچھ سیکھا، ان کے زیر تربیت رھنے کا طویل عرصہ میسر آیا، وہ بھی بے حد شفقت فرماتے،انہیں کے حکم پر میں نے جامعہ تعلیم الاسلام میں تدریس کا آغاز کیا، حضرت قاضی صاحب، علوی صاحب کے پھوپھا تھے، اس بنا پر بھی ان سے تعلق خاص تھا، بحیثیت شاگرد ان کا احترام بھی فرض عین سمجھ کر کرنے کی کوشش کی، میرے لیے دکھ کی بات ھے کہ اساتذہ کی فہرست میں صرف علوی صاحب بقید حیات تھے، جو آج 10 دسمبر 2024 کو سفر آخرت پر روانہ ھو گئے(انا للہ وانا الیہ راجعون)
آخری ملاقات: وقتا فوقتا میں ستیانہ بنگلہ اس غرض سے گذرتا رھا ھوں کہ مجھے اپنے شیخ علامہ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد عبداللہ امجد رحمہ اللہ کی زیارت وملاقات کا شرف حاصل ھو، عرصہ 13 سال سے جامعہ سیدین شہیدین چک 36 میں سالانہ سیرت النبی کانفرنس میں خطبہ جمعہ کے لیے حاضر ھونا ھوتا ھے، جو صاحب صدق وصفا حضرت مولانا عائش محمد رحمہ اللہ کی یاد گار ھے، اور حضرت صاحب نے یہ ذمہ داری مجھے سونپی تھی، گذشتہ ماہ 15 نومبر کو حاضر ھوا تو بھائی عتیق امجد حفظہ اللہ کو فون کیا کہ اگر آپ گھر میں ھیں تو میں آپ کی زیارت اور اپنے شیخ محترم کی وہ مجلس جہاں ان کی زیارت کا شرف حاصل ھوتا تھا دیکھنا چاھتا ھوں، مختصر وقت ان کے ھاں گزارنے کے بعد جب جمعہ کے لیے جلسہ گاہ میں داخل ھوا تو حضرت علوی صاحب رحمہ اللہ اور حضرت مولانا عتیق اللہ سلفی صاحب حفظہ اللہ تشریف فرما تھے، میں نے آگے بڑھ کر سلام عرض کیا اور پیشانی کا بوسہ لیا، عرض کی اگر اجازت ھو تو ممبر پر بیٹھ جاوں، حضرت نے دعا دی اور مجھے ان کی موجودگی میں خطبہ جمعہ اور امامت کا شرف حاصل ھوا، یہ معلوم نہ تھا کہ حضرت سے آخری ملاقات اور زیارت ھو گی۔
اے اللہ: ھزاروں علماء و فضلاء ان کے تقوی وتدین کی گواھی دے رھے ھیں، انہوں نے ساری زندگی تیرے دین کی خدمت میں بسر کی، وہ تیرے مخلص اور وفادار اور تیرے دین کے لیے بڑے غیرت مند تھے، اے اللہ: انہیں جنت میں اونچا مقام عطا فرما، اور ملأ اعلى میں اپنے برگزیدہ بندوں میں ان کو شامل فرما(وانت خیر المنزلین)

تحریر حافظ مقصود احمد: امیر مرکزی جمعیت اھل حدیث اسلام آباد۔

یہ بھی پڑھیں: شام کی ہولناک کہانیاں