مولانا محمد حسین شیخوپوری کی دینی خدمات

شیخ القرآن مولانا محمد حسین شیخوپوری رحمۃ اللّٰہ علیہ کتاب وسنت کے مخلص داعی، تحریک قیام پاکستان کے فعال کارکن، تحریک نظام مصطفی اور تحریک ختم نبوت کے صف اول کے مجاہد تھے۔دعوت توحید وسنت میں ستر سال تک مسلک اہلحدیث کے اسٹیج کی زینت رہے۔ تین نسلوں کو وعظ کیا۔لاکھوں لوگ موحد بنے۔آپ ان بزرگ خطباء میں سے تھے جنہوں نے اس تاریک دور میں حق کی کرنوں سے دنیا کو روشن کیا جب عمومی طور پر شرک و بدعات اور رسوم ورواج کا زور تھا اور خصوصی طور پر اہل توحید اہلحدیث کو ہر طرف سے سب و شتم کا نشانہ بنایا جاتا تھا علمائے سوء نے
” انتظام المساجد باخراج الوہابیین عن المساجد” اور
“اجتناب اہل السنۃ عن اہل البدعۃ” جیسی زہریلی کتابیں لکھ کر اور فتوے جاری کرکے لوگوں کو توحید اور اہل توحید سے دور کر رکھا تھا مساجد کے دروازے بند کئے ہوئے تھے بلکہ بعض مقامات پر تو اہلحدیث کے داخلے پر پر مساجد کو تطہیر کے لیے باقاعدہ غسل دیا جاتا تھا
اس دور میں حضرت شیخ القرآن رح نے توحید وسنت کی اشاعت کیلئے دن رات تبلیغ کی۔ دور دراز کے سفر پیدل، بائیسکل اور تانگے و غیرہ جیسی سواری پر کیے اور لوگوں کو قرآن وسنت کی صحیح تعلیمات سے روشناس کرایا۔
ڈاکٹر حافظ عبد الرشید اظہر شہید رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے کہ “صوبہ پنجاب کے آدھے اہلحدیث تو صرف مولانا شیخوپوری رح کی دعوت سے کتاب وسنت کے زیورسے آراستہ ہوئے ہیں”۔
وہ پنجابی زبان میں بلاغت اور فصاحت کے مجسم تھے۔ استشہاد و استدلال کے ماہر، عام فہم امثلہ سے مشکلات مسائل کو آسان بناتے۔
قرآن پاک پڑھنے کا خاص انداز جس میں خطیبانہ رنگ، تجوید کے قواعد کے مطابق، رموزِ اوقاف کی پابندی اور لحن داؤدی کی خوش الحانیاں یکجا ہوتیں۔
جب مخصوص انداز میں تلاوت کرتے تو راہ جاتے لوگ بھی اپنے آپ کو ان کا خطاب سننے پر مجبور پاتے۔ اپنے موضوع کے مطابق ایک آیت تلاوت کرتے پھر اس کی تشریح کے لئے کی اور آیات پیش کر کے ان کا ترجمہ و تشریح نہایت آسان انداز میں پنجابی زبان میں کرتے اور نفس مسئلہ کی تفہیم خالص دیہاتی مثالوں سے کرتے سامعین یوں ہمہ تن گوش ہوتے گویا کہ سروں پر پرندے بیٹھے ہوں

