22 ذوالحجہ 1444ھ ،11 جولائی 2023ء، 27 ھاڑ 2080ب بروز منگل کو شوشل میڈیا کے ذریعے یہ خبر پوری دنیا میں گردش کرنے لگی کہ انڈیا کے جماعت اہل حدیث کے عظیم عالم دین شیخ الحدیث والتفسیر محمد_اعظمی رحمتہ اللہ علیہ بھی داغ مفارقت دے گئے ہیں ۔ آپ ایک واسطہ سے شیخ الکل فی الکل کے شاگر تھے آپ منوناتھ کی سے تعلق رکھتے تھے
مئوناتھ بھنجن کی سرزمین کواللہ رب العزت نے علم وعمل کے معاملے میں ایک خصوصی امتیاز عطا کیا ہے۔ شیخ الکل میاں سید نذیر حسین محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے تلامذہ کی اچھی خاصی تعداد اس علاقہ سے وابستی تھی۔ اس شہر کے مغربی حصے کی ایک ذی علم شخصیت جد محترم شیخ الحدیث والتفسیر مولانا محمد اعظمی رحمتہ اللہ علیہ کی ہے ۔ آپ مئوناتھ بھنجن میں پیدا ہوئے ۔مولانا کی تاریخ پیدائش حتمی طور پر معلوم نہ ہو سکی ۔ البتہ آپ کے استاذ مولانا عبد اللہ شائق علیہ الرحمہ  نے تخمینہ سے 24 اکتوبر 1933ء لکھا ہے۔

آپ کا نام محمد،کنیت ابوالاجود ہے ۔ نسب نامہ کچھ یوں ہے:۔ محمد اعظمی بن عبدالعلی بن عبد اللہ بن علیم اللہ بن حکیم جمال الدین رحمتہ اللہ علیھم آپ کا گھرانہ دینی وعلمی لحاظ سے معروف ہے۔ آپ کے جد اعلی حکیم جمال الدین کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جس محلہ میں آپ مقیم تھے وہ آپ ہی کے نام سے مشہور ہو کر جمال پورہ کہلایا۔ سابق شیخ الحدیث جامعہ دار السلام مهر آباد مولانا ابوالعرفان نعمان اعظمی (تلمیذ میاں نذیر حسین دہلوی وڈپٹی نذیر احمد دہلوی) حکیم جمال الدین کے پوتے تھے۔ مولانا محمد اعظمی کے والد (مولانا عبد العلی علیہ الرحمہ ) مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی رحمتہ اللہ علیہ اور صاحب بذل الجمود مولانا خلیل احمد سہارنپوری کے شاگردوں میں سے تھے ۔ جامعہ محمدیہ کھید و پورہ مئو میں ایک عرصہ تک تدریسی خدمات انجام دینے کے بعد جامعہ عالیہ عربیہ سے وابستہ ہوئے اور تا حیات اس کے صدرمدرس رہے۔

مولانا اعظمی کے بڑے بھائی مولانا عبدالحکیم فیضی بھی معروف عالم دین اور صاحب زہد و تقوی تھے۔ تقریباً 44 سالوں تک عربی اور اسلامی علوم کی تدریس کی اس مدت میں آپ نے حدیث کی ہر چھوٹی بڑی کتاب کا درس دیا۔ ۔۔مولانا کی تعلیمی زندگی کی ابتداء گھر سے ہوئی ۔ قاعدہ بغدادی کے اختتام کے بعد والد کے پاس ہی قرآن پڑھنا شروع کیا۔ آپ کے والد محترم چونکہ مدرسہ محمدیہ کھیدو پورہ مئو میں مدرس تھے، اس لیے آپ بھی ان کے ہمراہ مدرسہ جانے لگے۔ ناظرہ کے بعد آپ کا داخلہ جامعہ عالیہ عربیہ مئو میں ہوا۔ بعد ازاں ایک سال مسلم اسکول میئو میں پڑھنے کے بعد (عصری تعلیم سے بے رغبتی کے سبب ) دوبارہ جامعہ عالیہ کا رخ کیا۔ تیسری جماعت آپ نے مدرسہ فیض عام منو میں مکمل کی۔ اس کے بعد جامعہ دارا الاسلام عمر آباد کا رخ کیا ۔ عمر آباد سے واپس ہونے کے بعد مزید علمی پیاس بجھانے کے لیے وقت کی عظیم دینی درس گاه مدرسہ دارالحدیث رحمانیہ دہلی میں داخلہ لیا مگر تقسیم ہند کے موقع پر رونما ہونے والے فسادات نے جماعت کے اس عظیم ادارے کو ویران کر دیا۔ آپ نے کچھ عرصہ جامعہ عالیہ عربیہ میں کسب فیض کیا، لیکن کچھ ایام کے بعد امتحان عالم الہ آباد بورڈ کے لیے مدرسہ فیض عام میں داخل ہوئے اور عالم کا امتحان )دیا۔

