مولانا واصل واسطی صاحب حفظہ اللہ کا مختصر تعارف

رَأَيتُ العِلمَ صاحِبُهُ كَريمٌ
وَلَو وَلَدَتهُ آباءٌ لِئامُ
لَيسَ يزالُ يَرفَعُهُ إِلى أَن
يُعَظِّمَ أَمرَهُ القَومُ الكِرامُ

میں نے اس حقیقت کو جان لیا کہ علم والا معزز ہوتا ہے
اگر چہ اسے جنم دینے والے والدین ادنٰی درجہ کے ہوں۔
اور علم مسلسل اس شخص (عالم )کو بلند کرتا ہے یہاں تک کہ قوم کے معززین بھی اسے عظیم القدر تسلیم کر لیتے ہیں۔

● فضیلة الشیخ مولانا واصل واسطی صاحب حفظہ اللہ کا مختصر تعارف

محترم و مکرم جناب مولانا محمد واصل واسطی حفظہ اللہ تعالیٰ کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ آپ ایک کہنہ مشق کامیاب معلم معتبر عالم دین اور صاحب زبان وقلم دانشور ہیں، یقیناً علم و حکمت اور عقل و دانش کے بے مثل چراغ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں بہت سی خوبیوں اور صلاحیتوں سے وافر حصہ عطا فرمایا ہے۔
جماعت کے جہاندیدہ عبقری شخصیات میں سے ہیں متبحر عالم قرآن و سنت پر دسترس منجھے ہوئے خطیب و ادیب مصنف و مؤلف ہیں بڑے باصلاحیت باذوق شخصیت ہیں
قرآن و سنت کا فھم اوراسکی باریکیوں سے آگہی عطاء فرمائی ہے قلم و قرطاس اور زبان سے قرآن و سنت مسلک محدثین مسلک حق کا دفاع انکی سرشت اورخمیر میں داخل ہے
حصول علم کے دوران ہی سے مطالعے کا شوق وافر رہا، اور اسی دور سے نہ صرف درس نظامی کے ہر فن کی امہات الکتب تک رسائی کی عادت ڈھالی، بلکہ درس نظامی کے علاوہ بھی مختلف علوم سے واقفیت حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ آپ کے مطالعے اور تحقیق کے خاص میدان علم ادب، اصول فقہ، اور عقائد علم الکلام ہیں ۔ موصوف ایک ممتاز عالم دین ہونے کے علاوہ شاعری کا اچھا ذوق رکھتے ہیں۔ پشتو، اردو، عربی اور فارسی کے بلا مبالغہ ہزاروں اشعار ازبر ہیں۔ پشتو میں خود بھی شعر کہتے ہیں اور ایک اچھے نقاد بھی ہیں۔ پشتو ادب کے مختلف اداروں کی سر پرستی بھی کرتے رہے ہیں۔

نام ونسب

مؤلف کا اصل نام محمد احمدبن دوست محمد بن عبدالرشید ہے۔
قلمی نام واصل واسطی

پیدائش

شیخ واصل واسطی حفظہ اللہ ستمبر1967 میں بلوچستان کا کلی (گاوں) دادگزئ قصبہ خانوزئی (جس کو اب خانوزئی سٹی کہا جاتا ھے)
ضلع پشین میں پیدا ہوئے ہیں۔

ابتدائی عصری تعلیم

ابتدائی عصری تعلیم خانوزئی کے ہی سرکاری سکول میں میٹرک تک حاصل کی ہے۔

غربت والے حالات

شیخ واصل واسطی حفظہ اللہ کے خاندان میں ان سے قبل کوئی ایک شخص بھی عالم دین نہیں تھا اپنے خاندان میں مرد مجاہد تھے انتہائی غریب گھرانے سے تعلق رکھتے تھے ممدوح فرماتے کہ دسویں کلاس تک کبھی گھر سے ناشتہ نہیں کیا بلکہ پیاز اور گڑھ کے ساتھ وقت گزارتے تھے اور لوگ مذاق اڑایا کرتے تھے لیکن کبھی مایوس نہیں ہوئے اب وہ وقت یاد آتا ہے تو رونا اتا ہے کیسے حالات تھے اللہ تعالی نے اب وسعت عطا فرمائی ہے

دینی تعلیم کا آغاز

میٹرک کے بعد شیخ واصل واسطی صاحب حفظہ اللہ نے دینی تعلیم کیلئے صوبہ سرحد موجودہ کے پی کے تشریف لے گئے۔ سال، ڈیڑھ سال وہیی پڑھا پھر پنجاب میں تقریبا دو سال جامعہ عربیہ گوجرانوالہ