🔸 علامہ احسان الہی ظہیر شہید رحمۃ اللہ علیہ پنجابی خطباء کے انداز کو کم ہی پسند کرتے تھے مگر شیخ القرآن رحمۃ اللّٰہ علیہ کے انداز خطابت اور قرآن پاک پڑھنے کے انداز کی تعریف کرتے۔
🔸 والد محترم رحمۃ اللّٰہ علیہ نے ایک واقعہ سنایا تھا کہ “ایک بار مسلک دیوبند کے معروف مقرر اور مفسر مولانا غلام اللہ خان آف راولپنڈی جن کے عقیدہ توحید کے پرچار اور قرآن سے خاص شغف کی بنا پر انہیں شیخ القرآن کہا جاتا تھا انہوں نے اپنی کانفرنس میں خطاب کے لئے حضرت شیخ القرآن مولانا محمد حسین شیخوپوری رحمۃ اللہ علیہ کو دعوت دی
راولپنڈی میں اردو تقریروں کا ذوق اور دور دراز سے آئے ہوئے پنجابی خطیب، پھر اپنے مسلک سے بھی تعلق نہ رکھتا ہو تو عوام کی دلچسپی برقرار رکھنا خاصا مشکل ہوتا ہے مولانا نے آپ کی تقریر سے پہلے مائیک پر آکر کہا
🔸 ” معزز سامعین! چونکہ ہمارے معزز مہمان خطیب آپ کے لیے نئے ہیں لہٰذا حکماً کہتا ہوں کہ بیس منٹ تک کوئی آدمی اپنی جگہ سے نہ اٹھے اس کے بعد آپ جانیں اور حضرت شیخ القرآن جانیں”
مولانا محمد حسین شیخوپوری رحمۃ اللہ علیہ نے مختصر خطبہ پڑھنے کے بعد عقیدۂ توحید پر گفتگو شروع کی اور پہلے پانچ چار منٹوں میں ہی مجمع کا رنگ بدل ڈالا
🔸 جب آپ نے اپنے مخصوص انداز میں زندہ اور مردہ کا فرق سمجھانے کے لیے “میت کا غسل” نماز جنازہ کی نیت اور طریقہ بیان کیا تو عوام تو عوام مولانا غلام اللہ خان سٹیج پر بیٹھے ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوتے رہے اور دوبارہ دوبارہ کی آوازیں آتی رہیں۔
کہاں سے ڈھونڈ کر لاؤں وہ خطباء جو تقریر سے پہلے
منتظمین سے بھاؤ تاؤ اور شرائط کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ سے سر بسجود ہو کر توفیق مانگتے کہ اے اللہ میرا یہ سفر تیری رضا کے لئے ہے اس میں برکت ڈال دے اور اسے لوگوں کے لیے نفع بخش بنا دے۔
ہمارے اسلاف کانفرنس میں خطاب کے بعد مصلّے پر سوار ہو جاتے اللہ تعالی سے راز و نیاز کرتے فجر کے بعد درس دیتے، ذکر و اذکار اور اشراق کے بعد یہ مجلس ختم ہوتی۔
وقت گزرنے کے ساتھ سب کچھ بدل گیا۔۔ نہ سننے والوں کا وہ ذوق رہا نہ سنانے والوں میں وہ اخلاص اور للٰہیت رہی۔
مناظرِ اسلام فضیلۃ الشیخ مولانا قاضی عبدالرشید ارشد حفظہ اللہ نے حضرت شیخ القرآن مولانا محمد حسین شیخوپوری رحمۃ اللّٰہ علیہ کے تذکرہ میں ایک پرانا واقعہ سنایا کہ:
“ضلع گوجرانوالہ میں قلعہ دیدار سنگھ کے قریب ایک گاؤں موسیٰ دوگل ہے (جس گاؤں میں مناظرِ اسلام مولانا محمد اشرف سلیم رحمۃ اللہ علیہ کا مسکن تھا)
یہاں دیوبندی حیاتی گروپ کے جلسہ کے جواب میں
اہل حدیث اور دیوبندی جمعیت اشاعت التوحید کے زیرِ انتظام مشترکہ جلسہ رکھا گیا۔
جس میں اہل حدیثوں کی طرف سے مرکزی خطیب شیخ القرآن حضرت مولانا محمد حسین شیخوپوری رحمۃ اللہ علیہ اور دیوبندیوں کی طرف سے مرکزی خطیب مولانا سید عنایت اللہ شاہ گجراتی رحمۃ اللہ علیہ تھے۔
(حضرت شیخ القرآن مولانا محمد حسین شیخوپوری رحمۃ اللہ علیہ جوکہ مشکل سے مشکل علمی مباحث کو پنجابی زبان میں آسان انداز اور سادہ مثالوں سے سامعین کے ذہن میں بات اتارے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے)
انہوں نے اپنے خطاب میں انسان کی پانچ زندگیاں اور پانچ عالم بیان کیے:
1: عالم ارواح 2: شکمِ مادر میں 3: عالمِ دنیا (جس میں ہم رہ رہے ہیں) 4: عالم برزخ /قبر
5: قیامت کے بعد کی زندگی.
فرمایا کہ ان زندگیوں میں ایک ترتیب ہے۔
🔸 پہلا دور عالم ارواح ختم ہوا تو انسان شکم مادر میں منتقل ہوا جہاں 9 ماہ کا عرصہ مکمل ہونے کے بعد عالم دنیا میں آیا. دنیوی زندگی مکمل ہونے کے بعد عالمِ برزخ/ قبر میں منتقل ہوگیا۔ جب وہ عرصہ مکمل ہوگا تو قیامت کے بعد کی زندگی کی طرف منتقل کر دیا جائے گا۔
اب انسان اسی ترتیب میں آگے کی طرف رواں دواں ہے
یہ ممکن نہیں کہ کوئی شخص پچھلے جہان میں واپس جائے قبر کی زندگی سے عالمِ دنیا میں منتقل نہیں ہو سکتا۔ دنیوی زندگی والا شکمِ مادر میں اور اسی طرح شکم مار والا انسان عالمِ ارواح میں واپس نہیں جا سکتا۔