اسی دوران استاذ علامہ عبداللہ شائق رحمہ اللہ و مولانا مختار احمد ندوی رحمہ اللہ  کے سفر حج پر چلے جانے کی وجہ سے آپ نے مدرسہ سعیدیہ بنارس کا رخ کیا اور سیف الاسلام علامہ ابوالقاسم سیف بنارسی رحمتہ اللہ علیہ سے شرف تلمذ حاصل کیا۔ مگر چند ہی ماہ میں مولانا بنارسی رحمتہ اللہ علیہ کا انتقال ہو گیا اور آپ دوبارہ فیض عام آگئے اور یہیں سے 1950ء میں فراغت حاصل کی۔ آپ کے چند قابل ذکر اساتذہ کرام کے نام یہ ہیں:۔

مولانا ابو القاسم سیف بنارسی رحمۃ اللہ علیہ- مولانا ابوالعرفان محمد نعمان اعظمی رحمۃ اللہ علیہ – مولانا حکیم محمد سلیمان مئو رحمۃ اللہ علیہ ۔ مولانا محمد احمد بن حسام الدین مئو رحمۃ اللہ علیہ مولانا نذیر احمد رحمانی رحمۃ اللہ علیہ۔مولانا عبد الصمد مبارکپوری- مولانا عبد اللہ شائق مئو -مولانا محمد عبدہ پنجابی-مولانا مفتی عبد العزیز اعظمی عمری
مولانا عبد الحکیم مجاز اعظمی رحمہم اللہ علیھم اجمعین-

اول الذکر چاروں بستیاں میاں سید نذیر حسین محدث دہلوی علیہ الرحمہ کے تلاندہ میں سے ہیں ۔ اس سبب آپ کی اسناد کو عالی ہونے کا شرف حاصل ہے ۔ مولانا اس دور کی معدودے چند شخصیتوں میں سے ہیں جنہیں بیک واسطہ میاں صاحب کے شاگرد ہونے کا شرف حاصل ہے۔
آپ رحمۃ اللہ علیہ کی فراغت کے بعد آپ کے والد نے آپ کو مدرسہ محمد یہ دیوریا میں تدریس کے لیے بھیجا، لیکن وہاں کی آب و ہوا آپ کے لیے سخت نقصان دہ ثابت ہوئی۔ آپ وہاں سے انتہائی بے سروسامانی کی حالت میں لوٹ آئے ۔ بیماری سے شفایاب ہوئے تو والد نے دیور یا جانے سے منع کر دیا اور مدرسہ عالیہ میں آپ کو داخل کر دیا۔ اور چھ سال تک یہاں تدریسی سلسلہ جاری رہا اور مولانا ابتدائی اردو تختی نویسی نقل و املا اور فارسی و عربی وغیرہ کی تدریسی خدمت انجام دیتے رہے۔ بعدہ مدرسہ کی انتظامیہ میں ایسا انقلاب آیا کہ مولانا کو مستعفی ہونا پڑا۔ آپ اس دوران چند سالوں تک آبائی پیشہ (پارچہ بانی ) میں مشغول رہے۔ اس مدت میں کئی اہل مدارس نے آپ کو تدریسی خدمات کے لیے پیش کش کی ، بالخصوص خطیب الاسلام علامہ عبدالرؤوف رحمانی رحمہ اللہ نے جامعہ سراج العلوم جھنڈانگر کے لیے کافی اصرار کیا لیکن آپ نے معذرت کر لی اور دو سال تک گھر پر ہی رہے ۔

