عمل بالحدیث کی تحریک اور مولانا محمد حسین بٹالوی کا مجددانہ کردار
ڈاکٹر بہاؤ الدین کی کوہ کنی کی روشنی میں

بر صغیر کی موجودہ جماعت اہل حدیث مولانا محمد حسین بٹالوی رحمہ اللہ کی بصیرت ، تگ و دو اور ان کی علمی و عملی کوششوں کا سنہرا نتیجہ ہے ۔
جب لوگ زیر زمین خفیہ کارروائیوں میں مشغول تھے اور جب ہر وہابی کو باغی کہا جارہا تھا ، جب رفع الیدین کرنا جرم تھا جب ہر آمین بولنے والے کی دھڑ پکڑ جاری تھی ، جب غلام احمد قادیانی نے ان کے نقد و تعاقب سے عاجز آکر انگریزی گورنمنٹ سے شکایت کی کہ جن وہابیوں کو تم باغی کہتے ہو اس کا سب سے بڑا وکیل اور سردار تو اسی پنجاب میں اور یہیں بٹالہ میں رہتا ہے تب بقول شورش کاشمیری مولانا بٹالوی رحمہ اللہ نے انگریزی دربار میں قدم بڑھائے اور ”ألحرب خدعة“ کے تحت اس محاذ پر بھی اس کو شکشت دے دی ۔
اگر مولانا بٹالوی کی سیاسی بصیرت نہ ہوتی تو یہ بھولے بھالے لیکن جیالے ” وہابی“ سر حدوں پر کٹ مر کر ختم ہوگئے ہوتے اس لیے کہ مساجد سے اخراج والی کتابوں کی زور و شور سے چھینی بھی جاری تھی ۔ان کی مفت تقسیم بھی اور اس پر ہر گاٶں ، محلے میں عمل در آمد بھی ،اوپر سے باغی ہونے کا سرکاری تمغہ بھی ۔
یہ مولانا محمد حسین بٹالوی رحمہ اللہ اور ان کے ساتھیوں کی سیاسی بصیرت تھی کہ آج یہ جماعت نہ صرف زندہ ہے بلکہ زندہ تر ہے ۔اسی طرح دارالعلوم دیوبند کے اس وقت کے مہتمم مولانا محمد احمد بن قاسم نانوتوی رحمہ اللہ کی سیاسی بصیرت کام نہ کرتی تو دارالعلوم دیوبند کے ساتھ انگریز گورنمنٹ ٹھیک وہی سلوک کرتی جو صادقین صادق پور کے گھروں اور محلوں اور ان کی کوٹھیوں کے ساتھ کیا تھا ۔یعنی بلڈوزر سے زمین دوزی اور مسماری ۔
یہ پٹنہ نگر پالیکا کہ عمارت صادقین صادق پور کے مکانوں اور ملبوں کے ڈھیروں پر ہی تو بنائی گئی ہے ۔
ڈاکٹر بہإ الدین صاحب کو اللہ سلامت رکھے وہ ابھی بہت کچھ کرسکتے ہیں
ہم ہندستانی تو ہاتھ پر ہاتھ دھرے صرف دو دو ہاتھ کر رہے ہیں بس اور جو اصلی مواد و میٹریل تھا وہ ایک ہندی مورخِ اہل حدیث ان کی الماری اور لاکر میں بند ہے ۔
اللہ رحم کرے۔

ابو اشعر