سوال (683)

ایسی انگوٹھی جس میں “محمد رسول اللہ” اوپر سے نیچے لکھا ہوتا ہے، پہننا جائز ہے؟

جواب

جی جائز ہے. یہ اصل میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی کی طرز پر بنائی گئی ہے، اس کو پہننے میں کوئی حرج نہیں، بس خیال رہے کہ اس کی توہین اور بے ادبی نہ ہو، کیونکہ اس پر اللہ اور اس کے رسول کا نام لکھا ہوا ہے۔

فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ

سوال: وہ انگوٹھی پہننے کا کیا حکم ہے، جس پر “اللہ رسول محمد” کی نقش ہو۔

جواب: یہ انگوٹھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر نبوت کی تھی، یہ خلفاء کے پاس رہی، بعد ازاں غالبا یہ انگوٹھی بئر ذروان میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں گر گئی تھی، ہمارے ذاتی مطالعے کے تحت ایسی انگوٹھی بنانا جائز نہیں ہے، آپ اپنا نام لکھوا لیں، لیکن آپ مہر نبوت نہ بنائیں، یہ جائز نہیں۔ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بطور مہر پہنتے تھے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے علاؤہ بھی زینت کے لیے پتھر پہنے ہیں، اگر زیادہ شوق ہے تو اپنا نام لکھوانا چاہیے، لیکن مہر نبوت نہیں بنانی چاہیے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

سوال: اللہ، رسول اور محمد کی انگوٹھی میں نقش بنانا کیسا ہے؟

جواب: أولا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی انگوٹھی کا نقش اس طرز پر ہونا ثابت نہیں۔ بلکہ زیادہ قوی بات یہ ہے کہ یہ نقش اوپر سے نیچے ہی لکھے ہوئے تھے۔ محمد رسول اللہ.

ثانیاً: اس طرح سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی مہر جیسی انگوٹھی بنوا کر پہننا سلف سے ثابت عمل نہیں۔ نہ وہ اسے سنت سمجھتے تھے اور نہ کوئی اظہارِ محبت کا ذریعہ۔ لہذا اس سے اجتناب ہونا چاہیے۔

فضیلۃ الباحث حافظ محمد طاہر حفظہ اللہ  

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انگوٹھی خط پہ مہر لگانے کی وجہ سے اختیار کیا تھا، اس پر اوپر اللہ بیچ میں محمد اور نیچے رسول لکھا ہوا تھا، اس وقت آپ کے ممانعت جاری کردی تھی کہ ایسا نقش کوئی نہیں بنوائے، کیونکہ پھر وہ انگوٹھی جس مقصد کے تحت بنائی تھی، وہ فوت ہوجاتا، وفات کے بعد اس کی اجازت ہے، اس میں اللہ اور رسول کے نام ہیں، کس مقصد کے تحت اس طرح کی انگوٹھی پائی جا رہی ہے، باقی زینت کی انگوٹھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی الگ تھی، پھر ایسی کوئی انگوٹھی چاندی کی پہن لیں، پھر بھی کوئی لکھوا دیتا ہے تو ممانعت نہیں ہے۔ اس لیے اجتناب بہتر ہے، لیکن کوئی بنائے تو سخت فتویٰ کی صادر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