اس کے بعد مدرستہ الاصلاح سرائےمیر سے آپ کو تدریس کی دعوت دی گئی۔ آپ تشریف لے گئے اور کچھ ہی دنوں میں آپ کو ادارہ کا شیخ الحدیث مقرر کر دیا گیا۔ جامعہ عالیہ عربیہ کے ذمہ داروں نے باصرار آپ کو سرائے میر سے بلایا۔ اس وقت جامعہ کا نیا دستورالعمل وضع ہوا تھا اور آپ کو نائب ناظم کے عہدے پر منتخب کیا گیا۔ تقریباً دو سالوں کے بعد کچھ ناگفتہ بہ حالات کے سبب جا معہ شعالیہ کو چھوڑنا پڑا۔ آپ عارضی طور پر جامعہ فیض عام میں مدرس ہوگئے۔ اپریل 1945ء میں مدرسہ فیض العلوم سیونی(مدھیہ پردیش) پہنچے اور ۱۹۶۹ء تک پانچ سال وہیں تدریسی خدمات انجام دیں۔ اسی دوران آپ کے والد کا انتقال ہو گیا۔

جامعہ عالیہ عربیہ کی صد سالہ تقریب پر آپ مدعو کیے گئے۔ پھر مدرسہ فیض العلوم سے مستعفی ہو کر اپنی مادر علمی جامعہ عالیہ کو اپنا علمی مستقر بنایا۔ (قابل ذکر بات ہے کہ مدرسہ فیض العلوم کا نام آپ ہی کا تجویز کردہ ہے۔) کچھ ہی دنوں بعد آپ کی صلاحیت کو دیکھتے ہوئے نائب صدر مدرس اور پھر صدرمدرس کا عہدہ تفویض کیا گیا۔ آپ کا تدریسی سفر جامعہ عالیہ عربیہ میں رہا۔ 1995ء میں آپ اپنی عمر کی سرکاری حد پر سبکدوش ہو گئے۔ اس عہد میں آپ نے جامعہ عالیہ عربیہ کی کس طرح خدمت کی یہ بذات خود ایک مضمون کی متقاضی ہے۔ اسی دوران جب کلیہ فاطمۃ الزہراء کا قیام عمل میں آیا تو آپ اس کے ناظم بنائے گئے۔ یہاں بھی آپ نے نظامت اور تدریس کے فرائض انجام دیے۔ ریٹائر منٹ کے بعد جامعہ عالیہ کی مجلس منتظمہ کے اصرار پر آپ نے پھر تدریسی سلسلہ شروع کیا۔ اس دوران آپ ادارہ کے وکیل الجامعہ بھی رہے اور چار سال درس و تدریس میں مزید صرف کیے۔

ان تمام مدارس میں آپ نے خصوصی طور پر کتب حدیث کا درس دیا۔ اس کے علاوہ ابتدائی جماعتوں سے لے کر منتہی جماعتوں تک کی اکثر کتابیں آپ کے زیر درس رہی ہیں ۔ واضح رہے کہ مولانا موصوف کو جامعہ سلفیہ بنارس کی طرف سے کئی بار تدریس کی پیش کش کی گئی لیکن آپ نے اپنے مادر وطن کو خیر باد کہنا گوارا نہیں کیا۔ جامعہ سلفیہ بنارس ہی کے ایک طالب علم برادرم شروان نعیم بن مولانا نعیم اختر نے مولانا کی حیات وخدمات پر مقالہ لکھ کرفضیلت کی سند حاصل کی ہے۔ آپ کے تلامذہ آپ سے مستفید ہونے والے اصحاب کا شمار تو ممکن نہیں ہے، پھر بھی آپ کے چند ممتاز اور نامور شاگردان کے اسماء درج ذیل ہیں:

تلامذہ: ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری رحمہ اللہ, ڈاکٹر عبد العلی از مری, مولانا مظہر احسن از بری, مولا نا محفوظ الرحمن فیضی, ڈاکٹر شفیع الرحمن بہاری رحمہ اللہ, مولانا محمد حنیف مدنی, مولانا ابوالقاسم عبدالعظیم مدنی, مولانا اسعد اعظمی, مولانا عبدالکبیر مدنی مبارکپوری, مولا نا محمد مظہر اعظمی, مولانا ابو انس راحت اللہ فاروق، مولانا انصار زبیر محمدی، وغیرہم۔

شیخ الحدیث علامہ عبید اللہ رحمانی علیہ الرحمہ سے عقیدت مولانا اور آپ کے بڑے بھائی مولانا عبد الحکیم فیضی رحمہ اللہ کو حضرت شیخ الحدیث علیہ الرحمۃ سے بہت عقیدت تھی ۔ آپ نے رسمی طور پر ان سے کوئی کتاب تو نہ پڑھی، لیکن مسئلہ مسائل کے باب میں آپ سے کافی استفادہ کیا اور آپ کی پر خلوص دعاؤں نصیحتوں اور بدایوں سے رہنمائی حاصل کی ۔ اس کا اندازہ ان خطوط سے لگایا جاسکتا ہے جو حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ علیہ نے آپ کے نام لکھے ان کا مجموعہ “نقوش رحمانی کے نام سے منظر عام پر آچکا ہے۔

