مفتی عبدالولی خان صاحب حفظہ اللہ کا مختصر تعارف

العالم حي بعد مماته والجاهل ميت في حياته
عالم دین مرنے کے بعد زندہ ہوتا ہے لیکن جاہل اپنی زندگی میں ہی مرجاتاہے۔

فضیلة الشیخ مفتی عبدالولی خان صاحب حفظہ اللہ (مدرس مرکز بلال الاسلامیہ یوکے سنٹر لاہور) کامختصر تعارف
نام ونسب
عبد الولی خان بن ابو علی گنڈیر شاہ، قوم پشتون
پیدائش
آپ کی تاریخ پیدائش 1971 ہے۔
سکونت
آپ کی اصل سکونت و رہائش شبقدر چارسدہ خیبر پختونخوا ہے –
ابتدائی تعلیم
اپنے ہی علاقہ میں اپنے ماموں سے قاعدہ اور ناظرہ کا آغاز کیا، پھر کچھ حصہ ایک اور استاد سید مہربان شاہ صاحب سے پڑھ کر ناظرہ قرآن مجید مکمل کیا اور ساتھ ساتھ عصری تعلیم بھی حاصل کی۔
دینی تعلیم کا آغاز
شیخ محترم نے ابتدائی دینی تعلیم مختلف مدارس میں حاصل کی، جبکہ اعلی تعلیم کے لیے دار العلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک نوشہرہ میں داخلہ لیا، وہاں سے مروجہ علوم وفنون مکمل کیے اور 1991ء میں اسی مدرسہ سے سند فراغت حاصل کی۔
تخصص فی الفقہ والإفتاء
درس نظامی کی تعلیم مکمل ہونے کے بعد شیخ محترم نے دار العلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک نوشہرہ میں ہی تخصص فی الفقہ الاسلامی والافتاء میں داخلہ لیا اور 1993ء میں اس کی تکمیل کی سعادت حاصل کی۔ آپ کی زیادہ تعلیم چونکہ جامعہ حقانیہ سے رہی، اسی مناسبت سے آپ کے نام کے ساتھ ’حقانی’ کا لاحقہ بھی لگایا جاتا ہے۔
اساتذہ کرام
آپ کے اساتذہ کرام میں مختلف اسمائے گرامی آتے ہیں، جن میں چند ایک حسبِ ذیل ہیں:
(1)مولانا مفتی محمد فرید صاحب
(2)مولانا مغفور اللہ صاحب
(3)مولانا مفتی غلام الرحمان صاحب
(4)مولانا انوارالحق صاحب
(5)مولانا مطلع الانوار صاحب
(6)مولانا سید جمال الدین ناوگی باجوڑ
(7) معروف قائد و عالم دین مولانا سمیع الحق شہید رحمہ اللہ
(8) مفسرِ قرآن عالمِ شہیر حافظ محمد بن عبدالسلام بھٹوی رحمہ اللہ
(9) فضیلۃ الشیخ عبد المنان نور پوری رحمہ اللہ سے اجازہ حدیث حاصل کیا۔
آپ کے تمام اساتذہ دیوبندی مکتبِ فکر سے تعلق رکھتے ہیں، لیکن جب آپ اہل حدیث ہوئے (جس کی تفصیل آگے آ رہی ہے) تو آپ کی خواہش تھی کہ اہل حدیث اساتذہ سے بھی پڑھیں، لہذا آپ نے مریدکے میں تدریس کے دوران بھٹوی صاحب کے دروسِ بخاری میں شرکت کی اور تقریبا مکمل بخاری کے اسباق میں حاضری دی، اسی طرح نور پوری رحمہ اللہ سے اجازہ حاصل کیا۔
شیخ محترم اہل حدیث کیسے ہوئے؟
آئیے یہ واقعہ خود شیخ محترم کی زبانی سنیے! فرماتے ہیں:
سب سے پہلے تو اللہ سبحانہ و تعالی کا فضل ہے، جب اللہ کا فضل ہوجائے تو بندے کے لیے حق کا راستہ ظاہر ہوجاتا ہے اور اس پر چلنے کی توفیق بھی مل جاتی ہے ۔ اصل بات یہی ہے باقی کچھ اسباب بھی پیش آئے، جن کی تفصیل حسبِ ذیل ہے۔