🔸 فرمایا کہ جومولوی عالمِ برزخ اور عالمِ دنیا میں فرق نہیں سمجھتا اور اس کے مردے اس جہان میں آتے جاتے ہیں۔ اسے چیلنج کرتا ہوں کہ وہ مولوی مردوں کی بات چھوڑے وہ اس دنیوی عالم سے واپس شکمِ مادر والے جہان میں جا کر دکھائے تو ہم اس کا سارا فلسفہ مان جائیں گے۔
اس تقریر پر مولانا سید عنایت اللہ شاہ گجراتی رحمۃ اللہ علیہ نے بہت زیادہ خوشی کا اظہار کیا اور فرمانے لگے:
“بلے او محمد حسینا۔۔ بلے او محمد حسینا۔اج اخیر کر دتی اے” اور حضرت شیخ القرآن رحمۃ اللہ علیہ کا ماتھا چوما”
؎ بنا کردند خوش رسمے بخون و خاک غلطیدن
خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را
مناظر اسلام مولانا قاضی عبدالرشید ارشد حفظہ اللہ راوی ہیں کہ: “شیخوپورہ میں خطیب ملت علامہ احسان الہی ظہیر شہید رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے خطاب میں فرمایا:
“میں نے دو شخصیات ایسی دیکھی ہیں کہ اپنی تقریر میں قرآن کریم کی تفسیر بیان کرتے ہیں تو ایسے انداز سے بیان کرتے ہیں کہ وہ تفسیر کسی کتاب میں لکھی ہوئی بھی نہیں ہوتی اور۔۔۔۔وہ قرآن کے مطالب و مفاہیم کے خلاف بھی نہیں ہوتی ایک شخصیت شیخ القرآن مولانا محمد حسین شیخوپوری اور دوسرے مناظر اسلام حافظ عبدالقادر روپڑی (رحمہما اللہ) ہیں.”
🔸 مولانا محمد حسین شیخوپوری رحمۃ اللہ علیہ کو تو اسی لئے شیخ القرآن کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا کہ وہ قرآن کی ایک آیت پڑھتے پھر اس کی تفسیر کے لئے دوسری آیت پڑھتے ، پنجابی زبان میں روزمرہ زندگی سے مثالیں دے کر بات کو واضح کرتے اور اس کے مطابق مناسب اشعار پڑھتے۔۔۔کبھی پورا ایک مضمون بیان کرنے کے فورا بعد اس سے متعلق آیت مبارکہ پڑھتے۔ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ یہ آیت خاص اسی واقعہ کے بارے میں ہی نازل ہوئی ہو۔
قاضی صاحب حفظہ اللٌٰہ نے حضرت شیخ القرآن رحمتہ اللہ علیہ کے تذکرہ میں اپنے ایک خواب کا واقعہ سنایا۔ فرماتے ہیں۔ “ایک رات میں نے خواب میں دیکھا دیکھا کہ خانہ کعبہ کے سامنے ایک تخت سجایا گیا ہے بہت سے لوگ جمع ہیں سعودی بادشاہ تخت پر جلوہ افروز ہے بادشاہ کے ساتھ والی کرسی پر شیخ القرآن مولانا محمد حسین شیخوپوری رحمۃ اللہ علیہ تشریف فرما ہیں
بادشاہ نے شیخ القرآن رحمتہ اللہ علیہ کا تعارف کرواتے ہوئے خانہ کعبہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ:
“ایک ظالم بادشاہ خانہ کعبہ کو گرانے کے لئے آ رہا تھا تو اس بزرگ نے اسے روکا ”
” میں نے اس خواب کی تعبیر اپنے استاذِ مکرم حضرت شیخ حافظ عبدالمنان نورپوری (رحمۃ اللہ علیہ) سے پوچھی۔
انہوں نے فرمایا کہ حضرت شیخ القرآن نے ساری زندگی توحید بیان کی عقیدہ توحید کو کھول کر بیان کیا عقیدہ توحید پر پڑنے والے خس و خاشاک کو دور ہٹایا اللہ تعالی نے ان کی خدمات کو اپنی بارگاہ میں قبول فرما لیا ہے یہ خواب کی تعبیر ہے ”
اللّٰہ تعالیٰ حضرت شیخ القرآن رحمۃ اللّٰہ علیہ کے جنت الفردوس میں درجات بلند فرمائے آمین ثم آمین
اللھم اغفرلہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ وادخلہ الجنۃ الفردوس مع الصدیقین والصالحین وارفع درجتہ فی المھدیین آمین۔