● شیخ محترم اہل حدیث کیسے ہوئے؟ سنیں شیخ محترم کی زبانی

غالبا 1987ء کی بات ھے. کہ میں جامعہ عربیہ گوجرانوالہ میں بضد منت وزاری داخل ھوا. پہلے ھم نے جامعہ اشرفیہ لاھور میں داخلہ لیا تھا. مگر دو مہینے بعد ستائیس (27) لڑکوں کو وھاں سے نکال دیا گیا. جرم یہ بتایا گیا کہ یہ مودودی کے چیلے ھیں. ان میں میں بھی شامل تھا. میرے ساتھ والے دوستوں کو تو منصورہ میں داخلہ مل گیا. کہ وہ دورہُ حدیث میں تھے. چھوٹی کلاسیں منصورہ میں اس وقت نہیں ھوتی تھیں. تو مولانا عبدالمالک صاحب نے مولانا انور قاسمی صاحب کے نام خط لکھ کر مجھے دیا. وھاں جا کر معلوم ھوا کہ پچھلے سال سے پٹھانوں پر قتل وقتال کی وجہ سے داخلہ بندکیا گیا ھے. خیر بہت منتوں سے داخلہ مل گیا. مگر کڑی شرطیں لگائی گئی. وھاں ھمارے اساتذہ میں مولانا مفتی نذیر احمد صاحب، مولانا انور قاسمی صاحب ، مولانا امیر نواز صاحب، مولانا فضلِ کریم صاحب ، حافظ محمد اکرم صاحب، وغیرہ تھے. اونچے کلاسوں کو مولانا عبدالخالق شاہ گیلانی صاحب، مفتی نذیر احمدصاحب ، مولانا محمد عارف صاحب ، مولانا فاروق اصغر صارم صاحب اور مولانا سجاد صاحب پڑھاتے تھے. بانیُ جامعہ مولانا محمد چراغ صاحب اس وقت حیات تھے. اسباق پڑھانے سے معذور تھے مگر چل پھر سکتے تھے، اسمبلی میں ضرور حاضری دیتے، بعد میں مولانا امیر نواز صاحب کے کمرے میں تشریف لاتے اور چار پائی پرلیٹ جاتے، مولانا امیر نواز صاحب ھمیں حکم دیتے کہ حضرت کے ھاتھ پاؤں داب دیں. باقی دوستوں کے لیے توکوئی مسئلہ نہ تھا. مگر میں پٹھان تھا اس طریقے سے بالکل ناواقف تھا. اس لیے بہت مشکل کام لگ رھا تھا. لیکن خوشی یہ تھی کہ فارغ ھونے پر حضرت اس بندے کے لیے بڑی طویل دعا فرماتے تھے. جس سے ساری کلفت دورھوجاتی. ایک دفعہ ھم طلبہ اپنی اپنی کلاسوں میں بیٹھے تھے کہ گھنٹی بج گئی. اورحکم دیا گیا کہ سارے آجائیں. ھم تمام طلبہ صحن چمن میں آکر بیٹھ گئے. ایک عرب عالم حسن شافعی (جو اسلامک یونیورسٹی کے مدیر تھے) مولانا عبدالمالک کے صاحب کے ساتھ تشریف لائے تھے. تاکہ حضرت مولانا محمدچراغ صاحب سے سند الاجازہ حاصل کریں. اور اس کے واسطے سے مولانا انورشاہ کاشمیری کے شاگردی کا شرف پائے. حضرت مولانا انورشاہ صاحب کے خصوصی شاگردتھے. اور انکی امالی کو ،عرف الشذی ، کے نام سے مرتب کیا تھا. تو اس وقت اساتذہ نے یہ فیصلہ کیا . کہ جامعہ کے تمام طلبہ بھی حضرت کے اس درس میں شریک ھوجائیں. تاکہ انھیں بھی شرفِ تلمذ حاصل ھو جائے. اس کے بعد حضرت نے درس دیا. اور پھر ھم سب کو اجازت دی . اور شرف ِتلمذ سے نوازا. اس طرح ھم بھی ایک واسطے سےمولانا کشمیری کے شاگرد ھوگئے. الحمد للہ رب العالمین. مجھے اپنے شیخ اول مولانا محمد عنایت الرحمن صاحب کے واسطے سے بھی شاہ صاحب کے تلمذکا شرف حاصل ھے الحمد للہ. کیونکہ میرے شیخ اول ، مولانا محمد ادریس کاندھلوی، مولانا غلام رسول خان ھزاروی، اور مولانا احمد علی لاھوری کے شاگردتھے. مولانا کاندھلوی پھر شاہ صاحب کے براہ راست شاگرد تھے. مگر اس طریق میں دو واسطے ھیں. اور پہلے طریق میں صرف ایک واسطہ ھے. یعنی حضرت والا طریق عالی ھے. خیر یہ بات توضمنا نوکِ قلم پر آگئی. میں کہنا یہ چاہ رھا تھا کہ انھی دنوں علامہ احسان الہی ظھیر لاھور میں تقریر کے دوران ایک دھماکے میں چند ساتھیوں سمیت شھید ھوگئے .تو اھل حدیث علماء جگہ جگہ انکا غائبانہ پڑھنے لگے ، میں اس وقت قدوری پڑھ رھا تھا. جو استاد پڑھارہے تھے. انھوں نے غائبانہ نمازِ جنازہ اور مکتب اھل حدیث پر سخت تنقیدیںِ کی. کہ قرآن وسنت میں غائبانہ نمازِجنازہ کا کوئی ثبوت نہیں ھے. میرے ذھن میں سوال پیدا ھوا. کہ آخر اتنے بڑے بڑے علماء بغیر ثبوت کے کیسے غائبانہ نمازِ جنازہ پڑھتے ھیں دوسرے پریڈ میں مفتی نذیر صاحب سے سوال پوچھا. انھوں نے بھی اس کی سخت تردید کی. مگر میرادل تھا کہ مطمئن نہیں ھو رھا تھا. کلاس کے بعد برادرِ مکرم حافظ محمد اکرم سیالکوٹی نے کھا کہ اس بارے میں مناسب یہ ھے کہ خود اھلِ حدیث علماء سے پوچھ لیں. میں نے عرض کیا وہ تو ادھر نہیں ھے. حافظ صاحب نے کہا کہ مولانا فاروق اصغر صارم صاحب اھلِ حدیث ھے. چلو ان سے پوچھتے ھیں. ھم ان کے پاس گئے اور سوال کیا. انھوں نے نیل الاوطار لائبریری سے لانے کا فرمایا. ھم وہ لے آئے. انھوں نے تفصیل سے جواب دیا. کہ غائبانہ نماز جنازہ جائز ھے نبی علیہ السلام نے نجاشی کا پڑھا تھا. جس سے میرا دل مطمئن ھوگیا. آخر میں انھوں نے پوچھا. بیٹا اب اس مسئلے میں کیا خیال ھے میں نے کہا جب یہ بات حدیث میں ثابت ھے. تو پھر درست ھے اسے ماننا چاہیے. اس پر انھوں نے فرمایا بیٹا آپ جمعرات کے روزمیرے پاس ضرور آیا کرے. تا کہ میں آپ کو کچھ نہ کچھ بتایا کروں. میں نے اس کو معمول بنایا پہلے وہ زبانی کچھ مسائل بتاتے رھے پھر ایک کتاب بنام، الرسائل فی تحقیق المسائل، از عبدالرشید انصاری فراھم کردی. کہ میں اسے پڑھوں صارم صاحب نے فرمایا اس کتاب کا اکثر حصہ میں نے لکھا ھے. مگر مصلحت کی خاطر میں نے اس پر اپنا نام نہیں دیا ھے. یہ کتاب میں نے چند دن میں پڑھ لی. جس نےمیرے ذھن کو یکسر بدل دیا. پڑھنے کے بعد میں اھلِ حدیث یعنی سلفی بنا. افسوس کہ یہ محسن کتاب بعد میں مجھے انتھائی تلاش کے بعد بھی کہیں نہیں مل سکی . میں نے عملا جامعہ میں سلفیت پر عمل شروع کیا، جامعہ عربیہ میں بہت ساری خوبیوں کے ساتھ ایک بڑی خوبی یہ بھی تھی. کہ طلبہ کو مذاھب کے حوالے سے مکمل آزادی تھی. نہ اساتذہ عظام تنگ کرتے تھے. نہ ھی طلبہُ کرام، بعد میں جماعتِ اسلامی کے اکثر مدارس میں یہ خوبی دیکھی کہ ان میں اھلِحدیث طلبہ کوبڑی آزادی ھوتی تھی. جزاھم اللہ عنی وعن المسلمین خیرا. گھر آنے سے پہلے ھی میرے مذھب بدلنے کی اطلاع گھر پہنچ گئی تھی. کیونکہ حاجی علی احمد نے گوجرانوالہ میں مجھے رفع الیدین کرتے دیکھا تھا. میری والدہ اس بات بہت سخت پریشان تھی. بار بار پوچھتی رھی میں انکار کرتا رھا. وہ تنگ آکر کہتی بیٹا لوگ دوسروں کے بارے میں ایسی باتیں کیوں نہیں کرتے ھیں میں جواب دیتا وہ مجھ سے بغض رکھتے ھیں. کیونکہ میں جماعت اسلامی میں ھوں. وہ پھر کہتی کہ مولانا عبدالاحد صاحب بھی تو جماعتِ اسلامی میں ھے. انکے بارے میں لوگ مذھب بدلنے کی بات کیوں نہیں کرتے مجھ سے کوئی جواب نہ بن پڑتا. والدہ مرحومہ کو اس بات کی اتنی پریشانی تھی. کہ اس کی کوئی مثال نہیں. گاؤں والے بھی مجھے شک کی نظر سے دیکھتے تھے. ان حالات کی صرف ایک مثال پیش کرتا ھوں. کہ میں نے اپنے گاؤں کے بازار کی جامع مسجد میں باجما عت نماز پڑھی. اس وقت اھل حدیث ھونے کو عرصہ ھو چکا تھا. ہاتھ ناف سے کچھ اوپر باندھ لیتا تھا. اور پاؤں بھی کچھ پھیلا کر رکھتا تھا. نماز سے فراغت کے بعد مسجد کے دروازے پر ایک مولوی صاحب کھڑے نظر آئے. جو زور زور سے بول رھا تھا. میں جب قریب پہنچا تو اس نے چیخ چیخ کرکہا تم کیوں ھماری مسجد میں ھمارے مذھب کے خلاف کرتے ھو میں نےکہا جناب کیا خلاف کیا ہے۔ تو اس نے کہا ہاتھ ناف سے اوپر باندھتے ھو اور پاؤں پھیلاتے ھو میں نے کھا کیا آپ میرے ساتھ کھڑے تھے اس نے غلیظ گالیاں دینی شروع کی. اور کہا یہ ھمارا گاؤں ھے. اس میں صرف وھی ھوگا. جس کی ھم اجازت دینگے. میں نے پھر پوچھا آپ میرے ساتھ کھڑے تھے تو وہ مارنے پرتل گئے اور شور و شغب مچایا. بہت سارے لوگ جمع ھو گئے اس نے مجھے گریبان سے پکڑا تھا اور گالیاں دے رھئے تھے. ان لوگوں میں ایک حاجی صاحب نے ان کو مخاطب کر کے کہا مولوی صاحب عذر کی بنا پر ایسا کرنا جائز ھے. تو اس نے کہا ہاں. حاجی صاحب نے کہا تو اس کو بھی عذر ھے. اسکو چھوڑ دو. بس اس کا کہنا تھا کہ مولوی جی نے مجھے الحمد للہ چھوڑ دیا. آج اس گاؤں میں سلفیوں کی مسجد ھے. جس میں سینکڑوں لوگ نماز پڑھتے ھیں. اس وقت میں نے اپنے طور یہ حفاظتی تدبیر کی. کہ جب اکیلا ھوتا. تو سلفی طریقے پر نماز پڑھتا تھا. اور جب لوگوں کے درمیان ھوتا تو پھر حنفی طریقے پر پڑھتا، سالہا سال اس طرح گزار دئیے. کیونکہ اس وقت ھمارے پورے علاقے میں صرف مولانا صبغت اللہ شیرانی مرحوم و مغفور اھل حدیث تھے. وہ بھی ھم سے اڑھائی سو میل دور ژوب میں رھتے تھے. کئی سال بعد ایک دفعہ میں گھر دیر سے آیا دروازہ بند تھا. میں والدہ کی ڈرسے دیوار پراھستہ سے چڑھ کر گھر میں داخل ھوا. اور اپنے کمرے میں گیا. عشاء کی نماز نہیں پڑھی تھی. اسے پڑھنے لگا. پتہ نہیں والدہ کو کیسے میرے آنے کی خبر ھوئی اور کمرے میں خفیہ طور سے آگئی. مجھے بالکل پتہ نہیں چلا. مجھے سلفی طریقے پر نماز پڑھتے دیکھا. تو فرمایا. فلان عورت بالکل ٹھیک کہ رھی تھی کہ تیرے بیٹے نے مذھب بدل لیا ھے. میں ڈر کے مارے بےخود اور سھما ھوا کھڑا رھا. پتہ نہیں نماز میں کچھ پڑھا بھی کہ نہیں. سلام پھیرنے کے بعد والدہ کہنے لگی بیٹا لوگ سالہا سال سے ویسے پروپیگنڈا نہیں کررھئے تھے. اس بات سے فورا توبہ کرو، میں کوئی بات نہیں مانتی. کیا ھمارے گاؤں والے سارے کافر ھیں جھنم میں جائینگے ایک تو ھی جنت میں جائے گا بھر حال بہت سختی کی جس کو بیان کرنا ضروری نہیں ھے میں نہ مانا تو عرصہ تک ناراض رہی مگر اس کے باوجود مجھ پر یہ احسان کیا کہ بڑے بھائی کو کبھی یہ بات نہیں بتائی. اس لیے کہ وہ بہت سخت مزاج اور ضراب للنساء والا ولاد والاخوان، تھے. بھرحال اللہ تعالی نے استقلال بخشا. بعد میں وہ اس بات پر راضی ھو گئی. کہ بیٹا خلوت میں جس طرح بھی نماز پڑھتے ھو پڑھ لیا کرو. مگر لوگوں کے سامنے حنفی طریقے پر نماز پڑھ لیا کرو. میں نے اسے قبول کیا. کیونکہ میں پہلے سے اسی طریقے پر عمل پیرا تھا. کچھ عرصہ بعد میں نے پہلے جامعہ تفھیم القران مردان میں داخلہ لیا. اگلے سال پھر جامعہ رحمانیہ درگئی میں داخلہ لیا. ان دو مدارس کے اساتذہ بالخصوص میرے شیخ اول مولانا محمد عنایت الرحمن صاحب اور شیخ ثانی مولانا گوھررحمن صاحب کے دروس میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور حافظ ابن القیم کا تذکرہ بہت ھوتا رھا. شیخِ اول مولانا محمد عنایت الرحمن تو ھر سال ابتدائی خطاب میں فرماتے تھے. کہ یہاں ھر فرقے کا طالب علم پڑھ سکتا ھے کوئی پابندی کسی پر نہیں ھے. مگرجو طالب علم علماء کوگالیاں دیتا ھے وہ یہاں نہیں رہ سکتا. خاص کر شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور مولانا مودودی کو جوفرد برا بھلا کہتا ھے. اسے یہاں سے جانا ھوگا. ان دومدارس میں مجھے شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور اسکے شاگردِ رشید حافظ ابن القیم سے محبت ھوگئی اورکچھ شیخِ اول کے زیرِ اثرحنفیت پر بھی مطمئن ھو گیا. آخری دور میں شیخ اول سےشیخ زاھدالکوثری کا نام اوراسکی بڑی تعریف سنی، خاص کر اس کی کتاب (تانیب الخطیب علی ماساقہ فی ترجمة ابی حنیفة من الاکاذیب) کی بہت عجیب انداز سے انھوں نے مدح کی. میں اس سے بڑا متاثر ھوا پھر شیخ کوثری کی جتنی کتابیں میسر آگئی پڑھتا گیا. ان کتابوں میں شیخ الاسلام پر سخت تنقیدات کی گئی تھی. جس نے مجھے شیخ الاسلام سے سخت بیزار کیا. پھر میرے رب نے میری دستگیری کی. اس کے بہت سارے اسباب تھے. جس میں مولانا عبدالحق ھاشمی صاحب کے ساتھ علمی مذاکرات نے بہت بڑا فائدہ دیا. ایک اور عالم نے التدمریہ لشیخ الاسلام کے پڑھنے کا مشورہ دیا. وہ مل نہیں رھا تھا. پھر غالبا مولانا عبدالحق ہاشمی نے وہ رسالہ فراھم کیا. جس نے میرے شبھات کا ازالہ کیا. مگرایک بات جس کو میں کھبی بھی بھول نہیں سکتا وہ یہ ھے. کہ مولانا عبدالمالک صاحب کے بڑے بھائی مولانا عبدالرزاق صاحب سے میرا شیخ الاسلام ابن تیمیہ پر طویل مذاکرہ ھوا. انھوں نے اخر میں مجھے بطورِ نصیحت یہ بات کی. کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے باب میں مخالفین پرکبھی اعتماد نہیں کرنا چاھیے. خواہ وہ کتنے ھی بڑےکیوں نہ ھو. بلکہ خود ان کی کتابوں کو براہ راست پڑھ لو. اس نصیحت نے مجھے بڑا فائدہ دیا. جزاہ اللہ خیرا. پھر جب میں جامعہ مرکز العلوم الاسلامیہ منصورہ میں استاد بنا اور احادیث کی کتابیں پڑھانی شروع کی. تو شروح حدیث کا بھی مطالعہ کرتا گیا. اور اپنا پرانا منتخب کردہ سلفی موقف ومسلک درست اور قوی نظر آیا. تو پھر علی الاعلان اسے عملا اختیار کیا . یہ غالبا 2008ء کا واقعہ ھے .
ترکت ھوی لیلی وسعدی بمعزل
وعدت الی مصحوبِ اول منزل

