محرم الحرام اور کچھ باطل نظریات

اللہ تعالیٰ نے جب سے نظام کائنات بنایا ہے تب سے مہینوں اور دنوں کی تعداد بھی متعین کی ہوئی ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے

إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِندَ اللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ

بے شک مہینوں کی گنتی، اللہ کے نزدیک، اللہ کی کتاب میں بارہ مہینے ہے، جس دن اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا،

مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ۚ

ان میں سے چار(مہینے) حرمت والے ہیں۔ (التوبہ36)
فرمان مصطفیٰ ہے

السَّنَةُ: اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا، مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ، ثَلَاثٌ مُتَوَالِيَاتٌ: ذُو الْقَعْدَةِ، وَذُو الْحِجَّةِ، وَالْمُحَرَّمُ، وَرَجَبُ،

سال بارہ مہینے کا ہوتا ہے، ان میں سے چار حرمت والے مہینے ہیں۔ تین تو لگاتار یعنی ذی قعدہ، ذی الحجۃ اور محرم اور چوتھا رجب ہے۔ (بخآری 4662)
تمام مہینہ اور بلخصوص حرمت کے مہینہ کا ادب یہ ہے کہ اس میں گناہ اور ظلم سے بچا جائے اور زیادہ سے زیادہ نیک اعمال کیے جائیں۔
ارشادِ باری ہے

ذَٰلِكَ وَمَن يُعَظِّمْ حُرُمَاتِ اللَّهِ فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ عِندَ رَبِّهِ ۗ (الحج30)

یہ تو حکم ہے ، اور جو کوئی حرمات خدا کی تعظیم کرے ، سو وہ اس کے لئے اس کے رب کے نزدیک بہتر ہے،

حرمت کے مہینہ میں اور بلخصوص محرم الحرام کے مہینہ میں سب سے بڑا اور اہم کام جس سے شریعت نے بچنے کاحکم دیا ہے،وہ ہے

فَلَا تَظْلِمُوا فِيهِنَّ أَنفُسَكُمْ ۚ

تم ان مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو۔
ہر معاشرے اور دور میں نفسوں پر “ظلم” مختلف صورتوں میں ہوتا آیا ہے۔
تو اس ظلم سے مراد لڑائی جھگڑا بھی ہے جیسے
اللہ فرماتے ہیں

اَلشَّهْرُ الْحَرَامُ بِالشَّهْرِ الْحَرَامِ وَ الْحُرُمٰتُ قِصَاصٌ ﴾ [ البقرۃ : ۱۹۴ ]

’’حرمت والا مہینہ حرمت والے مہینے کے بدلے ہے اور سب حرمتیں ایک دوسری کا بدلہ ہیں۔‘‘
2۔ اسی طرح اس مہینہ کے بارہ میں مشہور ہے کہ شادی بیاہ اور خوبصورتی سے بچنا چاہئے جو ایسا کرے گا تو وہ جوڑہ مصائب ،پریشانی اور تکالیف سے جھکڑ دیاجاتا ہے۔اب آپ سوچیں کہ اسباب و وسائل ہونے کے باوجود صرف ایک باطل نظریہ کے تحت شادی نہ کرنا نوجوان پر معاشرے کا بہت بڑا ظلم نہیں ہوگا۔؟
یاد رکھیں۔
اگر کبھی زندگی میں کسی بھی دن یا وقت میں کوئی آفت،پریشانی یا کوئی بہت بڑا نقصان ہو جائے تو اسکو ہر گز منحوس نہیں سمجھنا چاہئیے۔
یہ جو آج کل سیاہ دن (black day) کہا جاتا ہے یہ بھی جائز نہیں ہے ۔
حدیثِ قدسی ہے۔
”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

يؤذيني ابن آدم يسب الدهر، وانا الدهر بيدي الامر اقلب الليل والنهار”.

ابن آدم مجھے تکلیف پہنچاتا ہے، زمانہ کو برا بھلا کہتا ہے، حالانکہ میں ہی زمانہ کا پیدا کرنے والا ہوں، میرے ہی ہاتھ میں تمام کام ہیں، میں جس طرح چاہتا ہو رات اور دن کو پھیرتا رہتا ہوں۔“(بخآری 7491)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں لوگ شوال کے مہینے کو منحوس سمجھا کرتے تھے،جب عائشہ رضی اللہ عنھما کو علم ہوا تو انہوں نے فرمایا

تزوجني رسول الله صلى الله عليه وسلم في شوال، وادخلت عليه في شوال”، وكانت عائشة تحب ان تدخل نساءها في شوال” فاي نسائه كانت احظى عنده مني؟”.

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے شوال میں شادی کی، اور میری رخصتی بھی شوال کے مہینے میں ہی ہوئی۔
(عروہ کہتے ہیں) عائشہ رضی اللہ عنہا پسند کرتی تھیں کہ مسلمان بیویوں کے پاس شوال میں جایا جائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں میں سے مجھ سے زیادہ آپ کے نزدیک اور فائدہ اٹھانے والی کوئی دوسری بیوی کون تھیں ؟
( «صحیح مسلم/النکاح) (1423)،سنن الترمذی/ (1093)،

حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا دراصل اس عقیدہ کا رد کر رہی ہیں جو معاشرے میں پھیلا ہوا تھا کہ شوال کا مہینہ بہت منحوس ہوتا ہے ۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں اگر ایسا ہی ہے تو پھر ہمارے اوپر نحوست کا غلبہ کیوں نہ ہوا ہلانکہ ہمارا نکاح بھی تو شوال میں ہی ہوا ہے۔جبکہ میرے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان اس قدر محبت تھی کہ مجھ سے زیادہ کسی اور بیوی سے محبت نہ تھی۔
لہذا کوئی بھی مہینہ یا دن منحوس نہیں ہوتا۔اس جیسے باطل نظریات سے بچ کر ہی رہنا چاہئیے
3۔ ظلم کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ انسان مصیبت اور پریشانی میں اپنے جسم کو تکلیف میں مبتلاء کرے جیسے ماتم کرنا،گریبان پھاڈنا اور سر کو منڈوا دینا۔
یقینا ایسا کرنا سراسر باطل اور جہالت کی بو سے بھرا ہوا ہے
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا
ليس منا من ضرب الخدود وشق الجيوب ودعا بدعوى الجاهلية”.
وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو (نوحہ کرتے ہوئے) اپنے رخسار پیٹے، گریبان پھاڑ ڈالے، اور جاہلیت کی پکار پکارے۔“( بخآری 3519)
رسول اکرم ﷺ نے برات کا اظہار کیا
ابو بردہ بن ابی موسیٰ (اشعری) فرماتے ہیں “.

وَجِعَ أَبُو مُوسَى وَجَعًا فَغُشِيَ عَلَيْهِ، وَرَأْسُهُ فِي حَجْرِ امْرَأَةٍ مِنْ أَهْلِهِ، فَصَاحَتِ امْرَأَةٌ مِنْ أَهْلِهِ، فَلَمْ يَسْتَطِعْ أَنْ يَرُدَّ عَلَيْهَا شَيْئًا، فَلَمَّا أَفَاقَ، قَالَ: ” أَنَا بَرِيءٌ مِمَّا بَرِئَ مِنْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَرِئَ مِنَ الصَّالِقَةِ، وَالْحَالِقَةِ، وَالشَّاقَّةِ “.

حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ ایسے شدید بیمار ہوئے کہ ان پر غشی طاری ہو گئی، ان کا سر ان کے اہل خانہ میں سے ایک عورت کی گود میں تھا، (اس موقع پر) ان کے اہل میں سے ایک عورت چیخنے لگی، حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ (شدید کمزوری کی وجہ سے) اسے کوئی جواب نہ دے سکے۔ جب افاقہ ہوا تو کہنے لکے: میں اس بات سے بری ہوں جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے براءت کا اظہار فرمایا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چلا کر ماتم کرنےوالی، سر منڈانے و الی اور گریبان چاک کرنے والی (عورتون) سے لا تعلقی کا اظہار فرمایا تھا۔۔ ( مسلم 287)
نوحہ کرنے والوں کے منہ میں مٹی ڈال دو
حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں :

لَمَّا جَاءَ قَتْلُ ابْنِ حَارِثَةَ، وَجَعْفَرِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَوَاحَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ، جَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْرَفُ فِيهِ الْحُزْنُ، قَالَتْ عَائِشَةُ: وَأَنَا أَطَّلِعُ مِنْ صَائِرِ الْبَابِ، تَعْنِي: مِنْ شَقِّ الْبَابِ، فَأَتَاهُ رَجُلٌ فَقَالَ: أَيْ رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ نِسَاءَ جَعْفَرٍ، قَالَ: وَذَكَرَ بُكَاءَهُنَّ، فَأَمَرَهُ أَنْ يَنْهَاهُنَّ، قَالَ: فَذَهَبَ الرَّجُلُ ثُمَّ أَتَى فَقَالَ: قَدْ نَهَيْتُهُنَّ، وَذَكَرَ أَنَّهُ لَمْ يُطِعْنَهُ، قَالَ: فَأَمَرَ أَيْضًا فَذَهَبَ، ثُمَّ أَتَى فَقَالَ: وَاللَّهِ لَقَدْ غَلَبْنَنَا، فَزَعَمَتْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: فَاحْثُ فِي أَفْوَاهِهِنَّ مِنَ التُّرَابِ، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَقُلْتُ: أَرْغَمَ اللَّهُ أَنْفَكَ، فَوَاللَّهِ مَا أَنْتَ تَفْعَلُ، وَمَا تَرَكْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْعَنَاءِ”.
غَلَبْنَنَا، فَزَعَمَتْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: فَاحْثُ فِي أَفْوَاهِهِنَّ مِنَ التُّرَابِ، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَقُلْتُ: أَرْغَمَ اللَّهُ أَنْفَكَ، فَوَاللَّهِ مَا أَنْتَ تَفْعَلُ، وَمَا تَرَكْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْعَنَاءِ”.

جب زید بن حارثہ ‘ جعفر بن ابی طالب اور عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہم کی شہادت کی خبر آئی تھی ‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہوئے تھے اور آپ کے چہرے سے غم ظاہر ہو رہا تھا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں دروازے کے سوراخ سے جھانک رہی تھی۔ اتنے میں ایک آدمی نے آ کر عرض کیا: یا رسول اللہ! جعفر رضی اللہ عنہ کے گھر کی عورتیں چِلاّ کر رو رہی ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ انہیں روک دو۔ بیان کیا کہ وہ صاحب گئے اور پھر واپس آ کر کہا کہ میں نے انہیں روکا اور یہ بھی کہہ دیا کہ انہوں نے اس کی بات نہیں مانی۔ پھر اس نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر منع کرنے کے لیے فرمایا۔ وہ صاحب پھر جا کر واپس آئے اور کہا: قسم اللہ کی! وہ تو ہم پر غالب آ گئی ہیں۔ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی تھیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ پھر ان کے منہ میں مٹی جھونک دو۔ ام المؤمنین رضی اللہ عنہا نے بیان کیا ‘ میں نے کہا: اللہ تیری ناک غبار آلود کرے نہ تو تو عورتوں کو روک سکا نہ تو نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف دینا ہی چھوڑا۔ (بخاری4263)

تحریر: ابو محمد اویس قرنی

یہ بھی پڑھیں: عقائد کے ماند پڑتے شعلے