استاذ محترم عبدالحمید خاکی صاحب رحمہ اللّٰہ

خامہ فرسائی

آج بعد از نماز مغرب مرکز علوم اسلامیہ ستیانہ بنگلہ کے رہائشی کمروں میں سے ایک کمرے میں موجود تھا کہ درجہ ثالثہ کے طالب علم عادل بھائی نے آ کر خبر سنائی کہ استاد محترم عبدالحمید خاکی صاحب اس دنیا کو چھوڑ گئے ہیں ایک دم تو یقین نہ آیا موبائل پکڑا تاکہ معلوم کروں کہ یہ خبر درست ہے یا نہیں اتنے میں درجہ سابعہ کے طالب علم اور استاد محترم کے گاؤں کے رہائشی حافظ ابو مرصد نے آ کر اس خبر کی تصدیق کردی ، یہ سن کر جسم سے جیسے جان ہی نکل گئی ہو ، کیوں کہ حضرت خاکی صاحب جیسے اللّٰہ کے ولی ، صبر و استقامت کے پیکر اور کہنہ مشق استاذ کا دنیا سے چلے جانا ہم جیسے طلبہ کے لئے بہت بڑے نقصان اور صدمے کی بات تھی
انا لله و انا اليه راجعون

إن العين تدمع والقلب يحزن، ولا نقول إلا ما يرضي ربنا “وإنا لفراقك يا شيخنا لمحزونون

20 مئی بروز سوموار صبح 10:30 بجے آپ کے گاؤں میں آپ کی نماز جنازہ ادا کی جائے گی ۔ ذیل میں استاد محترم کے متعلق چند ٹوٹی پھوٹی باتوں اور یادوں کو جمع کیا ہے ہو سکتا ہے ہم میں سے کسی کے لیے اس سے خیر کا راستہ کھلے اور ہماری زندگی بہتر ہو جائے ۔ اگر اس میں کوئی غلطی ہو تو ضرور مطلع فرمائیں
علاقہ: مرحوم گوجرانوالہ کے ایک نواحی گاؤں کوٹ بھوانی داس (کوٹ اسلام) کے رہائشی تھے ، یہ گاؤں گوجرانوالہ کے بائی پاس عالم چوک سے نکلنے والی شاہراہ حافظ آباد روڈ پر واقع قلعہ دیدار سنگھ کے مضافات میں قلعہ دیدار سنگھ سے تقریباً پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس گاؤں میں ایک دینی تعلیم و تربیت کا ادارہ بھی ہے جس سے پھوٹنے والی روشنی سے گرد ونواح کے لوگ منور رہتے ہیں

تعلیم

لاہور میں قاری محمد شریف صاحب سے تجوید و قرات کا علم حاصل کیا اور گوجرانوالہ جامعہ اسلامیہ نیائیں چوک سے وقت کے عظیم اساتذہ مولانا ابو البرکات صاحب رحمہ اللّٰہ ، مولنا اعظم صاحب رحمہ اللّٰہ اور حافظ محمد الیاس اثری صاحب حفظہ اللہ (شیخ الحدیث جامعہ محمدیہ گوجرانوالہ) جیسے علماء سے کسب فیض کیا ۔ قاری ادریس العاصم صاحب رحمہ اللّٰہ، حافظ امین محمدی صاحب ( شیخ الحدیث جامعہ نصر العلوم عالم چوک گوجرانوالہ) وغیرہ بھی ان دنوں وہیں زیر تعلیم تھے اور پروفیسر حافظ عبد الستار حامد صاحب آف وزیر آباد ناظم الامتحانات وفاق المدارس السلفیہ پاکستان آپ کے ہم سبق اور کلاس فیلو تھے ، شیخ عبدالحمید خاکی صاحب ہمیشہ محنتی اور ذہین طلبہ میں شمار ہوتے تھے اور آپ کے کردار میں ہمیشہ نیکی ، تقوی اور للٰہیت کی جھلک نظر آتی تھی آپ کی محنت اور لگن کا یہ عالم تھا کہ آنکھوں کی بینائی سے محروم ہونے کے باوجود حدیث کی معروف کتاب مشکاۃ المصابیح زبانی یاد کر رکھی تھی ، حافظ الیاس اثری صاحب حفظہ اللہ کو درس نظامی میں رائج فنون پر گہری دسترس حاصل ہے ، عبدالحمید خاکی صاحب اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ حافظ الیاس اثری صاحب سے کلاس ٹائم سے الگ وقت میں پڑھا کرتے تھے ، صرف ، نحو ، عربی ادب ، فارسی ادب ، منطق ، فلسفہ اور دیگر موضوعات پر دسیوں رسائل و کتب اضافی وقت میں پڑھیں اور بہت سارے متون زبانی یاد کیے ، شیخ عبدالحمید خاکی صاحب اور ان کے ساتھیوں کے ذوق کو دیکھ کر خود حافظ صاحب مختلف کتب و رسائل بارے بتاتے کہ آپ کو فلاں کتاب بھی پڑھنی چاہیے اور فلاں رسالہ بھی پڑھنا چاہیے

