ابھی ایک جگہ ایک تحریر پڑھنے کو ملی کہ:
(جو لوگ ہر وقت فحاشی عریانی، مال و دولت میں حرام وحلال اور کھیل کود کے حوالے سے گفتگو کرتے ہیں.. در حقیقت وہ خود ان چیزوں کے حوالے سے محرومیوں کا شکار رہے ہوتے ہیں!)
گویا اگر کوئی درست بات کرے، تو آگے سے اسے کسی محرومی یا کسی نفسیاتی کمزوری کا طعنہ دیں!
اس فلسفے کے لحاظ سے انکارِ منکر کا کیا مطلب رہ جاتا ہے؟
حسن نثار ٹی وی شوز میں کہا کرتا تھا کہ یہ مولوی جو فحاشی و عریانی کے خلاف بولتے ہیں یہ خود عورتوں کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتے ہیں… گویا کسی مولوی کا کسی خاتون کو ہوس کی نگاہ سے دیکھنا یہ فحاشی و عریانی کے درست ہونے کی دلیل ہے!
کیا یہ بذات خود ایک نفسیاتی بیماری نہیں کہ ہم اچھی چیزوں سے برائی اور برائیوں میں سے اچھائی کشید کریں؟!
کوئی اچھا آدمی ایک دوسرے اچھے آدمی کو اس بات پر تنبیہ کر سکتا ہے کہ آپ جو اچھا کام کر رہے ہیں اس میں فلاں پہلو سے خرابی موجود ہے، لیکن کسی برے آدمی کو برائی سے روکا جائے تو یہ مناسب نہیں کہ وہ برائی سے رکنے کی بجائے نصیحت کرنے والے میں خامیاں نکالنا شروع کر دے!
اور صورتِ حال یوں بنا دی جائے کہ جو برائیوں سے روکنے والے ہیں در اصل ان کے ذہن گندے ہیں، اور جو برائیوں کے اندر لتھڑے ہوئے ہیں وہ صاف ذہنوں کے مالک ہیں!
سیدھی سادھی بات ہے کہ اگر کوئی اچھے کام کرنے کی طرف توجہ دلائے یا برائی سے روکے تو اس کی بات کو ماننا چاہیے، اگر نہیں مان سکتے تو یہ ہماری اپنی کمزوری ہے… اس کمزوری کو ڈھانپنے کے لیے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے کو مشکوک ٹھہرانا شروع کردینا، عجیب رویہ ہے۔
ذہن اور نفسیات کا پاک ہونا یہ بذات خود مطلوب و مقصود ہے، لیکن باطن اور ظاہر ہر دو کی پاکیزگی مقصود ہے، جس کے ہاں جس خانے میں گند ہے وہ وہاں سے صفائی کرے۔
یہ کوئی معقول طریقہ نہیں کہ میں اپنے ظاہر کو صرف اس وجہ سے آلودہ رکھوں کیونکہ فلانے کا باطن بھی تو ایسا ہی ہے؟
ایسے مواقع پر پارسا ہونے کی پھبتی بھی کسی جاتی ہے، یعنی إنہم أناس یتطہرون!!
حالانکہ اگر فلاں کو ظاہری پارسائی کا دعوی ہے تو کیا آپ کو اپنی باطنی پارسائی کا دعوی ہے؟
اگر کوئی آپ کے ظاہری گند کو دیکھ کر اسے گندا نہیں کہہ سکتا، تو آپ کسی کے باطن کو کیسے دیکھ لیتے ہیں بلکہ اس کے آلودہ ہونے کا بھی حکم لگاتے ہیں، بلکہ یہ بھی طے کر لیتے ہیں کہ چونکہ اس کا باطن درست نہیں، لہذا اسے میرے ظاہر پر بولنے کا کوئی اختیار نہیں!
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ نیتوں کے احوال اللہ بہتر جانتا ہے اور اللہ بہتر سمجھتا ہے کہ کون کتنا پارسا ہے اور کسی کی اللہ کے ہاں کیا قدر ومنزلت ہے۔
لیکن یہ سب معاملات اللہ کے ہاں ہیں، انسان تو آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ اس کے ظاہر کو سامنے رکھتے ہوئے ہی معاملات کریں گے۔
طوائف معاشرے کا ایک برا کردار ہے، اسی طرح عالم دین ایک اچھا کردار ہے۔ ان تمام کرداروں کے ظاہر کو سامنے رکھ کر اچھے کو اچھا کہنا اور برے کو برا کہنا یہ انسانوں سے مطلوب ہے، لیکن ان کی نیتوں اور باطن پر حکم لگانا، انسان نہیں، بلکہ رحمن کا کام ہے، اسی لیے وہ چاہے گا تو عالم دین کو نہیں بخشے گا اور چاہے گا تو طوائف کو معاف کر دے گا۔
لیکن اس کی شریعت میں کہیں بھی یہ مطلوب نہیں کہ لوگ عالم نہ بنیں کیونکہ سارے علماء جنہم میں جائیں گے اور ساری دنیا طوائف بن جائے کیونکہ طوائفوں کو اللہ تعالی نے جنت میں بھیج دینا ہے!
آخر میں یہ عرض کر دینا بھی مناسب ہو گا کہ حمایت و تائید اور نفرت و مخالفت ہر دو صورتوں میں حد سے تجاوز کرنا درست رویہ نہیں۔ ہم جس کی ہر بات کی تائید کرتے ہیں کیا وہ معصوم ہے؟ اور جس کی ہر بات پر مخالفت کرتے ہیں کیا وہ کبھی صحیح بات نہیں کر سکتا؟
جو مجموعی طور پر درست ہے، اس کی غلطیوں کی تائید نہیں بالکل خاموشی اختیار کریں، اسی طرح جو مجموعی اعتبار سے سراپائے شر ہے اس کی اچھی بات کی بھی تردید نہ کریں، بلکہ سکوت اختیار کریں، ورنہ تو آپ حق کو باطل اور باطل کو حق کہنے والوں کی صف میں شمار ہوں گے۔
#خیال_خاطر