کچھ شاگرد تھے جو میرے پاس پڑھنے کے لیے آتے تھے ، ان طلبہ کے کچھ اہل حدیث رشتہ دار تھے تو وہ ان سے کہتے تھے کہ اپنے استاد سے یہ یہ مسئلہ پوچھو ۔
سب سے پہلے انہوں نے جو مسئلہ پوچھا ، وہ مسح الرقبہ یعنی گردن کے مسح کا تھا ۔ جب انہوں نے پوچھا تو میں نے کہا کہ یہ مستحب ہے ۔انہوں نے کہا یہ اہل حدیث لوگ دلیل مانگتے ہیں کہ قرآن وسنت سے اس کے مستحب ہونے کی کوئی دلیل دے دیں ۔ میں نے کہا: بہت سے دلائل ہیں۔ لیکن عملا جب دلائل تلاش کرنا شروع کیے تو کوئی دلیل نہیں ملی، بلکہ یہ بات واضح ہوئی کہ امام ابو حنیفہ ، امام محمد، امام ابو یوسف رحمہ اللہ ان تینوں ائمہ میں سے کسی ایک سے بھی اس حوالے سے نفیا یا اثباتا کوئی بات منقول نہیں، یعنی انہوں نے نہ یہ کہا ہے کہ مسح رقبہ کرو اور نہ یہ کہا کہ یہ منع ہے۔
خلاصۃ الفتاوی میں اور مولانا عبدالحی لکھنوی صاحب کا رسالہ ہے اس میں بھی لکھا ہے کہ بعد کے مشایخ کے تین گروہ ہوئے :ایک گروہ نے کہا یہ بدعت ہے، دوسرے نے کہا یہ مستحب ہے، تیسرے نے کہا یہ ادب ہے۔
لہذا اس ساری تحقیق کے بعد میں نے اپنے شاگردوں کو بتایا کہ بھائی یہ بات تو اہل حدیثوں کی صحیح ہے، کیونکہ یہ تو بالکل ثابت ہی نہیں ہے۔ اس سلسلے میں وارد روایات کی تحقیق کی تو خود عبدالحئی لکھنوی صاحب نے بھی کہا ہے کہ یہ روایات ضعیف ہیں ، بہر صورت میں نے ان کو کہہ دیا کہ یہ مسئلہ ثابت نہیں۔ انہوں نے کہا کہ چھوڑ دیں؟ میں نے کہا :چھوڑ دو۔
اب جو ان کے ساتھی تھے اہل حدیث، انہیں جب صورتِ حال پتہ چلی تو وہ مزید پر امید ہو گئے کہ یہاں کام بن سکتا ہے، لہذا انہوں نے پھر ایک اور مسئلہ پوچھا ۔وہ مسئلہ نمازی کو سلام کرنے اور اس کے جواب کا تھا۔ یعنی ایک بندہ نماز پڑھ رہا ہے دوسرا اسے سلام کہہ سکتا ہے کہ نہیں ؟اور سلام کا جواب نمازی کیسے دے گا ؟اشارے سے جواب دے سکتا ہے کہ نہیں؟
میں نے کہا یہ تو مکروہ ہے۔انہوں نے کہا حدیث میں آیا ہے اور ابوداؤد کی ایک حدیث کا حوالہ دیا ۔میرے پاس کتابیں تو موجود رہا کرتی تھیں، لہذا سنن ابوداؤد میں دیکھا تو یہ حدیث مل گئی کہ سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ بیان کرتے ہیں :

“خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى قُبَاءَ يُصَلِّي فِيهِ قَالَ: فَجَاءَتْهُ الْأَنْصَارُ فَسَلَّمُوا عَلَيْهِ وَهُوَ يُصَلِّي، قَالَ: فَقُلْتُ: لِبِلَالٍ: كَيْفَ رَأَيْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرُدُّ عَلَيْهِمْ، حِينَ كَانُوا يُسَلِّمُونَ عَلَيْهِ وَهُوَ يُصَلِّي؟ قَالَ: يَقُولُ, هَكَذَا. وَبَسَطَ كَفَّهُ”.

