معاشرے اور الحاد اور ملحد سے مکالمہ
(نوجوان علماء کیلیے گائیڈ لائن)
نحمده و نصلي على رسوله الكريم أما بعد
فأعوذ بالله من الشيطان الرجيم،
تعارف:
ہم مشرق میں ہیں اور مشرق ہمیشہ سے مذاہب کی جنم بھومی رہا ہے، دنیا کے تمام بڑے مذاہب کی پیدائش مشرق میں ہوئی اور پھر وہ مشرق سے بتدریج مغرب کی طرف گئے، دوسری جانب مغرب ہمیشہ سے لامذہبیت کا گڑھ رہا ہے تاریخ بتاتی ہے کہ فلاسفہ قدیم سے لیکر کر جدید الحادی نظریات تک اپنی بنیادیں مغرب میں رکھتے ہیں۔
ہمارے سامنے انتہائی اہم سوال یہ ہے کہ الحاد مشرق کی طرف کس انداز میں آیا اور ایک مذہبی مشرق اور خاص طور پر مشرق کے اسلامی ممالک کو الحاد نے کس طرح متاثر کیا؟
اس بات کا انکار تو ممکن نہیں کہ مغربی الحاد کی جڑیں تحریک تنویر کے دور میں ہیں اور اسی تحریک تنویر کے دور میں استعمار مغرب سے نکل کر مشرق کی طرف آیا درحقیقت استعمار کے ساتھ الحادی افکار و نظریات اور تجدد پسندی کے بیج بھی چلے آئے تھے کہ جو آہستہ آہستہ مشرق کی زمین میں پرو دیے گئے اور آج وہ ہمیں تناور درختوں کی شکل میں ابھرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
مذہب کو بتدریج مشرق سے منقطع کیا گیا یہ تبدیلی اعتقادی دائروں میں سب سے آخر میں آئی اور بات انکار خدا تک جا پہنچی، ابتدائی دور میں معاشروں سے مذہبی علامات کو ختم کیا گیا آہستہ آہستہ امت کا تصور پیچھے ہوا اور قومیت کا تصور آگے آیا، خلافت کو شجر ممنوعہ سمجھ لیا گیا اور ایک مخلوط قوم پرستی جمہوری حکومت کی بات ہوئی کہ جو اپنے مزاج میں سیکولر ہو، اسلام کے ثقافتی مظاہر کو معدوم کرنے کی کوشش ہوئی مغربی لباس اور مغربی تہذیب درآمد کی گئی بہت سے سر اور مسٹر کھڑے کیے گئے اور اسلام کے مابعد الطبیعیاتی تصورات کے انکار کا ڈول ڈالا گیا، اسلامی تہذیب کی جگہ ایک مخلوط تہذیب کو ابھارا گیا رسومات کو اسلام کے مزاج سے ہٹا کر معاشروں میں رائج گیا گیا، اسلامی مصادر کی بابت شکوک پیدا ہوئے مسلمانوں میں سے ہی منکرین حدیث کو سامنے لایا گیا کچھ لوگوں نے اسلام کے شخصیات کو نشانے پر رکھا تو کچھ نے تاریخی، تفسیری، فقہی اور صوفی روایات کی تردید شروع کی تجدد پسندوں کے اس ٹولے کے ساتھ ساتھ مختلف ازم متعارف کروائے گئے ایک طرف آزادی نسواں کی آڑ میں فیمینزم کی بنیاد پڑی دوسری جانب لبرل اقدار کی بات ہوئی اسی کے ساتھ ساتھ ہیومنسٹ اخلاقیات کے ترانے بجنے، اسلامی معیشت کی جگہ کہیں اشتراکیت اور کہیں سرمایہ داریت کی بات ہوئ اسلامی تصوف کے مقابلے میں باطنی تصوف اور وحدت ادیان کی آواز لگی، معاشروں کی ہیت کو تبدیل کیا گیا ، فنون لطیفہ اور ادب کے ذریعے معاشروں میں بے ادبی اور آوارگی کو پروان چڑھایا گیا، مادیت پرستی اس شدت سے ابھری کے مذہبی حلقوں کو بھی لپیٹ لے گئی اور شہوت پسندی نے لوگوں کے انسانی معیار سے گرا کر حیونی معیار پر کھڑا کردیا، سیاسی اشرافیہ نے مذہبی طبقات کو ہمیشہ دیوار سے لگایا اور مذہبی طبقات جمہوری گورکھ دھندوں میں کہیں کھو کر رہ گئے، مولوی کو ٹیبو بنا دیا گیا اور مولی خو مولویت پر شرمندہ ہونے لگا، لباس بدلا، افکار بدلے، کردار بدلا یہاں تک کہ اعتقادی بنیاد تک اپنی جڑوں سے اکھڑنا شروع ہو گئیں۔
