سوال (1130)

ہمارے ہاں دو غلط باتیں بہت عام ہے .
(1) : بری عورتیں برے مردوں کے لیے اور برے مرد بری عورتوں کے لئے ہیں۔
(2) : زنا ایک قرض ہے جو آپ کو گھر سے چکانا پڑے گا خاص کر بیٹی کی صورت میں۔
ہمارے ہاں “سورہ نور” کی آیت نمبر 26 کا ترجمہ سراسر غلط لیا جاتا ہے۔
ترجمہ: بدکار عورتیں بدکار مردوں کیلئے ہیں اور بدکار مرد بدکار عورتوں کے لئے۔
ایک بات یاد رکھیں:
قرآن مجید کی کسی بھی آیت کی تفسیر اس کے سیاق و سباق کے بغیر نہیں کی جاسکتی۔
او ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمیں آدھا سچ بتانے کی عادت ہے۔
اگر “سورہ نور” کی آیت کے آگے پیچھے کی آیت کو پڑھا جائے تو صاف پتا چلتا ہے کہ یہاں پر آخرت کی بات ہو رہی ہے نہ کہ دنیا کی۔
آخرت میں بری عورتیں برے مردوں کے ساتھ جہنم میں ہونگی اور اچھی عورتیں اچھے مردوں کے ساتھ جنت میں۔
اگر دنیا کی بات کریں تو دنیا میں “فرعون” کی بیوی مسلمان تھی اور “نوح علیہ السلام” کی بیوی کافر تھی۔
لہذا اس آیت کا ترجمہ ٹھیک سے سمجھ لیں کہ یہاں آخرت کا ذکر ہو رہا ہے نہ کہ دنیا کا۔
اور دوسری بات کوئی کسی کے گناہ کا بوجھ نہیں اٹھائے گا ، ہر کوئی اپنے کیے کا خود زمہ دار ہے۔
اہل علم اس متعلق رہنمائی فرمائیں ۔

جواب

“اَلۡخَبِيۡثٰتُ لِلۡخَبِيۡثِيۡنَ وَالۡخَبِيۡثُوۡنَ لِلۡخَبِيۡثٰتِ‌ۚ وَالطَّيِّبٰتُ لِلطَّيِّبِيۡنَ وَالطَّيِّبُوۡنَ لِلطَّيِّبٰتِ‌ۚ اُولٰٓئِكَ مُبَرَّءُوۡنَ مِمَّا يَقُوۡلُوۡنَ‌ؕ لَهُمۡ مَّغۡفِرَةٌ وَّرِزۡقٌ كَرِيۡمٌ” [سورة النور : 26]

اس آیت کا ہمارے ہاں بہت غلط مفہوم لیا جاتا ہے ، وہ یہ کہ شریعت نے ہمیں بیٹی یا بیٹے کے نکاح کے لیے جو معیار ہمیں عطا فرمایا ہے ، اس کا ہماری اکثریت کو پتا نہیں ہے ، خاص طور پر عوام الناس کو پتا نہیں ہے ، ہم اس کو قسمت کے کھاتے میں ڈال کر بری الذمہ ہوجاتے ہیں ، سوال یہ ہے کہ شریعت اسلامیہ نے بیٹی یا بیٹے کے نکاح کے لیے کوئی معیار مقرر کیا ہے ، دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر معیار مقرر کیا ہے تو ہم نے کبھی اس معیار کو مد نظر رکھا ہے ، ہمارے ننانوے فیصد نکاحوں کی بنیاد مالداری اور دنیاداری ہے ، جب اللہ تعالیٰ کے ڈر کو نظرانداز کرکے بیٹی یا بیٹا کا نکاح کردیا جائے گا تو لازمی طور پر خرابیاں پیدا ہونگی ، جب خرابیاں پیدا ہونگی تو پھر ہم اس قسم کے سہارے ڈھونڈتے ہیں ، آیت مبارکہ اور احادیث مبارکہ کی ، پھر قسمت کو الزام دیتے ہیں ، جبکہ اس میں ہمارا اپنا قصور ہوتا ہے ، ہم نے شریعت کے معیار کو نظرانداز کردیا ہے ، انتہائی معذرت کے ساتھ میں نے بڑے بڑے دیندار گھرانوں کو دیکھا ہے کہ وہاں پر بھی جب بچوں کی شادی کی باری آتی ہے تو دین کو ذرہ برابر بھی مد نظر نہیں رکھا جاتا ہے ، بلکہ صرف اور صرف دنیاوی معیار سامنے رکھ کر شادی کردی جاتی ہے ، اس کے بعد اس قسم کے دلائل کا سہارا لیا جاتا ہے۔

فضیلۃ العالم عبدالرزاق زاہد حفظہ اللہ