’ رسول اللہ ﷺ (مسجد) قباء میں نماز پڑھنے کے لیے تشریف لے گئے۔ (اس اثنا میں آپ ﷺ کے پاس) انصار آ گئے۔ وہ آپ کو سلام کہتے تھے جبکہ آپ نماز پڑھ رہے تھے۔ سیدنا ابن عمر ؓ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا بلال ؓ سے پوچھا: آپ نے رسول اللہ ﷺ کو کس طرح جواب دیتے ہوئے دیکھا، جب کہ آپ نماز پڑھ رہے تھے اور وہ لوگ آپ کو سلام کہتے تھے؟ انہوں نے کہا: اس طرح اور اپنی ہتھیلی پھیلائی‘۔ [سنن ابی داود:927]
لہذا میں نے انہیں کہا کہ یہ بھی ٹھیک ہے۔ اب تلاش کرنا شروع کردیا کسی حنفی عالم نے بھی اس کے موافق بات کی ہو تو البحر الرائق میں ابن نجیم مصری نے اور صاحب فتح القدیر ابن الہمام نے اسے جائز قرار دیا اور کہا کہ اس کو مکروہ کہنا درست نہیں ہے کیونکہ یہ فعل نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔
مختصر یہ کہ میں نے اپنے شاگردوں سے کہا کہ یہ کام بھی جائز ہے۔ بس ایسے ہی آہستہ آہستہ حق کا راستہ واضح ہوتا گیا ۔
پھر شیخ البانی رحمہ اللہ کی کتاب صفۃ صلاۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور دارالسلام کی شائع کردہ نمازِ نبوی مل گئی تو اس کو پڑھنا شروع کر دیا اور یوں اللہ تعالی کے فضل و کرم کا سلسلہ بڑھتا گیا اور کوئی پانچ چھ مہینے اس طرح تحقیق میں گزرے تو اللہ تعالی نے مکمل طور پر حق کے راستے کے لیے شرح صدر فرما دی۔
حالانکہ ہمارے علاقے میں اس وقت شیخ عبدالعزیز نورستانی حفظہ اللہ ، اس طرح شیخ عبدالسلام رستمی رحمہ اللہ اور شیخ غلام اللہ رحمتی رحمہ اللہ وغیرہ بڑے اہل حدیث مشایخ بھی موجود تھے، لیکن ان سے کوئی جان پہچان اور ملاقات نہیں تھی ، اللہ تعالی کی توفیق اور اپنی تحقیق سے اللہ تعالی نے مسلکِ اہل حدیث کی سمجھ عطا فرمائی۔
تدریس کا آغاز
(1)فراغت کے متصل بعد شیخ محترم نے تدریس کی ابتدا جامعہ عثمانیہ پشاور سے فرمائی اور 1993 تا 1997 تک وہیں مصروفِ تدریس رہے۔
مزید تدریسی و علمی ذمہ داریاں
(2)جامعہ دار الفرقان الکریم ، حیات آباد پشاور ، 1998 تا 2000
(3)جامعہ الدعوہ الاسلامیہ مریدکے 2001 تا 2006
(4) پھر دار السلام لاہور میں 2007 تا 2016 میں تحقیق و تصنیف کی ذمہ داری سنبھالی، اس کے بعد 2017 تا 2019 میں پیغام ٹی وی سے منسلک رہے۔
(5) اسی دوران ایک سال جامعہ امام محمد بن اسماعیل بخاری بھوئے آصل قصور میں بھی تدریس فرمائی۔
(6) انہیں دنوں مختصر عرصے کے لیے جامعہ رحمانیہ لاہور اور قباء اسلامک اکیڈمی سرگودھا میں بھی پڑھایا۔
