ضیاء الرحمن جسے رحمہ اللہ کہتے ہوئے دل یوں ہے جیسے کسی نے مٹھی میں لے کر بھینچ دیا ہو لیکن ہم یہی کہتے ہیں کہ اللہ خوبصورت ہے اس کے فیصلے بھی خوبصورت ہیں۔
ضیاء الرحمن رحمہ اللہ میرا بہت ہی قریبی دوست تھا، میں اپنے آپ کو سمجھانے کی بہت کوشش کر رہا ہوں لیکن پتا نہیں سمجھاتا ہوں سمجھ جاتا ہوں پھر اس کا خون میں لت پت چہرہ سامنے آ جاتا ہوں، سوچیں تو ہی جس چہرے کو مشکل سے مشکل حالات میں بھی مسکراتے ہوئے دیکھا ہو حوصلہ دینے والا دیکھا ہو وہ چہرہ بے جان اپنے ہی خون میں لت پت دیکھنا شاید نہیں دنیا کا مشکل ترین کام ہے۔
بہرحال آمدن برسر مطلب !
کچھ گذارشات اس حوالے سے پیش کرنی ہیں جو امید ہے ضیاء الرحمن رحمہ اللہ کے چاہنے والوں کے لیے مفید ثابت ہوں گی۔
اول: ہم الحمدللہ مسلمان ہیں ہماری زندگی ” لا تقدموا بین یدی اللہ و رسولہ” کے مصداق ہونی چاہیے یعنی ہماری خوشیاں اور ہماری غمی سب کچھ دین کے تابع ہونی چاہیے۔ لہذا  شہادت ضیاء الرحمن کے حوالے سے ہمارا مجموعی رد عمل بھی دین کے تابع ہونا چاہیے۔
دوم: ہم مجموعی طور پر بسا اوقات ایسے بے حس رویوں کے حامل ہو جاتے ہیں کہ ہمیں نہ تو شرم آتی ہے نہ حیا کہ کسی کی موت فوت پر بھی اپنی سیاست چمکانے سے باز نہیں آتے جہاں دل کیا اپنے ساتھ ایک ویڈیو کیمرے کو لیا اور ویڈیو بیان بازیاں شروع ہو گئیں نہ صورت حال کی نزاکت نہ جنازہ کی حرمت بس ویڈیو بیان ضرور آنا چاہیے۔