مشہور اساتذہ کرام

اساتذہ کرام میں جن سے کسب فیض کیا
(1)مولانامحمد عنایت الرحمن صاحب
(2)مولانا گوھر الرحمن صاحب
(3)مولانا محمد چراغ صاحب
(4)مولانا فدامحمد صاحب نائب شیخ الحدیث درگئ صاحب
(5)مولانا اکبر خان صاحب درگئ صاحب
(6)مولانا غلام سرور صاحب زوب
(7)مولانا مفتی نذیر احمد صاحب گوجرانوالہ
(8)مولانا سابق صاحب مردان
(9)مولانا عبد القدوس صاحب مردان
(10)مولانا عبد السلام صاحب مردان
(11)مولانا عبد الواحد صاحب درگئ

● شیخ واصل واسطی حفظہ اللہ دوران طالب علمی

شیخ واصل واسطی صاحب حفظہ اللہ کو طالب علم کے دور سے ادب کے ساتھ شغف تھا طالب علمی کے زمانے میں ان کے ایک استاد ھوتے تھے ضلع زوب بلوچستان کے امیر تھے مولانا غلام سرور صاحب درجہ ثانیہ میں پڑھتے تھے وہ موصوف کو چوتھے سال میں بھی ساتھ بیٹھاتے تھے لڑکوں کو فصول اکبری پڑھاتے تھے تو ان کو کہتے تھے کہ آپ اس کو سمجھ سکتے ھے لہذا آپ کو میری اس کلاس میں بیھٹنا ھوگا تو شیخ واصل واسطی صاحب بیٹھتے رہے ایک دن فصول اکبری میں لفظ آیا صفن تو استاد نے شاگردوں سے پوچھا کے صفن کا کیا مطلب ھے لڑکے چپ ھوگئے وہ جو چوتھی کلاس والے تھے پھر ان سے پوچھا انہوں نے کہا سفن جو ھے وہ سفینہ کی جمع ھے تو انہوں نے کہا دلیل دے دیں انہوں نے ایک شعر حفظ کررکھا تھا شعر تو ممدوح نے بہت سارے حفظ کر رکھے تھے تو بہر حال ایک شعر انہوں نے اس طرح یاد کیا تھا جس میں سفن کا لفظ آیا تھا تو اس نے کہا دلیل دے دیں شعر پیش کرے دلیل میں تو یہ طلب کرتے رہے کرتے رہے تب ان کے ذہن میں حاضر نہ ھو سکا کلاس کے درمیان میں جب یہ اس لفظ سے گزر گئے تو ان کو شعر یاد آیا تو اب بھی یاد ھے
إن للہ عبادا فطنا⭐ طلقوا الدنیا وخافوا الفتنا
نظروا فیھا فلما علمو ا⭐ أنھا لیست لحی السکنا
جعلواھا لجة واتخذوا ⭐ صالح الأعمال فیھا السفنا
تو انہوں نے کہا کہ یہ کس کا شعر ھے انہوں نےکہا کے مجھے نہیں معلوم کہتے کے امام نووی کا کہا ممدوح نے ریاض الصالحین کے مقدمے میں اس کو حفظ کیا تھاتو اس پر وہ ان کے استاذ اتنے خوش ھوئے تھے کہ پشتو میں ایک شعر تھا جو بخارا کے بارے میں کہا گیا تھا وہ جب یہ کلاس میں داخل ھوتے تو وہ وہ شعر ان کے لیے پڑھتے تھے جو پشتو کے شاعر گل بادشاہ الفت کاھے جس کا ترجمہ یہ ھے اس خطے کو اللہ تعالی نے استعداد سے نوازا ھے کہ جس سے آپ کے جیسے لوگ ابھرتے رہتے ہیں۔

سند فراغت کے بعد

1996، 97 میں فراغت کے بعد پہلے جامعہ الدراسات الاسلامیہ کوئٹہ میں 9 سال تدریسی خدمات انجام دیں۔ پھر جامعہ مرکزعلوم اسلامیہ منصورہ لاہور میں درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا، اور تقریبا 9 سال تک درس نظامی کے مختلف مضامین میں اپنی مہارت سے طلبہ کو فیض یاب کیا۔ رابطہ المدارس جماعت اسلامی کے مدارس کے وفاقی بورڈ کا نام ھے اس میں مدیر المتحانات کل پاکستان رھے ھیں۔ اب چند سال سے اپنے آبائی گاؤں خانوزئی میں جامعہ الامام ابن تیمیہ کے نام سے دینی تعلیم کے ایک اعلیٰ معیاری ادارے کے قیام کی فکر میں لگے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالی انہیں اس میں کامیابی عطافرمائے۔

● شیخ محترم سے کسب فیض کرنے والے احباب

(1)صوبہ سرحد کے نائب امیر جمیعت طلبہ عربیہ عبید الرحمن عباسی صاحب
(2)حافظ فدا محمد الرحمن صاحب ضلع خوشاب کے جماعت اسلامی کے امیر
(3) چترال کے مشہور خطیب مولانا عنایت الرحمن صاحب
(4)چترال کے مولانا شجاع الرحمن صاحب
(5) منصورہ کے دائرہ معارف اسلامی میں حافط سجاد احمد صاحب
(6) ڈیرہ غازی خان میں مولانا محمد علی
(7)مولانا محمد جنید سومرو صاحب
(8)منصورہ مرکزعلوم اسلامیہ میں مولانا محمد اقبال چترالی
(9)صوبہ سرحد میں سخاوٹ میں ایک مدرسہ ھے اس میں پانچ چھ سو طلبا پڑھتے ہیں ان کے جو شیخ الحدیث ھے مولانا جمال الدین صاحب وہ ممدوح کے شاگرد ھے200 کے قریب جو درس و تدریس یا خطابت کے فرائض سر انجام دیتے رہے۔
(10) برادر اصغر مولانازبیر احمد صاحب