تحریری سرگرمیاں: مولانا درس و تدریس کے ساتھ ساتھ قلمی میدان میں بھی امتیازی حیثیت کے حامل ہیں۔ مختلف جرائد ومجلات میں آپ کی تحریریں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ دفاع عن السلف کے سلسلے میں آپ کی تحریر میں کافی اہمیت رکھتی ہیں۔ آپ نے متعدد عربی و فارسی کتابوں کا اردوترجمہ بھی کیا ہے۔ آپ کی تمام تصانیف وتراجم وغیرہ کی تعداد کافی زیادہ ہے ۔تفصیل ملاحظہ ہو:

 تصنیفات: آداب زواج ، کائنات کا آغاز و انجام ، تذکرة البخاری، نواب صدیق حسن خاں اور ان کی وہابیت، نماز نبوی، مستند دعائیں، بنقوش شیخ رحمانی، فضائل اعمال کے دفاع کا علمی وتحقیقی جائزہ ، تین طلاقیں (علمائے احناف کی نظر میں )، شرعی منتروں سے علاج، متفقہ فتوی، مولانا ابوالکلام آزاد  فکر وعمل کے آئینہ میں، لمحات موت، شریعت و عادت (رسالہ کی شکل میں) تلخیص فقہ السنہ (ناقص)،

التحلي بالذهب للنساء ( عربی ) ، جمع بین الصلاتین پر ایک نظر ۔  تراجم ۔ (1)دین کیا ہے؟ ( ترجمہ کتاب الدین و شروط الصلاة “از شیخ محمد بن عبد الوہاب ) ۲ – قرآن کریم پڑھنے پڑھانے کے آداب (ترجمہ کتاب “التبيان في آداب حملة القرآن ” از امام نووی ۳ تبلیغی جماعت اور اخوان المسلہ المسلمین (ترجمه کتاب القطبية هي الفتنة فاعرفوها از شیخ ابو ابراہیم ابن سلطان ) ۴- ائمہ اربعہ کا دفاع اور سنت کی اتباع (ترجمہ کتاب جلب المنفعة في الذب عن ا الأئمة المجتهدين الأربعة ( فارسی ) از نواب صدیق حسن خاں) (۳) تحقيق وتعليق: – “دعاية الإيمان إلى توحيد الرحمن از نواب صدیق حسن خاں ( تسهیل ، ترجمه نصوص وتخریج فهارس)

علوسند: جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ مولانا حفظ اللہ خاتمہ المحدثین میاں سید نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ کے بیک واسطہ شاگر د ہیں ۔ خصوصی طور پر آپ نے میاں صاحب کے چار شاگردوں سے شرف تلمذ حاصل کیا ہے ۔ اس وجہ سے آپ کی سند حدیث کو اس وقت اسناد عالی ہونے کا شرف حاصل ہے۔ آپ کی اس خصوصیت کے پیش نظر دور دراز سے لوگ سفر کرکے آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں اور حدیثیں سنا کر سند اجازہ حاصل کرتے ہیں۔

نیز اسی سبب کویت، قطر اور سعودیہ وغیرہ سے سرکاری اور غیر سرکاری اداروں اور افراد کی طرف سے آپ کو سماع حدیث کے پروگرام میں مدعو کیا گیا، اور صحیح مسلم صحیح ابن خزیمہ اور مشکاۃ المصابیح وغیرہ کتابوں کا سماع کر کے ہزاروں لوگوں نے آپ سے سند حدیث حاصل کی۔ ان تمام اسفار میں آپ کے صاحب زادے مولانا اسعد اعظمی حفظہ اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ رہے اور دروس میں بھی شریک ہوئے۔

ایوارڈ: ۱۳-۱۵ مارچ میں منعقد ہونے والی آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس پاکوڑ میں مئوناتھ کی پانچ مقتدر ہستیوں کو ایوارڈ سے نوازا گیا ، جن میں آپ کی بھی شخصیت شامل تھی۔ ان میں سے اکثر ہستیاں اپنی پیرانہ سالی کے سبب پاکوڑ نہ جاسکیں الہندا چند دنوں بعد مولا نا اصغرعلی امام مہدی سلفی حفظہ اللہ بذات خود مئو تشریف لائے اور ایک مختصر سی تقریب میں ان ہستیوں کو ایوارڈ سپرد فر مایا۔