استغفر اللہ گھر والوں سے اجازت لیے بغیر آپ اپنے ویڈیو کیمرے  کو لے کر  کسی کے گھر گھس جائیں اور وہاں ویڈیو شوٹنگ شروع کر دیں۔ اخلاقی بلکہ شرعی و قانونی اعتبار سے ہم اجازت لینے کے پابند ہیں لیکن افسوس در افسوس دیندار طبقہ بھی ان آداب سے محروم نظر آتا ہے۔
سوم: خدارا ضیاء الرحمن کی شہادت کے حوالے سے اپنی من مانی قیاس آرائیاں نہ کریں کہ وہ اس وجہ سے شہید ہوئے یا اس وجہ سے شہید ہوئے کوئی تین سال پرانی دفاع صحابہ ریلی پر کی گئی تقریر کے ساتھ اس کی شہادت کو جوڑ رہا کوئی دو دن قبل جامعہ ستاریہ میں کی گئی تقریر کے ساتھ جوڑ رہا ہے اور پتا نہیں کیا کیا قیاس آرائیاں۔۔۔۔۔ ہم سب ذہنی طور پر بہت زرخیز ہیں اوپر سے لے کر نیچے تک کوئی ڈکیتی بنا رہا ہے کوئی موبائل چھیننے کی واردات بیان کر رہا ہے تو کوئی را کا کارنامہ بیان کر رہا ہے تو کوئی فرقہ وارانہ بنیاد پر۔۔۔۔ الغرض جتنے منہ اتنی باتیں۔
میں پوری ذمہ داری کے ساتھ یہ التماس پیش کرنا چاہتا ہوں کہ خدارا ہمارا دین قیاس آرائیاں کرنے اور تکے لگانے سے منع کرتا ہے ابھی تک قتل کے محرکات واضح نہیں ہوئے، جامعہ کی انتظامی کمیٹی تحقیقاتی اداروں کے ساتھ مکمل رابطے میں ہے ابھی تک صورت حال غیر واضح ہے۔
چہارم: اپنے تحقیقاتی اداروں جیسے پولیس اور دیگر اداروں کی بھرپور دل چسپی اور اس حوالے سے اٹھائے گئے اقدامات سے مجھ سمیت جامعہ کی انتظامیہ مکمل طور پر مطمئن ہیں۔
پنجم: ہم سب وطن عزیز میں عدل و انصاف کی صورت حال سے بخوبی واقف ہیں لہذا زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے میں یہ کہنا چاہتا ہوں سوشل میڈیا پر جج پولیس بننے کی کوششوں سے اجتناب کریں۔
ششم: بے شمار احباب جو لازمی بات ہے مخلص ہیں ضیاء الرحمن رحمہ اللہ کے چاہنے والے ہیں انہوں نے قاتل کی گرفتاری تک بھرپور احتجاج کا مشورہ دیا گورنر ہاؤس کا گھیراؤ کریں شاہراہ فیصل بند کر دیں وغیرہ وغیرہ
تو عرض ہے کہ ہمارے مسلک کا نمائندہ موقف یہی ہے کہ کسی کی موت فوت پر یا کسی بھی ظلم پر لوگوں کو تکلیف یا اذیت کا سبب نہ بنیں یہ رویے ہماری سوچ کے مطابق غیر شرعی ہیں کہ جنازے اٹھا کر سڑکوں پر بیٹھ جائیں یہ تو بذات خود شرعی تعلیمات کی مخالفت کے ساتھ ساتھ میت کی بھی توہین اور بے حرمتی ہے۔
ہفتم: انتظامیہ تک اپنی آواز پہنچانے کے حوالے سے بھرپور پریس کانفرنس کی گئی جسے میڈیا نے بھرپور کوریج کے ساتھ پیش کیا اور پولیس کی اعلی سطحی تشکیل کردہ کمیٹی بھرپور کام کر رہی ہے، سوشل میڈیا پر مثبت انداز میں آواز بلند کی اور احباب مسلسل یہ کام کر رہے ہیں کر رہے ہیں الحمدللہ۔
ہشتم: سب سے پہلے کسی کی موت و شہادت پر شرعی رد عمل سمجھنا چاہیے اور سب سے پہلا رد عمل صبر اور اللہ کے فیصلے پر راضی ہونا ہے کوئی شک نہیں کہ لیاقت علی خان سے بے نظیر تک کے قتل کیسز جو بین الاقوامی توجہ کا مرکز ٹھہرے کچھ نہ ہوا تو دنیاوی اعتبار سے ضیاء الرحمن رحمہ اللہ ان سے بڑا نہ تھا۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ صبر کے ساتھ اللہ کے فیصلے پر راضی ہوں اور اللہ سے بھرپور مدد مانگیں۔
نہم: یہ دعا کریں کہ ضیاء الرحمن رحمہ اللہ کے قاتلین کے مقدر میں اگر اللہ نے ہدایت لکھی ہوئی ہے تو اللہ انہیں ہدایت دے وگرنہ انہیں دنیا میں ہی عبرت کا نشان بنا دے۔ اور ان شاء اللہ ایسا ہو گا مجھے یقین ہے۔ کسی کی مظلومانہ جان لینے والا سکون سے نہیں رہ سکتا۔
دہم: جامعہ کی انتظامیہ سے ہٹ کر کسی کے ردعمل یا موقف سے ہمارا کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی ہم اس کے زمہ دار ہیں یہاں تک کہ جامعہ کے طلباء یا اساتذہ بھی ذاتی طور پر کچھ کہتے ہیں تو اس کی زمہ داری جامعہ پر نہ ہو گی۔
اور آخر میں تمام مشائخ و احباب جو اس آزمائش میں ہمارے ساتھ تھے ہمیں حوصلہ دیتے رہے یقین کریں ہمیں تنہائی محسوس نہیں ہوئی یہاں میں سب کے نام نہیں لکھ سکتا کہ اعلی سطحی حکومتی شخصیات کے رابطے اور سب سے بڑھ کر علماء کی بھرپور سپورٹ سب پر یہی دعا کرتے ہیں کہ اللہ آپ کو جزائے خیر دے کہ آپ سب نے ہمارے دکھ کو اپنا دکھ سمجھا۔ یہ دعا کیجیے کہ اللہ ہمیں صبر کی توفیق عطا کرے اور ضیاء الرحمن رحمہ اللہ کا بہترین جانشین عطا کرے۔

انا للہ وانا الیہ راجعون، اللھم اجرنا فی مصیبتنا و اخلف لنا خیرا منھا ۔

یہ دعا کثرت سے کریں یقین ہے ایمان ہے کہ اللہ ہمارے ساتھ تھا ابھی بھی ہے اور ہمیشہ رہے گا اور وہ بہترین اسباب پیدا کرنے والا ہے۔

فیض الابرار صدیقی