أولٰئک آبائی فجئنی بمثلھم

شیخ القرآن مولانا محمد حسین شیخوپوری رحمۃ اللہ علیہ کو اللہ تعالی نے یہ خاص ملکہ عطا کیا تھا کہ مشکل سے مشکل علمی مباحث کو پنجابی زبان میں آسان انداز اور سادہ مثالوں سے سامعین کے ذہن میں بات اتارے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔
فرماتے ہیں: ایک بریلوی مولوی جس نے بڑی بڑی مونچھیں رکھی ہوئی تھیں اہل حدیث کے خلاف گفتگو میں مشہور تھا اس نے کسی جگہ خطاب کیا مسئلہ علم غیب کو بیان کرتے ہوئے ایک عجیب فلسفہ پیش کیا کہ “نبا کا معنی ہے غیب کی خبر۔۔۔ نبی نبا سے ہے۔ نبا نبی سے ہے۔ نبی نہ ہو نبا نہ ہو۔۔۔ نبا نہ ہو نبی نہ ہو۔۔۔ یہ نہ ہو وہ نہ ہو۔۔۔۔ وہ نہ ہو یہ نہ ہو۔ لہذا ثابت ہوا کہ نبی کو علم غیب حاصل ہوتا ہے۔لوگ پریشان ہوئے کہ مولانا نے معلوم نہیں کون سی دقیق علمی بحث سے مسئلہ کو ثابت کیا ہے۔
وہاں پر جوابی جلسہ رکھا گیا۔ شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمۃ اللہ علیہ فرمانے لگے کہ مولانا “نبی نبا سے ہے”۔ کا بھی جواب دینا۔
میں نے عرض کیا مولانا آپ دعا فرمائیں سب ٹھیک ہوگا
میں نے خطبہ پڑھتے ہی ایک شعر معمولی تبدیلی کے ساتھ پڑھا:
نور خدا ہے شرک کی حرکت پہ خندہ زن
مونچھوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
میں نے کہا مولانا آپ نے یہ کیا فلسفہ پیش کیا کہ نبی نبا سے ہے اور نبا نبی سے ہے نبا نہ ہو نبی نہ ہو نبی نہ ہو نبا نہ ہو۔۔۔۔ تو سن لیں سن لیں پھر حضرت سلیمان علیہ السلام کا واقعہ قرآن سے پڑھیں۔ ہد ہد نے آ کر سلیمان علیہ السلام سے عرض کی:

فَمَكَثَ غَيْرَ بَعِيدٍ فَقَالَ أَحَطتُ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِهِ وَجِئْتُكَ مِن سَبَإٍ بِنَبَإٍ يَقِينٍ (سورۃ النمل:22)

“پھر تھوڑی دیر کے بعد ہُدہُد حاضر ہوا اور کہا کہ میں حضور کے پاس وہ خبر لایا ہوں جو حضور کو معلوم نہیں اور سبا سے آپ کے پاس ایک یقینی خبر لایا ہوں”
یہاں نبا ہدہد کے پاس ہے لیکن وہ نبی نہیں اور جو نبی ہے(سلیمان علیہ السلام) اس کے پاس نبا نہیں. اگر ہر صاحبِ نبا نبی ہوتا ہے تو ذرا جرأت کریں ہدہد(چکی راہا) کے متعلق اعلان فرمائیے۔
آپ نے یہ غلط مفہوم پیش کیا ہے۔ سن لیں نبی اس کو کہتے ہیں کہ آسمان سے جب کوئی نبا (خبر یعنی وحی) آئے اس کے پاس آئے۔
اس گفتگو کا اتنا اثر ہوا کہ سب لوگوں کو مسئلہ کی حقیقت سمجھ آگئی مولانا اسماعیل سلفی رحمۃ اللہ علیہ بہت خوش ہوئے ڈھیروں دعائیں دیں۔
وہ آئے بزم میں اتنا تو میر نے دیکھا
پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی
اللّٰہ تعالیٰ حضرت شیخ القرآن رحمۃ اللّٰہ علیہ کے جنت الفردوس میں درجات بلند فرمائے آمین ثم آمین

✍️⁩ دعاگو: عبدالرحمان سعیدی

یہ بھی پڑھیں: مولانا واصل واسطی صاحب حفظہ اللہ کا مختصر تعارف