“معاشرے میں گمراہ کن دعاۃ کے برے اثرات”

آج کل کثیر تعداد میں لوگ دین حنیف کے نام پہ لوگوں کو گمراہی اور ضلالت کی طرف بلا رہے ہیں، بعض لوگ ایسے بھی ہیں، جو کتاب و سنت کا لیبل لگا کر لوگوں کو بدعات کی طرف دھکیل رہے ہیں، ایسے لوگ بڑے بدبخت ہیں، جو اپنے فرقے کی وجہ سے دین حنیف کا چہرہ مسخ کرنا چاہتے ہیں، ان میں سے بعض ایسے ہیں، جو شہرت کے بھوکے ہیں، بعض تو عوام کو لوٹنا چاہتے ہیں، حیرت کی بات تو یہ ہے کہ کسی نے تقلید کا راستہ چنا تو کسی نے احادیث کو رد کرنے کے لیے تاویلات کا سہارا لیا، کسی کو تحریف قرآن کا راستہ سوجھا، تو کوئی صحابہ کا دشمن نکلا، ابو بکر و عمر پر تبرا کرنے کو ثواب سمجھا، منبر و محراب پر اصحاب رسول کو مرتد کہا، کچھ ایسے بھی نکلے جنہوں نے اہل بیت سے دشمنی لی، مزے کی بات تو یہ ہے کہ ہر کسی کا دعویٰ ہے کہ ہم حق پر ہیں، پھر دیکھا جائے کہ عوام میں کئی قسم کے لوگ ہیں، کچھ تو بالکل سیدھے سادے ہیں جو شریعت کے الف و ب سے بھی واقف نہیں ہیں، کچھ واہ واہ اور نعروں پر خوش ہیں، بعض آباؤ اجداد کی تقلید میں ڈوبے ہوئے ہیں، کچھ ان گمراہ کن دعاۃ کی ہر بات کو حرف آخر سمجھنے والے ہیں، کچھ تو دنیاداری میں ایسے ڈوبے ہوئے ہیں کہ ان کو حق پرکھنے کے لیے ٹائیم ہی نہیں ملتا، ان کے نزدیک دنیا و جہاں میں ہر کوئی صحیح ہے، کچھ اپنے آپ کو پڑھے لکھے سمجھنے والے ان دعاۃ سے متاثر ہیں، جو دس بارہ کیمروں کے سامنے احادیث کو رد کرنا جانتا ہو، دین کے احکام تبدیل کرنا جانتا ہو، کچھ تو سہولت کار بنے بیٹھے ہوئے ہیں، جو ان کے حق میں بات آئی تو وہ درست ہے، باقی سب غلط ہیں، یوں یہ معاشرہ ضلالت کی گہرائیوں میں جا گرا، شرک، بدعت، نفرت صحابہ و اہل بیت لوگوں کی دلوں سرائیت کر گئی ہیں، زمانہ تو وہ چل رہا ہے کہ مشرک اپنے آپ کو متقی سمجھتا ہے، بدعتی کا دعویٰ ہے کہ میرے جیسا کوئی متبع سنت نہیں، حال تو یہ ہے کہ نفرت صحابہ پر لوگوں کو اکسانے والا بھی اپنے آپ کو مفکر و مجدد گردانتا ہے۔
پھر ان گمراہیوں کو مزید وسعت دینے کے لیے سوشل میڈیا کا سہارا لیا گیا، ہائے افسوس کیا بات کریں، ہر کس و ناکس نے دین میں رائے دینا شروع کر دیا، سوشل میڈیا کے ذریعے بڑی تعداد میں مفتی بنے، جو ہر مسئلے میں اپنا موقف رکھنا حق سمجھتے ہیں، ان کی عجیب و غریب باتوں کی وجہ سے ان کے لا تعداد فالوورز بنے، یوں گمراہ کن دعاۃ کو عروج ملا۔
دیکھیں ہر انسان کے پاس عقل و شعور ہونے کے باوجود کوئی حق کو تلاش کرنے کے لیے تیار نہیں، قرآن مجید کا صحیح فہم حاصل کرنے کے لیے کوئی آمادہ نہیں، سنت کو اپنانے کے لیے کسی کے دل میں خیال تک نہیں، صحابہ و اسلاف کے فہم کو کوئی اپنانے لیے تیار نہیں، خیر کوئی خود تو محنت نہیں کرتا، اپنے آپ کو عامی سمجھتا ہے، لیکن ان تمام باتوں کے لیے علماء ربانیین کے پاس آنے کے لیے بھی کسی کے پاس ہمت نہیں۔
یاد رکھیں یہ دور فتنہ پرور لوگوں کا ہے، یہاں ہر کسی نے اپنی جال بچھائی ہوئی ہے، اس لیے آنکھیں کھولنے کی ضرورت ہے، آنکھیں بند کرکے اندھا دہند کسی کے پیچھے چلنا نہیں، اس دنیا میں یہ پرکھنے کی اشد ضرورت ہے کہ کونسے دعاۃ قرآن و سنت کے داعی ہیں، علماء ربانیین کون ہیں، کہاں ہیں، ان کی پہچان کیسے ہوگی، اس بات کے پیچھے دن رات محنت کرنی ہے، ان کی پہچان کے بعد ان کو تھامنے کی ضرورت ہے، ان سے ہی قرآن و سنت کو سمجھنا چاہیے، اگر ایسا ہوا تو یہ گمراہیاں مٹ سکتی ہیں، دوبارہ قرآن و سنت کا ماحول بن سکتا ہے۔
بس اس بات کو لیے ہر کوئی یہ سوچے کہ میں کہاں کھڑا ہوں، میرے عقائد و نظریات کیا ہیں، کیا میں متبع سنت ہوں، کیا میرا دل صحابہ کے لیے صاف ہے، کیا صحابہ و اہل بیت کی محبت میرے دل میں ہے، کیا کہیں میں اسلاف کے راستے سے ہٹ تو نہیں گیا، اپنے آپ سے ان تمام سوالات کرنے کے بعد اگر کوئی معاملہ ہے تو اس کو صحیح سمت میں لانے کی ضرورت ہے۔ جب ہر کوئی اپنی اصلاح کرنے کی کوشش کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کو راہ راست میں لائے گا، اللہ تعالیٰ کسی کی کوشش و کاوش رائیگاں نہیں کرتا ہے، بس جس طرح دنیاداری کے لیے محنت کرتے ہیں، اسی طرح اپنی اصلاح کے لیے بھی محنت کریں۔ ضرور اللہ تعالیٰ ہر کسی کو ہدایت دے گا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں گمراہیوں سے محفوظ کرکے ہدایت کا ذریعہ بنائے۔ آمین یا رب العالمین

تحریر: افضل ظہیر جمالی

یہ بھی پڑھیں: کامیابی کے قرآنی چند اصول