جامعہ بلال الاسلامیہ لاہور
شیخ محترم 2020 سے تا حال جامعہ بلال الاسلامیہ لاہور میں بطور صدر المدرسین تدریسی فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ جن کتابوں کی تدریس آپ کے ذمہ ہے ان میں جامع ترمذی، بدایۃ المجتھد، شرح ابن عقیل، ہدایہ وغیرہ سر فہرست ہیں۔
خطابت کے فرائض
2003 سے تا حال خطابت کے فرائض جامع مسجد توحید لاہور میں ادا کر رہے ہیں۔
تصنیفی کام
شیخ محترم اب تک کئی ایک کتابیں تحقیق و تصنیف فرما چکے ہیں مثلا:
(1)ترجمہ قرآن مجید بزبان پشتو شائع از دار السلام ۔
(2)کلمات القرآن مشکل الفاظ کا ترجمہ اور بیان فوائد بزبان اردو۔ شائع شدہ از دار السلام
(3)احکام السلام اردو،
(4) قواعد الصرف تین حصے
(5) قواعد النحو تین حصے، شریک مصنف از دار السلام۔
اور کئی کتب کی تحقیق و نظر ثانی کی، جن میں منہاج المسلم ، فقہ کتاب و سنت ، تفسیر احسن البیان، نیل المرام شرح بلوغ المرام، نماز نبوی اور نماز پيغمبر وغیرہ شامل ہیں.
اسی طرح آپ فتوی کمیٹی لجنۃ العلماء للإفتاء کے رکن بھی ہیں، جس میں دیگر اہل علم کے اشتراک سے آپ کے فتاوی نشر ہوتے رہتے ہیں۔
ہم مکتب احباب
(1) مولانا حامد الحق حقانی بن الشیخ سمیع الحق صاحب
(2)مولانا ابو عبیداللہ المتوکل اللہ رحمہ اللہ
(3)مولانا پير حزب اللہ جان چارسدہ
(4)مولانا امان اللہ حقانی صاحب
(5)مولانا مثمر شاہ حقانی
(6)مفتی حبیب حضرت حقانی
مشہور تلامذہ
(1) فضیلۃ الشیخ مولانا محمد یوسف قصوری حفظہ اللہ (شیخ الحدیث جامعہ امام بخاری، بھوئے آصل)
(2)مولانا اقبال قصوری صاحب
(3)مولانا زید حارث صاحب (فاضل مدینہ یونیورسٹی)
(4)مولانا حکیم علیم اللہ خان صاحب (واہ کینٹ)
(5) حافظ خضر حیات حفظہ اللہ (مدیر لجنۃ العلماء)
(6)مولانا حافظ قمر حسن صاحب (معروف مترجم و مصنف)
(7)مولانا أبو مسلم عطاء الرحمن
(8)مولانا ابودجانہ ندیم صاحب
(9)شیخ الحدیث بنیامین صاحب
(10)مولانا خطاب گل صاحب
(11)مولانا آفتاب عالم صاحب
(12)مولانا مجیب اللہ صاحب
اللہ تعالٰی شیخ محترم کو دین حنیف کی مزید خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور صحت و عافیت والی لمبی عمر عطا فرمائے۔ آمین

●تحریر: حافظ امجد ربانی
●فاضل: جامعہ سلفیہ فیصل آباد
●مدرس جامعہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ سندر لاہور

یہ بھی پڑھیں: مولانا ابو تقی حفیظ الرحمن لکھوی حفظہ اللہ کامختصر تعارف