اس طرح ایک بار ڈاکٹر قاضی سعید اللہ جو صوبہ سرحد کے پشاور کے یونیورسٹی کے اسلامیات کے شعبے کے امیر تھے تو انہوں نے شیخ واصل واسطی حفظہ اللہ سے بات کی مولانا عبد الحق بلوچ کے گھر انہوں نے ملاقات کی تو کچھ باتیں اس میں ھوئی کشّاف کے تفسیر کے حوالے سےتو انہوں نے کچھ جگہ ذکر کیا اس میں ایک ممدوح کو بھی یاد ھے کہ انہوں نے کہاکہ قد جب مضارع پر داخل ھوتا ھے تو تقلیل کے لئے ھوتا ھے انہوں نے کہا نہیں جی کبھی تکثیر کے لئے بھی ھوتا ھے انہوں نےکہا کسں نے کہا واصل واسطی نے کہا کشّاف نے تو میں نے وہ عبارت پڑھ دی اور وہ شعر پڑھ لیا تو انہوں نے انہیں کہا کے (پی ایچ ڈی) میں مَیں آپ کو داخلہ دیتا ھوں آپ آ جائے یہ گھرآے والدہ سے بات کی والدہ نے اجازت نہیں دی اور پھر (پی ایچ ڈی )نہیں کرسکے۔
● کوئٹہ میں ایک عربی مؤسسة کے چیرمین صادق بلال آئے تھے تو بعض علماء نے ممدوح سے کہا کے آ جائے آپ بھی اس مجلس میں تشریف لے آئے وہاں پر انہوں نے عربی زبان میں گفتگو کی بعد میں مدرسے کے ناظم نے ان سے کہا کہ وہ مؤسسه کے جو چیرمین تھے تو انہوں نے کہا تھا آپ کے نکلنے کے بعدکہ سیکون لھذا الشاب مسقبلا ان شاءاللہ تعالی

تصنیفی خدمات

(ا)عقيدة السلف ودحر الإعتراضات عليها (ثلاث مجلدات مطبوعة
(2)المثالات الأدبية
(3)نقض المصطلحات الأربعة للأستاذ المودودي
(4)حيات الشيخ عبد العلی
(5)اربعین مثالات في المجلات العلمية المختلفة
(6)مقدمة لتفسيرالقرآن
(7)الامعان فی شرح حصن الایمان

● شیخ محترم کی کتاب “عقیدہ سلف” کو بہت پذیرائی ملی جس کے بارے میں علماء کرام کے تاثرات

● محدث العصر فضیلة الشيخ ارشاد الحق اثری صاحب کے تاثرات

بخدمت جناب محترم و مکرم حضرت علامه
واصل واسطی صاحب زادکم الله عزا و شرفاً السلام عليكم ورحمة الله وبركاته مزاج گرامی! آپ کا ارسال کرده ہدیہ ثمینہ- عقیدہ سلف –
موصول ہوا جس پر انتہائی سپاس گزار ہوں ۔ آپ تشریف لائے مگر یہ ناکارہ بیماری کی وجہ سے گھر پڑا تھا یوں زیارت سے محروم رہا اسی دوران میں آپ کا مکتوب مبارک بھی ملا۔ خوشی ہوئی یاد فرمائی پر بے حد شکر گزار ہوں۔ کتاب ملنے پر اس کی وصولی کی اطلاع فون پر گوش گزار کر دی تھی۔ چاہتا تھا کہ اسے پڑھ لوں پھر عریضہ ارسال کروں گا
الحمد للہ کہ اللہ تعالی نے” عقیدہ سلف ” سے استفادہ کی توفیق بخشی ہے کتاب پڑھ کر بڑی خوشی ہوئی کہ آپ نے اس مشکل بحث کو خوب نکھارا ہے اور کوئی پہلو تشنہ نہیں چھوڑا جب مفتی عبدالوحد صاحب کی کتاب چھپی تھی اور میرے پاس پہنچی تھی اسی دن محترم مولانا حافظ عبد الستارحماد صاحب سے فون پر عرض کیا کہ اس کا جواب آپ پر قرض ہے انھوں نے جواب کا عزم ظاہر کیا تھا مگر معلوم نہیں کہ وہ کسی مرحلے میں ہے دوبارہ دن سے استفسار بھی نہ کر سکا۔ مگر اب آپ کا یہ جواب پڑھ کر بڑی خوشی ہوئی کہ آپ نے اس کا ترکی بہ ترکی خوب جواب دیا ہے اور کوئی پہلو تشنہ نہیں چھوڑ اللہ تعالے اس کی تکمیل کی توفیق عطا فرمائے، سلف کا جو دفاع کیا ہے اس پر آپ کو اللہ تعالٰی اجر عظیم بخشے اور المرء مع من احب کا مصداق بنائے۔
شیخ شمس الدین رحمہ اللہ نے الماتریدیہ لکھ کے عرب دنیا میں انہیں بے نقاب کیا ہے تو اردو میں آپ نے “عقیدہ سلف” لکھ کے اردو دان حضرات کو ان سے خبردار کیا ہے بالخصوص کوثری کی دسیسہ کاریوں کو جیسے اجاگر کیا ہے اسی سے ہم طالب علموں کے لیے اس میں عبرت کا بہت سا سامان ہے ۔ عقیدے کے حوالے سے کوثری کی لن ترانیوں کا بھی آپ نے خوب تعاتب کیا ہے اوراس مشکل مسئلہ کو آسان پیرائے میں سمجھانے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ کتاب پڑھتا تھا تو آپ کے حق میں دعا کرتا تھا اور حیران ہوتا ہوں جبکہ افسوس کرتا تھا ایسے ذی علم سے ابھی تک ناواقفی کیوں رہی۔ اللہ تعالی ہمیشہ آپ کو اپنی مرضیات سے نوازے اور کتاب و سنت اور عقیدہ سلف کے دفاع کی توفیق عطا فرمائے- آمین
علامہ کوثری نے ائمہ سلف کے بارے میں جو بدزبانی کی ہے اور جو الزام تراشیاں کی ہیں علامہ المعلمی نے” التنکیل” میں اس غبارے سے ہوا نکال دی تھی مگر اس کے با وصف علمائے دیوبند” التانیب” کو گلے لگائے ہوئے ہیں بلکہ اس کا ترجمہ بھی شائع کر چکے ہیں اس کے بعد ضرورت تھی کہ” التنکیل” کا ترجمہ بھی شائع کیا جائے ایک مہربان (جو فاضل ام القری ہے اور ماشاء اللہ صاحب ذوق ہیں )سے اس کے ترجمہ کا کہا ہے وہ ماشاء الله طلیعة التنكيل کا ترجمہ کر چکے ہیں مستقبل قریب میں اسے شائع کرنے کا پروگرام ہے۔ ترجمہ کی رفتار بڑی سست ہے ان کے پیچھے پڑا ہوا ہوں دعا کریں یہ کام کرنے کی انہیں تو فیق عطا فرمائے۔
عقیدہ سلف کے علاوہ بھی آپ کی نشاطات علمیہ کا علم ہوا، اللہ تعالی آپ کو ان کی تکمیل کی بھی توفیق بخشے۔
والسلام مع العز و الاحترام۔

● شیخ محمد عزیر شمس رحمہ اللہ کی خواہش

بسم اللہ الرحمن الرحیم
(شیخنا محمد عزیر شمس رحمہ اللہ کی خواہش تھی کہ شیخنا واصل واسطی حفظہ اللہ کی کتاب کی چوتھی جلد کی فھرست ان کو فراہم کی جاے تا کہ وہ پہلی 3 جلدوں اور 4 جلد کی فھرست کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کتاب کے متعلق اپنے تاثرات کو سپرد قلم کریں تاکہ کتاب کا زیادہ سے زیادہ انتشار ہو سکے، لیکن شیخ واصل واسطی حفظہ اللہ اپنی ناسازئی طبع کی وجہ سے فہرست مرتب نہ کر پائے اور بات تاخیر کا شکار ہو گئی یہاں تک کہ شیخ محمد عزیر شمس رحمہ اللہ اس دار فانی سے کوچ کر گئے، بعد ازان شیخ واصل واسطی حفظہ اللہ کے فرزند(محمد جنید واسطی) ان کی خواہش پہ اور شیخ محمد عزیر شمس رحمہ اللہ کی خواہش کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے شیخ عزیر شمس رحمہ اللہ کے وہ صوتی پیغامات جو انہوں نے مختلف مواقع پہ مجھے اس کتاب کے متعلق یا میرے استفسار پہ بھیجے کو تاثراتی شکل دی ہے کوشش کی گئی ہے کہ الفاظ بھی شیخ کے ہی ہوں لیکن اس کے باوجود اس کو تحریری شکل دینے کے لئے کچھ تقدیم و تاخیر اور کمی و اضافہ کرنا پڑھاھے