مولانا کے اہل وعیال:  جب کہ آپ جامعہ دار السلام عمر آباد میں زیر تعلیم تھے، آپ کی شادی ہوئی ۔ آپ کی اہلیہ مولانا محمد نعمان اعظمی رحمہ اللہ کی نواسی اور ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری رحمہ اللہ کی سگی بہن ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ان سے آپ کو 4 لڑکے اور لڑکیاں عطافرمائیں۔ بحمدللہ تمام اولاد باحیات اور دینی و عصری علوم سے آراستہ ہیں مولانا اور  ان کے ہم عصروں کی کوشش سے ایک مکتبہ علمیہ” کا قیام عمل میں آیا تھا۔ مولانا کے ذمہ اس کی نظامت تھی ۔ میونسپل بورڈ کے زایکشن میں فاتح پارٹی نے کامیابی کے نشے میں چور ہو کر اسے نیست و نابود کر ڈالا ۔ مقامی جمعیت اہل حدیث کے ناظم مقرر کیے گئے اور بعد ازاں مولانا نذیر احمد رحمانی رحمہ اللہ کے حکم سے ضلعی جمعیت کے نائب صدر کی بھی ذمہ داری سنبھالی ۔ سیونی سے واپسی کے بعد آپ کو مقامی جمعیت کا امیر منتخب کیا گیا۔ پانچ سال بعد آپ نے جمعیت سے علیحدگی اختیار کر لی۔ کچھ سالوں بعد دوبارہ مقامی جمعیت کی امارت آپ کے سپر د ہوئی۔ مولانا اعظمی اور دوسری منوی ہستیوں کی تحریک پر اصلاح معاشرہ اور فارینین نو جوانوں کے اندر حرکت و عمل پیدا کرنے کے لیے مجلس عمائے وقت مئو کا قیام عمل میں آیا۔ یہ مجلس اللہ کے فضل سے آپ کی سر پرستی میں رواں دواں ہے اور نوع بنوع کے

علمی واصلاحی بیداری کے کام کر رہی ہے ۔ اس کے علاوہ مولانا رحمۃ اللہ علیہ مختلف کانفرنسوں، سیمیناروں اور اجلاس میں حتی الامکان شرکت کرتے تھے تحریری سرگرمیاں بھی جاری رکھے ہوئے تھے مولانا مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے کاز سے بڑی دلچسپی رکھتے تھے اور ناچیز کو بہت عزیز رکھتے تھے اور جمعیت کی ہمہ جہت خدمات کے بارے میں سن کر خوشی کا اظہار کرتے اور دعاؤں سے نوازتے تھے۔۔

ان کے جنازے کی نماز آبائی وطن مئو کے عیدگاہ اہل حدیث ڈومن پورہ پچھم میں کل صبح دس بجے ادا کی گئی۔ پسماندگان میں معروف عالم دین اور صاحب قلم مولانا اسعد اعظمی سمیت چھ بیٹے عزیزان احمد، اجود، ارشد، امجد اور اسجد اور چھ بیٹیاں اور متعدد پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں ہیں۔

اللہ تعالیٰ ان کی بال بال مغفرت فرمائے، بشری لغزشوں سے درگزر فرمائے، دینی و دعوتی خدمات کو شرف قبولیت بخشے،جنت الفردوس کا مکین بنائے، جملہ پسماندگان ومتعلقین کوصبرجمیل کی توفیق بخشے اور ملک ملت اور جمعیت و جماعت کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے ۔ آپ کا نماز جنازہ شيخ أسعد اعظمي حفظه الله آپ کے بیٹے نے پڑھایا اور اپنے والد محترم کی بخشش کے لئے طویل دعائیں کیں۔ نماز جنازہ میں ہزاروں چاہنے والوں نے شرکت کی عید گاہ میں دور دور تک انسان ہی انسان نظر آرہے تھے نماز جنازہ ادا کرنے کے بعد آہوں سسکیوں اور دعاؤں کے ساتھ ہزاروں چاہنے والوں کی موجودگی میں سپرد الٰہی کر دیئے گئے ۔

آئے تھے مثل بلبل سیر گلشن کر چلے
سنبھال مالی باغ اپنا ہم تو اپنے گھر چلے

زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا
تم ہی سو گٸے قرآن وحدیث سناتے سناتے