ہمارے معاشرے یکدم ہی الحاد کی جانب نہیں گئے بلکہ اس کے پشت پر ایک صدی کی محنت ہے اور ہم آج خواب غفلت سے بیدار ہونے کی کوششوں میں ہیں۔
احباب گرامی! الحاد و دہریت ایک انتہائی حساس موضوع ہے۔ جس طرح کسی بھی میدان میں گفتگو کیلیے اس میدان کے ماہرین و متخصصین درکار ہوتے ہیں اسی طرح الحاد و دہریت پر گفتگو بھی ماہرین کا کام ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ آپ ایک عالم دین ہوں تو آپ کسی ملحد یا دہریے سے گفتگو کی صلاحیت بھی رکھتے ہوں اور یہ بھی ضروری نہیں کہ اگر آپ نے الحاد و دہریت کا مطالعہ کررکھا ہے تو آپ کسی بھی ملحد یا دہریے کے ہر ہر سوال کا جواب دینے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔
آج کے مضمون میں ہم اس بات کی کوشش کریں گے کہ اگر آپ کے سامنے کوئی الحاد و دہریت کا مریض آجائے تو اس سے کس انداز میں مکالمہ کیا جائے لیکن اس سے پہلے اس بات کا سمجھ لینا بھی ضروری ہے کہ ملحد اور دہریہ کہتے کسے ہیں۔
بنیادی سطح پر اسے چار درجات میں تقسیم کیا جا سکتا ہے دو درجات الحاد سے پہلے کے ہیں اور ایک الحاد کے بعد کا ہے۔
1۔ تجدد پسند۔
2۔ متشکک۔
3۔ ملحد۔
3۔ دہریے۔
تجدد پسند: وہ گروہ یا جماعت ہے کہ جو اسلام کے اعتقادی یا کلامی مسائل یا پھر فقہی اور شرعی مسائل کے حوالے سے جمہور امت سے الگ راہ اختیار کرے اور بہت سے مسلمہ معاملات کو رد کردے یعنی عذاب قبر کا انکار، پردے کا انکار، نزول مسیح علیہ السلام کا انکار، بہت سی مستند احادیث کا درایت کے نام پر انکار وغیرہ۔ یا پھر اصحاب رسول رض یا اہل بیت اطہار علیہم السلام کے بابت نادرست رویہ بھی تجدد پسندوں کی علامت ہے یا پھر سائنس پرستوں کا وہ طبقہ کہ جو جدید سائنس کی روشنی میں دینی تعبیرات کی بے جا تاویل کرے یا پھر انہیں ان کی اصل سے ہٹائے۔
متشکک: متشکک کی اصطلاح ہم اپنے معاشرے کے تناظر میں استعمال کررہے ہیں درحقیقت متشکک وہ ہے کہ جو خدا یا مذہب کے حوالے سے تمام تر مباحث سے لاتعلقی ظاہر کرے اور اس حوالے سے کوئی بھی ایک واضح پوزیشن لینے سے انکار کردے لیکن ہمارے یہاں متشکک وہ ہوگا کہ جو دین کے مسلمات کی بابت تشکیک کا شکار ہوجائے اور اس کے ذہن میں اشکالات پیدا ہو جائیں۔
ملحد: وہ ہے کہ ضروریات دین یا دین کے بنیادی عنوانات میں سے کسی کا منکر ہو، ہم ملحد اور دہریے میں فرق کرتے ہیں ہماری نگاہ میں ہر وہ شخص کہ جو حجیت حدیث کا منکر ہو، معجزات کا منکر ہو یا دین کے دیگر مابعد الطبیعیاتی معاملات یعنی جنت و جہنم یا فرشتوں کے وجود کا منکر ہو اسی طرح خلافت راشدہ کا انکار کرے یا پھر خود کو ہیومنسٹ، لبرل ، سیکولر، فیمینسٹ، سوشلسٹ یا کسی بھی ازم سے نظریاتی یا فکری طور پر منسلک کرے ملحدوں کی قبیل میں شمار ہو سکتا ہے۔
