معاویہ رضی اللہ عنہ مُصلح ہیں (سیدنا عمر رضی اللہ عنہ)
سعید بن عمرو بن سعید بن عاص بیان کرتے ہیں، جب سیدنا ابو سفیان رضی اللہ عنہ کے بیٹے امیرِ شام سیدنا یزید بن أبي سفيان رضی اللہ عنہ فوت ہوئے تو سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ابو سفیان رضی اللہ عنہ کو بلا کر ان کے ساتھ تعزیت کی، ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے پوچھا: اے امیر المومنین! اب آپ نے ان کی جگہ کسے امیر بنایا ہے؟ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرمانے لگے:
جعلتُ أخاه معاوية، وابناك مصلحان، ولا يحل لنا أن ننزع مُصلحًا.
’’میں نے اُن کے بھائی معاویہ- رضی اللہ عنہ- کو اُن کی جگہ امیر بنایا ہے، آپ کے بیٹے (یزید و معاویہ) دونوں ہی مصلح (اصلاح کرنے والے) ہیں، اور ہمارے لیے کسی مصلح کو عہدے سے ہٹا دینا جائز نہیں ہے۔‘‘
▪(أخرجه ابن أبي الدنيا في حلم معاوية ومن طريقه ابن عساكر في تاريخ دمشق (٥٩/ ١١١)، وسنده صحیح إلى سعيد بن عمرو، وروايته عن عمر مرسلة كما قال أبو زرعة، وصحح أبو أحمد الحاكم سماعه عن عمر. والأول أصوب، والله أعلم)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (٧٢٨هـ) فرماتے ہیں:
“مُعَاوِيَةُ مِمَّنْ حَسُنَ إِسْلَامُهُ بِاتِّفَاقِ أَهْلِ الْعِلْمِ. وَلِهَذَا وَلَّاهُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ مَوْضِعَ أَخِيهِ يَزِيدَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ لَمَّا مَاتَ أَخُوهُ يَزِيدُ بِالشَّامِ، وَكَانَ يَزِيدُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ مِنْ خِيَارِ النَّاسِ، وَكَانَ أَحَدَ الْأُمَرَاءِ الَّذِينَ بَعَثَهُمْ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ لِفَتْحِ الشَّامِ: يَزِيدُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ، وَشُرَحْبِيلُ بْنُ حَسَنَةَ، وَعَمْرُو بْنُ الْعَاصِ، مَعَ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ الْجَرَّاحِ، وَخَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ، فَلَمَّا تُوُفِّي يَزِيدُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ وَلَّى عُمَرُ مَكَانَهُ أَخَاهُ مُعَاوِيَةَ، وَعُمْرُ لَمْ يَكُنْ تَأْخُذُهُ فِي اللَّهِ لَوْمَةُ لَائِمٍ، وَلَيْسَ هُوَ مِمَّنْ يُحَابِي فِي الْوِلَايَةِ، وَلَا كَانَ مِمَّنْ يُحِبُّ أَبَا سُفْيَانَ أَبَاهُ، بَلْ كَانَ مِنْ أَعْظَمِ النَّاسِ عَدَاوَةً لِأَبِيهِ أَبِي سُفْيَانَ قَبْلَ الْإِسْلَامِ، حَتَّى إِنَّهُ لَمَّا جَاءَ بِهِ الْعَبَّاسُ يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ كَانَ عُمَرُ حَرِيصًا عَلَى قَتْلِهِ، حَتَّى جَرَى بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْعَبَّاسِ نَوْعٌ مِنَ الْمُخَاشَنَةِ بِسَبَبِ بُغْضِ عُمَرَ لِأَبِي سُفْيَانَ. فَتَوْلِيَةُ عُمَرَ لِابْنِهِ مُعَاوِيَةَ لَيْسَ لَهَا سَبَبٌ دُنْيَوِيٌّ، وَلَوْلَا اسْتِحْقَاقُهُ لِلْإِمَارَةِ لَمَا أَمَّرَهُ. ثُمَّ إِنَّهُ بَقِيَ فِي الشَّامِ عِشْرِينَ سَنَةً أَمِيرًا، وَعِشْرِينَ سَنَةً خَلِيفَةً، وَرَعِيَّتُهُ مِنْ أَشَدِّ النَّاسِ مَحَبَّةً لَهُ وَمُوَافَقَةً لَهُ، وَهُوَ مِنْ أَعْظَمِ النَّاسِ إِحْسَانًا إِلَيْهِمْ وَتَأْلِيفًا لِقُلُوبِهِمْ.”
’’اہلِ علم کا اتفاق ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کا اسلام بہترین وعمدہ تھا، اسی لیے جب ان کے بھائی یزید بن أبي سفيان رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی تو ان کی جگہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے شام میں معاویہ رضی اللہ عنہ کو امیر مقرر کیا، یزید بن أبي سفيان رضی اللہ عنہ بہترین لوگوں میں سے تھے، آپ ان امراء (شرحبیل بن حسنہ، عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما) میں سے ایک تھے جنہیں سیدنا ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما نے شام فتح کرنے کے لیے سیدنا ابو عبیدہ بن جراح اور خالد بن ولید رضی اللہ عنہما کے ساتھ بھیجا تھا، پھر جب یزید بن أبي سفيان رضی اللہ عنہ فوت ہو گئے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان کی جگہ ان کے بھائی معاویہ رضی اللہ عنہ کو امیرِ شام مقرر کر دیا۔ اور عمر رضی اللہ عنہ، راہِ الہی میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈرتے تھے، اور نہ ہی کسی گورنر کی تقرری میں کسی کا کوئی خوف رکھتے تھے، بلکہ آپ رضی اللہ عنہ تو اسلام سے قبل ان کے والد سیدنا ابو سفیان رضی اللہ عنہ کے سخت مخالفت تھے، فتح مکہ کے دن عمر رضی اللہ عنہ کا ابو سفیان رضی اللہ عنہ کے قتل کا پورا ارادہ تھا، حتی کہ ابو سفیان رضی اللہ عنہ سے ناپسندیدگی کی وجہ سے آپ کی سیدنا عباس رضی اللہ عنہما کے ساتھ تلخ کلامی بھی ہوئی تھی۔
لہٰذا عمر رضی اللہ عنہ کا ان کے بیٹے معاویہ کو شام کی ولایت سونپ دینا کسی دنیاوی مقصد کے لیے نہیں تھی، اگر وہ اس امارت کے مستحق نہ ہوتے تو آپ رضی اللہ عنہ کبھی انہیں امیر نہ بناتے۔
پھر سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ بیس سال شام کے امیر رہے اور بیس سال خلیفہ رہے، ان کی رعایا ان سے شدید محبت کرنے والی اور ان کی موافقت کرنے والی تھی، اور آپ رضی اللہ عنہ بھی لوگوں پر سب سے بڑھ کر احسان کرنے والے اور ان کی دلجوئی کرنے والے تھے۔‘‘
▪(منهاج السنة النبوية: ٤/٣٨٢)
🖋 حافظ محمد طاھر حفظہ اللہ