● ابو ماھر عدنان بن محمد الطاف صاحب کےتاثرات

شیخ واصل واسطی حفظہ اللہ کی کتاب (عقائد سلف پہ اعتراضات کا علمی و تحقیقی جائزہ) چند دن قبل پہنچی اس عمدہ کاوش پہ اللہ تعالی شیخ کو جزائے خیر سے نوازے اور انکو ہمت اور طاقت دے کے اس کتاب کو مکمل کریں۔ دعا ہے کے کتاب مکمل ہو کے عقائد کے سارے مباحث پر مشتمل ایک موسوعۃ بن جائے اور حق پسند افراد کے لیے ایک گراں قدر علمی جوہر ثابت ھو۔
کتاب کی ورق گردانی سے دل باغ باغ ہو گیا اور دل سے شیخ کے لئے بہت دعائیں نکلیں، اللہ شیخ کے علم وعمل میں اضافہ فرمائے، ان کو صحت وعافیت سے نوازے اور تادیر ان کا سایہ قائم رکھے، شیخ نے اس کتاب میں بہترین اور عمدہ انداز میں عقائدِ سلف کا دفاع کیا ہے ، اس کتاب کی تصنیف کے لیے پورا مکتبہ کھنگال ڈالا ہے ، علمِ کلام، عقیدہ اور فلسفہ سے متعلق ڈھیروں معروف اور بہت سی غیر معروف کتب کے اس قدر اقتباسات نقل کیے ہیں کہ اردو کتابوں میں ایسا انداز بہت کم دیکھنے کو نظر آتا ہے، اور ساتھ ہی ساتھ کتاب وسنت کی نصوص سے کتاب کو مزین کرتے ہوئے جس خوبصورتی سے انتھائی سنجیدہ انداز میں مناقشہ کیا ہے کہ میں نے بہت کم لوگوں کو مخالف سے ایسے صبر تحمل اور حوصلے کے ساتھ مناقشہ کرتے پایا ہے۔
کتاب انتھائی مدلل اور مفصل ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت سنجیدہ انداز میں لکھی گئی ہے جو شیخ کے انتھائی متواضع اور متحمل مزاج ہونے پہ دال ہے، کتاب اس قدر جامع اور مفید ہے کہ کتاب میں شامل کئی فصول مستقل الگ مقالے کی حیثیت رکھتی ہیں مثلا رازی پہ تنقید، شیخ الاسلام کا دفاع کئی مباحث کے متعلق میں نے خود اس کتاب سے کافی استفادہ کیا۔ اور میں یہ چاہتا ہوں کہ اس کتاب کا خوب انتشار ہو اور باذوق افراد اس سے خوب استفادہ کریں۔

کتاب سے متعلق دواہم گذارشات

1) کتاب اپنی افادیت کے باوجود بہت طویل ہے اور اس طوالت کے ساتھ اس سے استفادہ کرنے والے بہت کم ہیں کیونکہ اول تو اتنی طویل کتاب پڑھنے والے ہی بہت کم ہیں اور اس پہ مستزاد یہ کہ اس میں کلامی، منطقی اور فلسفی بہت سی ایسی ابحاث بھی ہیں جن کو سمجھنے والے کچھ علماء اور باذوق طلبہ ہی ہیں اس لئے ایک مختصر کتاب کی اشد ضرورت ہے جس میں درج ذیل امور کو ملحوظ رکھا جائے
ا) سلف کا عقائد کے باب میں طرزِ تصنیف اس کو واضح کیا جائے
ب)شکوک و شبھات کو رفع کرنے اور ان کے ازالے کے لئے سلف کا طریقہ کار کی وضاحت
ج)ہر باب میں سلف کا جو عقیدہ ہے اس کو واضح طور پہ بیان کیا جائے اور پھر اس پہ وارد شکوک و شبہات کا ذکر کر کے ان کا جواب دیاجائے۔
د) سلف کے عقائد پہ جو بھی قدیم وجدید اعتراضات ہیں ان تمام شکوک وشبھات کی ایک فھرست بنای جائے اور اس کا حوالہ ذکر کر دیا جائے کہ یہ شکوک وشبھات فلان فلان کتاب میں مذکور ہیں اور پھر اختصار سے ان اعتراضات اور شکوک وشبھات کو اپنے الفاظ میں بیان کرنے کے بعد ان کا رد کیا جائے، مثلا قرآن، قیامت صفات باری، علو، تجسیم کے متعلق تمام اعتراضات کو ایک فصل میں جمع کر کے اس کا جواب دیا جائے اختصار اور جامعیت کو مدنظر رکھا جائے اور ان کی تمام عبارات کو نقل کرنے سے اور تکرار سے گریز کیا جائے
ھ) مخالف جانب سے لکھی گئی ہر کتاب کا جواب لکھنا یا شبہ کو نئے الفاظ میں پیش کیے جانے کی وجہ سے دوبارہ سے جواب لکھنا بہت طوالت اور نامکمل ہونے والے سلسلے کے مثل ہو جاتا ہے، ان کی اس متعلق کتب کو جمع کر کے مطالعہ کے بعد جو مجموعی اصل اعتراضات سامنے آئیں ان کو ترتیب سے ذکر کر کے جواب دیا جائے.
کیونہ تمام اعتراضات کرنے والے چاہے وہ قدیم ہوں یا جدید کی عبارات میں اگرچہ کچھ اختلاف ہو لیکن اصل اصول اور مدعا ایک ہی ہے اس لئے تکرار سے بچا جائے اور کی اصل کا مناقشہ کیا جائے۔
2) کتاب میں بعض کتب کے مختلف طبعات استعمال کئے گئے ہیں مثلا مجموع الفتاوی شیخ الاسلام کے معروف ۳۷ جلد والے طبع کی بجائے دوسرے طبعات کا استعمال کیا گیا ہے تو شیخ اپنے کسی طالب علم کے ذمہ لگائیں کہ وہ مطبوعہ تمام جلدوں میں مجموع الفتاوی کی تمام عبارت کے حوالہ جات کو ۳۷ جلد والے طبع کے مطابق کیا جائے اور اگلی جلدوں میں بھی اس بات کا خاص خیال رکھا جائے۔