تدریس

قاری ادریس العاصم علیہ الرحمۃ کی وساطت سے ستیانہ بنگلہ میں مولانا عتیق اللّٰہ سلفی حفظہ اللہ کے زیر سایہ درس و تدریس کا مشغلہ اپنایا ، ہزاروں علماء و حفاظ اور قراء کو آپ سے شرف تلمذ حاصل ہے۔ شیخ الحدیث مولانا عبداللہ امجد چھتوی رحمہ اللّٰہ ، شیخ الحدیث مولانا عبدالغفار المدنی ، مولنا ابو نعمان بشیر صاحب ، عبدالرشید ضیاء صاحب ، ابو عبداللہ حافظ محمد شعیب صاحب ، مولانا ادریس اثری جیسے اساتذۃ العصر کی ہمراہی و رفاقت میں تدریسی فرائض سر انجام دیتے رہے
آپ شعبہ تجوید کے مدرس اور شعبہ تحفیظ القرآن کے سرپرست تھے ، علوم اسلامیہ کے شعبہ میں بھی آپ نے طویل عرصہ تدریس کے فرائض انجام دیے ، آپ کی علمی پختگی کا یہ عالم تھا کہ کبھی بھی کمزور بات نہ کیا کرتے تھے جامعہ کے بانی و مہتمم مولنا عتیق اللّٰہ سلفی صاحب حفظہ اللہ ایک مرتبہ دوران تدریس فارسی زبان کے کسی جملہ کو سمجھ نہ پائے تو آپ کی نظر انتخاب شیخ عبدالحمید خاکی صاحب پر جا ٹھہری کہ آپ ہی اس جملہ و ترکیب کی درست تفہیم کر سکتے ہیں چنانچہ فوراً آپ کی طرف رجوع کیا اور تسلی بخش جواب پا کر شیخ محترم کے لیے ڈھیروں دعائیں کی ،
استاذ گرامی ابو نعمان بشیر صاحب فرماتے ہیں فارسی لغت و ادب بارے مجھے جب بھی کوئی مشکل درپیش ہوئی تو میں نے عبدالحمید خاکی صاحب کی طرف رجوع کیا اور کبھی ان کی طرف سے مایوسی نہیں ہوئی بلکہ ہمیشہ تسلی بخش جوابات عنایت فرماتے ۔ جامعہ کے شیخ الحدیث مولانا ابو نعمان بشیر احمد صاحب حفظہ اللہ کو علم التجوید سیکھنے میں شیخ عبدالحمید خاکی صاحب سے شرف تلمذ حاصل ہے ،
آپ کی تدریس با کمال ہوتی تھی ، آج کل تدریس کے میدان میں موجود خامیوں سے پاک اور رائج الوقت تدریسی نقائص سے مبرأ تھے ، آپ کسی بھی کتاب کی تدریس کے لیے سب سے پہلے سبق کا خلاصہ اپنے الفاظ میں سمجھاتے ، پھر کتاب کی قرات کے دوران ہر ہر لفظ کی وضاحت کرتے ، لغوی دقائق ہوں یا فنی حقائق کوئی بھی اہم بات نظر انداز نہ کرتے ، لیکن اس سب کے باوجود جامع کلام کرتے ، حشو و تطویل سے کوسوں دور اور فضولیات سے بالکل مجتنب رہتے ، دوران درس موضوع سے ایک لحظہ بھی توجہ نہ ہٹاتے ، ہمیشہ موضوع پر ہی رہتے ، دوران سبق جس محدث ، مفسر ، امام و عالم کا نام آتا تو ان کا تذکرہ اچھے الفاظ میں کرتے حتیٰ کہ معاصر علماء کا ذکر بھی اچھے الفاظ میں کرتے تھے ، آپ کی تدریس کا مبارک طریقہ یہ تھا آپ سال کے آغاز میں ہی ساری کتابوں کو یومیہ تدریس کے حساب سے اسباق میں تقسیم کر لیتے اور پھر سارا سال اس کی پابندی کرتے ، کبھی ایسا دیکھنے میں نہیں آیا کہ آپ نے نصاب مکمل نہ کیا ہو یا نصاب مکمل کرنے کے لیے اضافی وقت لگایا ہو ، آپ انتہائی لمبی چوڑی بحث کو چند جملوں میں سمیٹ دیا کرتے تھے ، فقہ الحدیث پر کافی درک تھا اور اطراف الحدیث پر بصیرت رکھتے تھے ، اس کا اظہار کئی مرتبہ ہمارے سامنے ہوتا تھا مثلاً ایک مرتبہ جامعہ میں مجھے جمعہ پڑھانے کا موقع ملا ، دوسرا خطبہ ختم ہونے کو تھا ، اچانک دیکھا تو پتہ چلا وقت کے صرف چند سیکنڈز باقی رہ گئے ہیں میں نے درود ابراہیمی کے صلاۃ اور مبارکۃ والے الگ الگ پیرا گراف کو ملا کر پڑھ دیا ، جمعہ کے بعد میں خدمت میں حاضر ہوا تو فرمانے لگے جس طرح آپ نے خطبہ پڑھا ان الفاظ کے ساتھ ایک روایت بھی موجود ہے جو کہ علامہ البانی رحمہ اللّٰہ نے صفۃ الصلاۃ میں نسائی کے حوالے سے نقل کی ہے ، آپ کے بتائے ہوئے فوائد و درر آج بھی دوران تدریس بہت ممد و معاون ثابت ہوتے ہیں

