سوال (1950)

ایک عورت کا خاوند فوت ہوگیا ہے، اس کا ذاتی مکان بھی کوئی نہیں تھا، وہاں اس کا کوئی محرم رشتہ بھی نہیں ہے، وہ کسی دوسرے مکان میں اپنے محرم رشتوں کی موجودگی میں عدت پوری کر سکتی ہے؟

جواب

بحالت مجبوری “متوفی عنھا زوجھا” عدت گزارنے کے لیے وہاں منتقل ہو سکتی ہے، جہاں اس کی عزت، مال اور نان نفقہ اس کو میسر ہو، جیسا کہ اوپر سوال میں لکھا گیا ہے، اگر واقعتاً اس کو مجبوری ہے تو وہاں منتقل ہو سکتی ہے، جہاں اس کو سہولت ہو۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

سائل:
اس حوالہ سے مطلقہ اور متوفی عنھا زوجھا کا فرق نہیں ہے ؟ یعنی متوفی عنھا زوجھا کے نسبتاً مطلقہ کے لیے رخصت زیادہ ہے؟
جواب:
مطلقہ کے حوالے سے ایسی کوئی پابندی ملتی نہیں ہے، البتہ فتویٰ متوفی عنھا زوجھا کو دیکھتے ہوئے اسی پر دیا جاتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کے حوالے سے اس قدر سختیاں دیکھنے میں نہیں آتی ہیں۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

سائل:
آخر الذکر کے لیے بوقت مجبوری گھر سے نکلنا تو ٹھیک ہے البتہ رات اپنے گھر میں ہی گزارے گی “کما افتى به الصحابة” کیا ایسا نہیں ہے؟
جواب:
یہ مسئلہ ایک الگ چیز ہے، اس کو مستقل اپنے ایمان ، عزت اور نان نفقہ کا معاملہ ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عورت کو حکم دیا کہ آپ جا کر سیدنا عبداللہ بن ام مکتوم کے گھر میں عدت گزارو وہاں آپ کو آسانی ہوگی۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

سائل:
وہ تو متوفی عنھا زوجھا نہیں تھیں بلکہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنھا مطلقہ تھیں؟
جواب:
میں نے عرض کیا ہے کہ ان دونوں کے احکامات میں ایک دوسرے پر قیاس کرکے فتویٰ دیا جاتا ہے، یہ ایک قاعدہ بھی ہے کہ مجبوری کے احکامات الگ ہوتے ہیں۔

“الضرورات تبيح المحظورات”

“ضروریات(اضطرارات) ممنوع چیزوں کو مباح بنادیتی ہیں”
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

“فَمَنِ اضۡطُرَّ غَيۡرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَلَاۤ اِثۡمَ عَلَيۡهِ‌ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ” [سورة البقرة : 173]

«پھر جو مجبور کر دیا جائے، اس حال میں کہ نہ بغاوت کرنے والا ہو اور نہ حد سے گزرنے والا تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔ بے شک اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے»
ان تمام باتوں کو ملحوظ خاطر رکھ کر اس کو اجازت ملے گی۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