دہریہ: دہریہ یا زمانہ پرست یا پھر سائنس پرست وہ ہے کہ جو مذہب کا یا خدا کا سرے سے انکار کردے اور کسی بھی تصور مذہب یا تصور خدا کو تسلیم نہ کرے۔
تنبیہ: یاد رہے کہ الحاد و دہریت سے مکالمہ انتہائی صبر آزما کام ہے اس کیلیے قوت برداشت اور وسعت مطالعہ دونوں ہی بہت ضروری ہیں اس کے ساتھ ساتھ انسانی نفسیات سے آگاہی بھی ایک اہم وصف ہے اور کسی بھی فرد کی روحانی کیفیات کو سمجھنے کی صلاحیت بھی موجود ہونی چاہیے۔
تو آئیے اب ہم جائزہ لیتے ہیں کہ اس حوالے سے ایک عالم ابتدائی قدم کون سے اٹھائے گا۔
پہلا قدم: جو شخص آپ سے مکالمے کیلیے آیا ہے اس کی نفسیاتی یا روحانی کیفیت کا تعین کیجیے۔
یہ ضروری نہیں کہ جو شخص آپ کے پاس آیا ہے وہ علمی فکری حوالے سے کسی خرابی یا شکار ہوا ہو یہ بھی ممکن ہے کہ اس کے ساتھ کوئی روحانی مسئلہ ہو۔ یاد رہے کہ بعض اوقات روحانی یا نفیساتی مسائل بھی اشکالات اور اس کے بعد الحاد و دہریت میں مبتلاء کر دیتے ہیں اس کی چند وجوہات ہم درج ذیل میں لکھ دیتے ہیں۔
1۔ جان و مال کا نقصان یا کوئی غم۔
2۔ کسی انتہائی اہم خواہش کا پورا نہ ہونا۔
3۔ معاشرتی رویوں کا رد عمل۔
4۔ مادیت پرستی یا دنیا پرستی کی زیادتی۔
5۔ جنسی و نفسانی مسائل۔
6۔ صحبت بد۔
7۔ پورنو گرافی میں مبتلاء ہو جانا۔
8۔ شدید ترین وساوس کا شکار ہونا۔
9۔ مزاج میں بے ادبی کی وجہ سے ایمان کا نکل جانا۔
بے ادبی دینی شخصیات کے حوالے سے بھی ہو سکتی ہے اور دین کے شعائر کی بابت بھی عام طور پر یہ معاملہ دین سے منسلک افراد یا علامات کا مذاق اڑانے سے شروع ہوتا ہے اسی طرح بزرگوں اور والدین کی بے توقیری بھی اس کا سبب ہو سکتی ہے۔
10۔ بعض اوقات کسی پر ظلم یا کسی کا حق مارنے یا کسی کی بدعا کی وجہ سے انسان الحاد کا شکار ہو جاتا ہے۔
11۔ مال حرام بھی بعض اوقات انسان کو الحاد میں مبتلاء کردیتا ہے۔
12۔ گستاخانہ یا الحادی مواد کا بہت زیادہ دیکھنا بھی اس کی ایک وجہ ہو سکتی ہے۔
اس طبقے کا علاج:
اس طبقے کا علاج یہ ہے کہ اس کی اصلاح احوال کی جائے اس کو معاملات کی درستی کی تلقین کی جائے اس کا تعلق علماء، مشائخ اور دعوتی جماعتوں سے جوڑا جائے، ممکن ہو تو ان کی تالیف قلب کی جائے، انہیں مساجد و خانقاہوں سے ربط پیدا کرنے کی طرف راغب کیا جائے اسی طرح ذکر و دعا سے بھی ان کا علاج کیا جائے۔
یاد رہے کہ یہ طبقہ آپ کے رویے اور اچھی صحبت کی وجہ سے دین کی طرف واپس آ سکتا ہے خدا را! ایسے لوگوں کے ساتھ صبر و برداشت کا مظاہرہ کیجیے کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کی مس ہینڈلنگ کی وجہ سے یہ گروہ مستقل طور پر الحاد و دہریت کی وادی کا مقیم ہو جائے۔
دوسرا قدم: سب سے پہلے جو شخص آپ کے پاس اشکالات یا اعتراضات لیکر کر آیا ہے یا پھر نوجوانوں کی کسی جماعت سے آپ کو مکالمے کا موقع ملا ہے تو اس بات کا تعین کیجیے کہ وہ شخص یا جماعت اوپر بیان کی گئی اقسام میں سے کس سے منسلک ہے یعنی تجدد پسند ہے، متشکک ہے، ملحد ہے یا پھر دہریہ۔