● شیخ الحدیث حافظ مسعود عالم صاحب حفظہ اللہ کے تاثرات

بسم اللہ فضیلة الشيخ مولانا واصل واسطی صاحب حفظک اللہ وعافاک وبارک فیک ورعاک اللہ رب العزت آپ کے علم وفضل میں برکت عطاء فرمائے اور آپ کا علمی اور ایمانی اور روحانی فیض مزید اللہ رب العزت اس میں برکت فرمائے ماشاء اللہ آپ کا جو کام عقیدہ سلف کے دفاع میں سامنے آیا ھے وہ بہت بڑی خدمت ھے ملت اسلامیہ کی اور بالخصوص ملت سلفیہ کی اللہ تعالی اُسے آپ کے میزان حسنات میں شامل فرمائے ہم آپ کے لئے دل سےدعاگوہیں اس دور کے جو فتنے ھے داعش کا فتنہ ھے اسی طرح تقلید کا فتنہ ھے شخصیت پرستی کا فتنہ ھے ان فتنوں کے اوپر بھی آپ کی ماشاء اللہ بڑی وسیع نظر ھے اور آپ کو اللہ رب العزت نے ماشاء اللہ السحر الحلال اور القلم السیّال کی نعمت سے نوازا ھے ماشاء اللہ آپ کی عبارت بہت جاذب اور بہت مؤثر اور پُرشکوں ھوتی ھے اور ماشاء اللہ بڑی روانی اوبڑی تاثیرسے لبریز ھوتی ھے تو آپ ان موضوعات پر ہمت کر کے لکھوا دیں ریکارڈ کروا دیں اور اگر قلم سے لکھتے ہیں تو ہمت کر کے لکھ دیں ان شاء اللہ یہ امت کی ہدایت کے لئے اور لوگوں کی اصلاح کے لئے بہت ہی کار آمد اور نافع ھو گا اور آپ کے لئے صدقہ جاریہ ھو گا ہم آپ سے محبت کرتے ہیں اور آپ کے لئے دل میں بڑی قدر اور منزلت ھے اور آپ کے لئے دعاگو رہتے ھے جی چاہتا ھے کے چکر لگائے میں اور حافظ شریف صاحب تو آپ کی زیارت کرے ان شاءاللہ العزيز میں پروگرام بناتا ھوں قریب میں آپ سے ملنے کے لئے ان شاء اللہ العزیز ہم چکر لگائیں گے اللہ تعالی آپ کو سلامت رکھے اور اپ کو صحت میں اور آپ کی صلاحیتوں میں اور قوت میں اللہ رب العزت برکت فرمائے اور آپ کا سایہ عاطفت امت مسلمہ پر قائم رکھے بارک اللہ فیکم وحفظکم ورعاکم وعافاکم وبارک فیکم وامدّ فيوضكم
وجزاکم اللہ خیرا السلام علیکم ورحمةالله وبركاته احبکم واخوکم مسعود عالم غفراللہ لنا ولکم وجعلنا من عبادہ الصالحین المصلحین المخلصین الصادقین والحقنا بعبادہ السابقین المقربین بارک اللہ فیکم والسلام علیکم ورحمةالله وبركاته

● انڈیا کے معروف عالم دین مولانا جلال الدین قاسمی حفظہ اللہ کے تاثرات

فرماتےہیں: لوگ مختلف کتابوں کی تعریف اور تعارف پر بہت کچھ لکھتے رہتے ہیں۔
مگر مجھے بڑی حیرت ہورہی ہے کہ شیخ واصل واسطی حفظہ اللہ کی کتاب “عقیدہ سلف پر اعتراضات کا علمی جائزہ” کے بارے میں کوئی کچھ لکھ ہی نہیں رہا ہے!
یہ کتاب میں نے پڑھی ہے۔
جس سے مجھے اندازہ ہوا کہ اکثر علوم متداولہ پر شیخ کی بڑی اچھی گرفت ہے۔
ایک طرف وہ بہت بڑے عالم دین ہیں تو دوسری طرف ایک منطقی اور فیلسوف بھی۔
میری نظر میں ایک حیرت انگیز کتاب ہے، میں نے عقیدہ پر بہت سی کتابیں پڑھی ہیں مگر ان کا انداز ہی کچھ الگ ہے۔
متقدمین خاص طور سے ابن تیمیہ اور ابن قیم رحمھما اللہ کی تحریروں پر اتنی گہری نظر خال خال ہی نظر آتی ہے۔
احباب ان کی علمی وقعت کے بارے میں کچھ لکھیں

