آج ایک بار پھر سوشل میڈیا پر مسجد کے امام کی تنخواہ زیر بحث ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ اس غریب کو پیسہ مسجد کمیٹی دیتی ہے اور نہ ہی مدرسہ کا مہتمم۔ باری جب مقتدیوں کی آتی ہے تو حاتم طائی یہ بھی نہیں ہیں۔ یہ فیس بک پر مسجد کے آئمہ کے سلسلے میں پوسٹیں کرنے والے جتنے بھی لوگ ہیں ان سب کو چاہیے کہ آج سے ہی مسجد کے فنڈ میں ماہانہ ایک ایک ہزار روپے دینا شروع کریں اور پھر مسجد انتظامیہ سے امام مؤذن وغیرہ کی تنخواہیں بڑھانے کا کہہ دیں، پھر دیکھیں کہ یہ تنخواہیں بڑھتی ہیں یا نہیں۔ لیکن ان لوگوں کا حال یہ ہے کہ یہ اپنے بچوں کے نکاح کے وقت اپنے امام کو ٹھیک سے فیس بھی نہیں دیتے، تنخواہ کیسے دیں گے۔ ان کا خیال ہے مولوی کا پیٹ “واللہ خیر الرازقین” کی تسبیح پڑھنے سے بھرتا ہے۔
یہ ایک ایسا تلخ موضوع ہے جس پر جتنا لکھا جائے کم ہے اور کبھی لگتا ہے کہ بےکار بھی ہے کیونکہ کسی پر اثر نہیں ہوتا۔ حقیقت ہے کہ اس سماج میں مولویوں کے ساتھ لوگوں کا رویہ اچھا نہیں ہے۔ یہ اپنے امام کا ادب بےانتہاء کرتے ہیں لیکن افسوس یہ ہے کہ صرف ادب ہی کرتے ہیں۔ امام اگر مسجد کی تعمیر کے لیے چندے کی اپیل کرے تو لوگ تعاون کرتے ہیں لیکن اگر امام مؤذن کے گھروں کی تعمیر کے لیے منبر سے اعلان ہو تو کوئی پاس سے نہیں گزرتا۔ نکاح پڑھوائیں گے تو فیس پوچھنے کے بعد بڑی ڈھٹائی سے ڈسکاؤنٹ بھی مانگ لیں گے۔ ان کی جیب سے پیسہ تھانے والا نکلوا سکتا ہے یا پھر ہسپتال کا ڈاکٹر۔ ایسوں پر خدا کسی نا کسی کو تو مسلط رکھتا ہی ہے۔
ان ساری چیزوں کو برداشت کر کرکے اب ہم نے اپنے اصول بدل ڈالے ہیں۔ خود کو محدود کردیا ہے۔ بہت سی چیزوں میں لحاظ اور مروت کے لفظوں سے بھی خود کو ناآشنا کردیا ہے۔ ناقدروں سے رشتہ پالنا بھی برا ہے۔ آج ایک جگہ نکاح پڑھانے جا رہا ہوں۔ دولہا کو جب فیس بتائی تو ڈسکاؤنٹ کے لیے اب تک دو جگہوں سے فون کراچکا ہے۔ آج جنہوں نے فون کیا تو ان سے سیدھا سیدھا عرض کردیا کہ “اپنے قریب سے امام صاحب کو بلالیجیے وہ سستے میں پڑھا دیں گے”
“نہیں آپ سے ہی پڑھوانا ہے”
“تو پھر ڈسکاؤنٹ کی بات مت کریں”
یہ میں نے آپ کو ایک واقعہ سنایا ہے، اس طرح کے بیسیوں واقعات ہیں جو لکھنے بیٹھوں تو اس سماج کا اصل رویہ آپ کے سامنے ہوگا۔
تو اے مولویان کرام!
اپنے ذرائع آمدن بڑھائیں اور شخصیت و کردار میں نمونہ بن جائیے۔ واللہ مخلوق سے بےنیاز انسان کبھی رسوا نہیں ہوا کرتا۔ ان لوگوں سے تنخواہیں مانگتے مانگتے آپ کی زبان سوکھ جائے گی لیکن ان پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔ اس کے بعد معاشرہ آپ کی قدر بھی کرے گا۔

محمد اسحاق عالم