سوال (5598)

محمد علی مرزا سے اختلاف تو یقیناً ہم سب کو ہے، لیکن 295c کا مقدمہ درج کرنا کیا یہ انصاف ہے؟

جواب

انصاف ہی تو نہیں ہے انصاف تو یہ ہے کہ اس کے ساتھ برابر معاملہ کیا جائے چھوکروں والا سلوک کیا جائے بنو امیہ کے بارے میں جو بولتے ہیں وہی اس کے ساتھ سلوک کیا جائے جس طرح دجال دجال کی رٹ لگائی تھی اس کو بھی ویسا ہی سبق سکھایا جائے یہ انصاف ہے۔

فضیلۃ الباحث اظہر نذیر حفظہ اللہ

پیارے بھائی میں نے جو سنا ہے اس کے مطابق محمد علی مرزا نے گستاخی تو دور کی بات اس ویڈیو میں کوئی گناہ صغیرہ بھی نہیں کیا ہے آپ اس کو یہ مشورہ ضرور دے سکتے ہیں کہ بے وقوف اور جاہل لوگ ان الفاظ کو غلط معنی دے سکتے ہیں انکے اشتعال سے بچنے کے لئے مناسب الفاظ استعمال کریں لیکن شرعی نص کے تحت اسکی غلطی نکالنے کی کوئی دلیل کسی کے پاس نہیں ہو سکتی البتہ اس معاملہ میں مرزا کی تائید کرنے کی دلیل قرآن میں ملتی ہے کہ:

ولا یجرمنکم شنان قوم علی ان لا تعدلوا۔ اعدلوا هو اقرب للتقوی،

یعنی کسی سے تمھیں دشمنی ہو تو اسکا مطلب یہ نہیں کہ تم اس کے حق میں کوئی بات ہو تو وہ بھی نہ کہو۔ پس عدل کرو اور اسکے حق میں جو بات ہے اسکا اعتراف کرو اگر ایسا نہیں کرو گے تو پتا ہے کیا ہو گا؟
آپ اپنا اعتماد عوام پہ کھو دیں گے۔
دیکھو آپ نے شیر آ گیا شیر آ گیا والی کہانی تو سنی ہو گی جب ایک چرواہا لوگوں کو بے وقوف بناتا تھا اور پہاڑی سے چیختا تھا کہ شیر آ گیا شیر آ گیا تو لوگ بھاگ کر اسکو بچانے آتے لیکن وہ ہنسے لگ جاتا کہ کیسے بے وقوف بنایا حالانکہ ومایخدعون الا انفسهم، کے تحت وہ اپنے آپ کو بے وقوف بنا رہا تھا کیونکہ اگلے دن جب سچ مچ شیر آیا تو اسنے پکارا کہ شیر آ گیا لیکن وہ اعتماد کھو چکا تھا تو کسی نے بھی تحقیق کرنے کی کوشش نہیں کی اور کوئی بھی نہیں آیا اور اسکا ریوڑ شیر نے کھا لیا۔
پس بہت معذرت کے ساتھ ہمارے ہاں بھی یہی وطیرہ چل رہا ہے کہ ہم مرزا صاحب کی جو درست بات ہوتی ہے اسکی بھی تائید نہیں کرتے اور اس میں تاویلیں کر کے غلطی نکالنے کی کوشش کرتے ہیں جو تاویل نہایت بونگی ہوتی ہے پس جب مرزا وہ معاملہ عوام کے سامنے رکھتا ہے کہ یہ میری بات تھی اور یہ لوگ کہتے ہیں تو عوام میں ہمارا اعتماد ختم ہو جاتا ہے پس جب پھر ہم کوئی سچی بات میں بھی مرزا کی سچی غلطی نکالتے ہیں تو لوگوں کا جو پہلے رجحان بنا ہوا تھا وہ زیادہ تحقیق ہی نہیں کرتے اور مرزا کی بات کو مان لیتے ہیں۔
پس ہم شرعی لحاظ سے تو قرآن کی آیت کی مخالفت کرتے ہی ہیں عقلی لحاظ سے بھی ہم اپنا نقصان ہی کررہے ہوتے ہیں۔
دیکھیں رسول اللہ ﷺ نے ایۃ لاکرسی کے معاملے میں بھی تو کہا تھا کہ وہ جھوٹا تھا لیکن بات اسنے سچی کی یعنی شیطان کی سچی بات کی بھی تائید کی تھی پس میں نے تو کھل کر اس جھوٹے کیس کی مخالفت کی ہے ورنہ جتنا مجھے مرزا صاحب سے اختلاف ہے۔
پیارے بھائی دوسرے مخالف سے اوپر بڑھنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ دوسرے کو نیچے کیا جائے جیسا کہ ہمارے کچھ لوگ ہر معاملے میں مرزا صاحب کو نیچے کرنا چاہتے ہیں چاہے وہ درست بھی ہو لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ اسکو جب تھوڑا سا نیچے کرتے ہیں تو ہم خﷺد عوام میں کتنے نیچے ہو جاتے ہیں تو کلی نتیجے میں ہم اسکو نیچے نہیں کر سکتے۔ اسکے برعکس اگر ہم اس کو اس معاملے میں نیچا کرنے کی بجائے اسکی تائید کر کے اپنے آپ کو اونچا کرنے کی کوشش کریں تو ہو عقلی اور فطری ہو گا اور اسلام کی تعلیمات کے مطابق بھی ہو گا۔
اب پتا نہیں میرا یہ جواب ہضم ہو سکتا ہے یا نہیں۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ارشد حفظہ اللہ

ان کی بے احتیاط اور نہ رکنے والی زبان کا یہی حل تھا، آخر ایک آدمی بدستور ایسے موھم گستاخی الفاظ کا ارتکاب کرتا ہے اور اپنی تحقیق کی آڑ میں مسلمات کے خلاف زبان کھولتا ہے ۔ تو اسے اس کا اس کے علاوہ کیا حل ہے۔

فضیلۃ العالم عبد المنان شورش حفظہ اللہ