مفتی حنیف قریشی صاحب نے 26 نومبر کی فتح کا جشن مناتے ہوئے اپنے پیر صاحب کے سامنے حاضری پر ان کے قدموں پر گر کر ان کی قدم بوسی کی۔ اس واقعے کی ویڈیو وائرل ہے اور لوگ سوال پوچھ رہے ہیں۔ بھلے وہ اس کو سجدہ نہ کہیں، قدم بوسی کا نام دیں لیکن پھر بھی سجدے سے مشابہت کے سبب یہ ایک ناجائز اور ممنوع امر ہے۔
سنن ترمذی کی صحیح روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا کہ جب ہم اپنے بھائی سے ملیں تو کیا اسے جھک کر مل سکتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع کر دیا۔ پھر سائل نے سوال کیا کہ کیا ہم اپنے بھائی سے معانقہ کرتے ہوئے اس کا بوسہ لیں تو آپ نے اس سے بھی منع کر دیا۔ پھر سائل نے سوال کیا کہ کیا ہم اپنے بھائی سے ملاقات کے وقت اس سے مصافحہ کریں تو آپ نے جواب دیا؛ ہاں۔
بہر حال مسلمانوں میں ملاقات کا صحیح طریقہ یہی ہے کہ جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رائج فرمایا کہ ایک دوسرے سے ملاقات کے وقت مصافحے کو رواج دیا جائے۔ رہا معانقہ اور بوسہ لینا تو بعض دوسری روایات سے مخصوص حالات میں اس کی اجازت نکل سکتی ہے۔ یعنی عمومی حکم تو مصافحے کا ہی ہے جبکہ مخصوص حالات میں معانقہ اور بوسہ بھی جائز ہو سکتا ہے۔
لیکن قدم بوسی کی جو روایات نقل کی جاتی ہیں، وہ ضعیف اور منکر روایات ہیں لہذا قدم بوسی ثابت نہیں ہے۔ اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ فقہ حنفی کی بعض معتبر کتب مثلا رد المحتار اور فتاوی عالمگیری وغیرہ میں بھی علماء کے سامنے زمین بوسی کو گناہ کبیرہ اور حرام کہا گیا ہے۔ اور اگر یہ زمین بوسی بطور عبادت ہو تو اسے کفریہ عمل کہا گیا ہے۔ دار العلوم دیو بند کی ویب سائیٹ پر بھی اس عمل کو ناپسندیدہ قرار دیا گیا ہے اور سجدے سے مشابہت کے سبب اس سے اجتناب برتنے کا ہی مشورہ دیا گیا ہے۔
رہی یہ بات کہ ماں بھی تو اپنے بچے کے پاؤں چوم لیتی ہے تو اس کو بھی حرام کہہ دیں۔ تو بچے کے پاؤں چومنے میں اور پیر کی قدم بوسی میں بہت فرق ہے۔ بچے کے پاؤں چومتے وقت ماں کی ہیئت سجدے کی نہیں ہوتی بلکہ عموما ماں بیٹھی ہوتی ہے اور بچہ لیٹا ہوتا ہے اور ماں اس کے پاؤں اٹھا کر چوم لیتی ہے۔ تو اگر پاؤں چومتے وقت سجدے کی ہیئت نہ ہو تو اس میں حرج نہیں کیونکہ محبت کی بنا پر ہاتھ، پاؤں، پیشانی وغیرہ جیسے اعضاء کو بوسہ دینے میں حرج نہیں۔ جس چیز کی ممانعت ہے، وہ سجدے کی ہیئت کے ساتھ قدم بوسی ہے۔
پس اگر قدم بوسی کی صورت ایسی ہو کہ مرید کو جھکنا نہ پڑے تو اس کو حرام کہنا مشکل ہے اور مخصوص صورتوں میں اس کا جواز ہو سکتا ہے۔ لیکن اگر قدم بوسی کی صورت میں انسان کی ہیئت ایسی ہو جائے کہ وہ سجدے کی ہیئت بن جائے تو ایسی قدم بوسی حرام اور گناہ کبیرہ ہے کہ سجدے سے مشابہت ہو گئی ہے۔ پس آپ اپنے بچوں کے پاؤں چومیں یا والدین کے، بیوی کے یا پیر کے، اس میں اس وقت تک حرج نہیں جب تک کہ سجدے کی ہیئت نہ ہو۔
اور اگر سجدے کی ہیئت ہو جائے تو سجدے سے مشابہت کے سبب حرام اور گناہ کبیرہ ہے۔ اگر آپ کی والدہ یا والد صاحب چارپائی یا بستر پر لیٹے ہیں اور آپ ان کے ساتھ زمین پر بیٹھے ان کے پاؤں داب رہے ہیں اور ایسے میں انہیں چوم لیتے ہیں تو حرج نہیں ہے۔ لیکن اگر وہ کرسی پر بیٹھے ہیں اور آپ ان کے سامنے سجدے کی حالت میں گر کر ان کے پاؤں چومتے ہیں تو یہ جائز نہیں ہے۔ اور یہی کام مفتی حنیف قریشی صاحب نے کیا ہے۔
ایک وقت میں مولانا طاہر القادری صاحب کی ایک ویڈیو بہت وائرل ہوئی تھی کہ ان کے ایک مرید ان کی قدم بوسی کر رہے تھے تو اس پر منہاج القرآن کی فتوی سائیٹ پر ایک فتوی میں وضاحت کی گئی کہ طاہر القادری صاحب اپنے مریدوں کو اپنے ہاتھ چومنے سے بھی منع کرتے ہیں چہ جائیکہ کہ قدم بوسی کی اجازت دیں لہذا وہ واقعہ ایک غلط فہمی کی بنا پر ہوا تھا۔ البتہ اس فتوے میں بھی مفتی صاحب نے اس عمل کو جائز قرار دیا ہے۔ چلیں، اس حد تک بھی غنیمت ہے کہ اس عمل کو اپنے لیے ناجائز قرار دیا جائے اور اپنے مریدوں کو اس سے روکا جائے۔ لیکن صحیح رائے یہی ہے کہ یہ عمل ذات کی حد تک بھی نا پسندیدہ ہے اور شرعا بھی اس کا جواز نہیں ہے۔ جزاکم اللہ خیرا
ڈاکٹر محمد زبیر