● ابوتقی الدین رحیمی صاحب کے تاثرات

فرماتے ہیں کہ:
میری دلچسپی فن عقیدہ میں ہے، یہی وجہ ہے کہ اس فن کی اہم عربی کتابیں ہمیشہ میرے مطالعہ میں رہتی ہیں.
“عقیدہ سلف پر اعتراضات کا علمی جائزہ” اردو زبان میں یہی ایک واحد کتاب ہے جس کا گیرائی وگہرائی سے میں نے مطالعہ کیا ہے، انتہائی علمی کتاب ہے، لہذا ہر اہل حدیث بچہ کو اس کتاب کا مطالعہ کرنا چاہئے اور اس کا ایک نسخہ منگوا کر اپنی لائبریری میں رکھنا چاہیے.
فضیلة الشیخ محمد احمد حفظہ اللہ – جو “واصل واسطی” کے قلمی نام سے معروف ہیں ان کی یہ مایہ ناز تصنیف ہے، اب تک اس کتاب کی تین جلدیں زیور طبع سے آراستہ ہو کر دادِ تحسین حاصل کر چکی ہیں اور ابھی شاید یہ سلسلہ جاری ہے.
“صفات متشابہات” سے متعلق دیوبندی عالم ڈاکٹر مفتی عبد الواحد صاحب نے ایک کتاب لکھی تھی جس میں سلفی عقائد پر نقد کی گئی تھی، مولانا واصل واسطی حفظہ اللہ نے اپنی کتاب میں اسی کا علمی جائزہ پیش کیا ہے، اس کتاب کے مطالعہ سے مجھے درج ذیل چیزیں معلوم ہوئیں.
1: شیخ پہلے راہِ راست اور منہجِ سلف سے ہٹے ہوئے تھے، اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے انہوں نے بڑی تحقیق اور مطالعہ کے بعد سلفی منہج اختیار کیا ہے، مولانا نے اسی کتاب میں اپنی مختصر سرگزشت میں لکھا ہے:
“راقم، اپنے شیخ اول جناب مولانا محمد عنایت الرحمن- رحمہ اللہ- اور شیخ ثانی جناب مولانا گوہر رحمن- رحمہ اللہ- کا شاگرد ہے، شیخ الاسلام ابن تیمیہ سے محبت ان دو شیوخ کی وجہ سے میرے دل میں پیدا ہوئی، اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر دے! صفات میں وہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ ہی کی رائے کو پسندیدہ قرار دیتے تھے، شیخ اول جناب مولانا محمد عنایت الرحمن صاحب اکثر متاخرین کی کتابوں پر اکتفا کرتے تھے، اور انہی کے حافظ تھے، بنیادی اور امہات مراجع پر ان کی نظر محدود تھی، وہ زیادہ سے زیادہ شرح مقاصد، شرح مواقف، المسامرہ، شرح عقائد جلالی، شرح فقہ اکبر وغیرہ تک محدود رہتے تھے، البتہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے مجموع الفتاوی، منہاج السنہ وغیرہ کا حوالہ بکثرت دیتے تھے، سب سے پہلے میں نے اپنے شیخ ثانی جناب مولانا گوہر رحمن صاحب سے یہ بات سنی کہ امام اشعری (ابوالحسن الاشعری) نے “الإبانة عن أصول الديانة” میں سلف کے مذہب کی طرف رجوع کیا ہے، دونوں “امام العصر جرکسی” (یعنی شیخ محمد زاهد کوثری) کے بھی حوالے دیتے تھے، شیخ اول حنفی فقہ کی خدمت کی وجہ سے ان کی تعظیم میں القاب بھی بیان کرتے تھے، تو مجھے بھی “امام العصر جرکسی” کی کتابوں سے محبت ہو گئی، کرتے کرتے ان کی اکثر کتابیں پڑھ لیں، بعض کتابیں تو دو دو اور تین تین بار پڑھیں، اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی مخالفت بھی شروع کی اور انہیں مجسم بھی کہنے لگا تھا، اس لئے کہ” امام العصر جرکسی” نے لکھا تھا کہ انہوں نے (یعنی ابن تیمیہ نے) عثمان بن سعيد دارمی کی تصانیف کے بارے میں وصیت کی ہے کہ ہر سنی طالب علم اسے ضرور پڑھے، حالانکہ امام دارمی کی کتاب میں صراحتاً لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ “جسم” ہے تو جو عالم مجسم آدمی کی کتابوں کے پڑھنے کی وصیت کرتا ہے وہ خود بھی مجسم ہے، مگر میرے پاس امام دارمی کی کتاب” النقض على المريسي” نہیں تھی اور میں اس کی تلاش میں لگا رہا اور پھر ایک دن اتفاقاً ایک چھوٹی دکان پر یہ کتاب مل گئی، اس کی ابتدا میں محقق صاحب نے ابن تیمیہ کی وصیت وہ بھی درج کی تھی، میں اس کو ناقدانہ نظر سے پڑھنے لگا اور نشان لگاتا جاتا تھا تاکہ پھر مباحثہ میں کام آجائے، پوری کتاب پڑھ لی، اللہ تعالیٰ کے لئے” جسم” کا لفظ کہیں بھی نہیں ملا، پھر خیال کیا یہ نسخہ دوسرا ہوگا، لہذا ایک اور مطبوعہ نسخے کی تلاش شروع کی، بہت مشقت کے بعد دوسرا نسخہ ملا پڑھا، مگر نتیجہ وہی رہا، اس دوسری طبع کو پڑھتے وقت جسمیت کی نفی میں البتہ چند عبارات مل گئیں.
اب مجھے شک پڑا کہ یہ آدمی یعنی امام العصر جرکسی (یعنی زاہد کوثری) خائن نہ ہو، لہٰذا ان کی نقل کردہ عبارتیں اصل کتابوں میں دیکھتا گیا اور حقیقت مجھ پر روشن ہوتی گئی، یہاں تک کہ مجھے اس کے مفتری ہونے کا قطعی یقین ہو گیا اور ان کے افتراءات کا ایک بڑا ذخیرہ میرے پاس جمع ہو گیا، میں نے اللہ کا شکر ادا کیا اور اپنے اصل عقیدہ کی طرف پلٹ گیا جو میں نے اپنے اساتذہ سے سیکھا تھا، الحمد للہ رب العالمین، اس رجوع میں اور لوگوں کا بھی تعاون حاصل رہا ہے، اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر عطا فرمائے، تو یہ عثمان بن سعيد دارمی وہی امام ہے جس نے مجھے جہمیہ سے الگ کیا”.
2: مولانا کی اس تبدیلی اور فکری انقلاب میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ- رحمہ اللہ- کی تصنیفات وتحریرات کا بنیادی کردار رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ واسطی صاحب، شیخ الاسلام کی کتب و تحقیقات پر بڑی عمیق نگاہ رکھتے ہیں.
میں نے ابن تیمیہ سے متعلق زیر ترتیب کتاب میں” حلقہ بگوشانِ افکار ابن تیمیہ” میں مولانا کو جگہ دی ہے(يسر الله إتمامه وإخراجه) .
3: کتاب کے مطالعہ سے مجھے معلوم ہوا کہ مولانا متعدد علوم پر مہارت رکھتے ہیں، مولانا جہاں بہت بڑے عالم دین ہیں وہیں ایک منطقی اور فلسفی بھی ہیں.
4: کتاب کا اسلوب نہایت علمی ہے،اور تحریر میں سنجیدگی اور متانت بھی ہے.

● عبدالقیوم ظہیر صاحب کے تاثرات(مدیر: بیت الحدیث اسلامک ریسرچ سنٹر لاھور)

فرماتے ہیں:کہ
اکیسویں صدی کی عظیم الشان فقیدالمثال لاجواب کتاب “عقیدةالسلف پراعتراضات کاعلمی جائزہ” علامہ واصل واسطی حفظہ اللہ تعالی ومتعنااللہ بطول حیاتہ کی ھے جوکہ درحقیقت ڈاکٹر عبدالواحد دیوبندحنفی کی کتاب سلفی عقائداورآیات متشابہات کامدلل اور مسکت جواب ھے عقیدہ سلف جیسی ضخیم علمی شہکار کتاب کو فردفرید علامہ واصل واسطی نےمحبت الہ العالمین میں ڈوب کر تحریر کیاھے آپ کےقلم کی کاٹ دل تک کُھب جاتی ھےبشرط یہ کہ قلب سلیم ھو 3 جلدیں 2000 صفحات پرمشتمل ھے اورسلسلہ ھنوز جاری ھےمؤلف کے دلائل اس قدر وزنی ھیں کہ اُحدپہاڑ محسوس ھوتے ھیں جواب اسقدرشائستہ ھیں کہ بار بار پڑھنے کو جی کرتا ھے مطالعہ کی ابتدا سے انتہاتک دل پھولوں کی طرح معطر ھو جاتا ھے ایمانی لذت وافر محسوس کی جاسکتی ھے حضرة العلام نے گمراہ فرق اشاعرہ، ماتریہ کی گویاکمرتوڑ دی ھے 2017 سے 2023 تک فریق مخالف سہما ھوا ھے مجھےیقین ھےکہ یہ قرض قرض ھی رھے گا• {{نہ خنجراٹھے نہ تلوار ان سے•
یہ بازومیرےآزمائے ھوئے ھیں}}• ان شاءاللہ تبارک وتعالی نوٹ حیرت وخوشی کی بات یہ کہ حضرة العلام سابقا حنفی ھیں جنہیں حق تعالی نےظلمات فوق ظلمات سےنکال کر صراط مستقیم پرعقیدہ سلف الصالحین کا نہ صرف راھی بنایا ھے بلکہ اھلسنت، اھلحدیث کاامام بنادیاھے آپ کےوجود مسعود سے باطل لرزہ براندام ھے جہاں پر ھم آپ کے شکرگزار ھیں وھیں پر بارگاہ رب العالمین میں ملتمس ھیں کہ آپ کو صحت وعافیت والی لمبی عمر عطا ھو اور اس کتاب کی بقیہ جلدیں جلد از جلد قارئین کے پاس پہنچیں نیز اس کےعلاوہ حضرة العلام واسطی کے دیگر علمی منصوبے اور مشاغل پایا تکمیل کو پہنچیں آمین ثم آمین۔
اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ شیخ محترم کی دینی، تصنیفی، تدریسی، تبلیغی اور ملی خدماتِ جلیلہ کو شرفِ قبولیت سے نوازے اور آپ کو صحت کاملہ عطا فرمائے۔ آمین!

●ناشر: حافظ امجد ربانی

یہ بھی پڑھیں: قاضی احتشام الدین مراد آبادی