اب گفتگو کا تعین کیجیے کیونکہ اس طبقے نے کسی نہ کسی درجے میں مطالعہ کر رکھا ہوتا ہے یا پھر اس کی مخصوص حوالوں سے ذہن سازی ہو چکی ہوتی ہے۔
یار رہے کہ یہ طبقہ کسی گمراہ شخص، جماعت، گروہ، کسی سٹڈی سرکل، سوشل میڈیا کے کسی گروپ، فلسفے یا ادب کے نام پر کسی حلقے سے منسلک ملے گا۔
کرنے کا کام: اب جب کہ آپ نے اس بات کا تعین کرلیا کہ یہ طبقہ متجدد ہے، متشکک ہے، ملحد ہے یا پھر دہریہ ہے تو اس کے اشکالات کا جائزہ لیجیے۔
لیکن اس سے پہلے: اس سے پہلے یہ ضروری ہے کہ آپ کو قرآن و سنت کا مضبوط علم ہو، آپ اسلامی تاریخ سے کماحقہ واقفیت رکھتے ہوں، علم الکلام کے اہم مباحث آپ کو یاد ہوں ، منطق و فلسفے کا کسی نہ کسی درجے میں درسی مطالعہ ہو اور جدید فلسفے کے اہم مباحث کی جانکاری ہو۔
کون کس سے گفتگو کرے گا؟
اگر آپ کے سامنے وہ طبقہ ہے کہ جسے آیات قرآنی کے حوالے سے اعتراضات ہیں یا قرآنی عربی کے حوالے سے یا پھر قرآن میں موجود واقعات و علامات کے حوالے سے اشکالات ہیں تو اسے کسی ایسے ماہر قرآن کے حوالے کیجیے کہ جو قرآن کی تفسیر و تاریخ اور شان نزول اور آیات کے صحیح مفہوم پر عبور رکھتا ہو۔
اگر آپ کے سامنے موجود شخص حجیت حدیث کا منکر ہو تو احادیث مبارکہ کی جمع و تدوین انکی تاریخ انکی درست تفسیر و تاویل کے حوالے سے علم رکھنے والے اور مستشرقین کے حوالے سے معلومات رکھنے والے کسی ماہر کی جانب ریفر کیجیے۔
اگر سوال کرنے والا اسلام کے فقہی مسائل کی بابت اشکالات رکھتا ہے جیسے نکاح و طلاق کے مسائل، تعدد ازواج، مسئلہ غلامی یا دیگر عنوانات تو اسے فقہ کے کسی ماہر کے حوالے کیجیے۔
اگر اشکالات شخصیات اور تاریخی واقعات کے حوالے سے ہیں تو اسی شعبے کے کسی ماہر کو ریفر کیجیے۔
اگر ایسا شخص اخلاقی، سیاسی، معاشی، معاشرتی حوالوں سے اشکالات رکھتا ہے تو اسلامی نظام حیات کے کسی ماہر کی جانب ریفر کیجیے کہ جو ان مخصوص شعبہ جات کا ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی بابت مغربی نظریات سے بھی واقفیت رکھتا ہو۔
آخری گروہ یعنی دہریے: یہ انتہائی حساس ترین معاملہ ہے براہ راست خدا کے وجود یا پھر سرے سے مذہب کے وجود کا انکار کرنے والے چند مخصوص لوگ ہی ہوں گے تو ان سے نمٹنے کیلیے علم الکلام قدیم و جدید کے ماہرین درکار ہیں کہ جو ان مخصوص عنوانات پر مہارت رکھتے ہوں۔
اختتامیہ: یاد رہے کہ یہ کام ناصرف روحانی اعتبار سے مضبوط لوگوں کا ہے بلکہ ماہرین کا ہے ہمیں اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ ایک گروہ یا جماعت خود کو اس کام کیلیے وقف کرے اور ہمہ وقت اس میں منہمک رہے ہمارے مدارس اور دارالافتاؤں میں اس کے الگ سے شعبہ جات ہوں کہ جو ایسے لوگوں سے ڈٰیل کریں۔
امید ہے کہ ہماری یہ تحریر الحاد و دہریت سے گفتگو کے حوالے سے نوجوان علماء کیلیے مشعل راہ ثابت ہوگی۔
وَآخِرُ دَعْوَاهُمْ أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ
آمین ثم آمین
ڈاکٹر حسیب احمد خان