مطالعہ اور طلب علم کی جستجو

شیخ محترم مولانا عبدالوحید خاکی صاحب رحمہ اللّٰہ مطالعہ بڑی ہی پابندی سے کرتے تھے ، آپ چونکہ خود دیکھ کر نہیں پڑھ سکتے اس لیے آپ طلبہ کو اپنے پاس بلاتے تھے کہ طلبہ کتاب کی قرات کریں اور آپ اس کو سماعت کریں ، آپ کے اس طرز عمل سے ہم جیسے طلبہ کو بہت فائدہ ہوتا تھا کہ جب ہم شیخ پر قرات کرتے تو جابجا ہماری راہنمائی کرتے ، غلطیوں کی اصلاح کرتے اور مطالعہ کرنے کا ہنر سکھاتے ، جلالین ، تفسیر ابن کثیر ، بلوغ المرام ، مشکاۃ المصابیح اور ان جیسی کئی کتب اور ان کے حاشیے کا معتد بہ حصہ اسی سسٹم کے تحت شیخ پر قرات کرنے کا موقع ملا ، عربی اور قوامیس و معاجم کو استعمال کرنے کے مختلف پہلو اسی مجلس کی برکت سے سیکھنے کو ، ترجمہ کرنے کا ڈھنگ آیا ، بعض اوقات یوں ہوتا کہ استاذ گرامی کے اردگرد تین چار مختلف کتب پکڑ کر بیٹھتے آپ کبھی کسی کو پڑھنے کا کہتے ، پھر اس کو روک کر دوسرے طالب علم کو پڑھنے کا کہتے ، حافظہ اتنا قوی تھا کہ پڑھنے والے طلبہ کو بعض اوقات غلطی لگ جاتی کہ کہاں سے پڑھنا ہے مگر آپ کو سب یاد ہوتا تھا
بہت سے طلبہ و مدرسین آنکھیں اور بینائی رکھنے کے باوجود شاید اتنی لگن سے مطالعہ نہ کرتے ہوں جیسی دلچسپی اور شوق سے آپ کتب کی ورق گردانی اور لیکچر کی تیاری میں عرق ریزی کرتے تھے بعض اوقات ایک چیز کے حل کے لیے دس دس کتب بھی دیکھنا پڑتیں تو ضرور دیکھتے ، تفسیر تو تفسیر تھی فقط ترجمہ قرآن کی تصحیح اور مناسب ترجمہ و محاورہ اور طلبہ کے لیے آسان اسلوب کو تلاش کرنے میں درجنوں تراجم کا مطالعہ کرتے ، الشیخ عطاء اللہ المدنی صاحب حفظہ اللہ جو شیخ محترم کے تلامذہ میں سے ہیں کچھ عرصہ مرکز علوم اسلامیہ ستیانہ بنگلہ میں تدریس کرتے رہے اور پھر جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ چلے گئے ابھی وہیں تشریف فرما ہیں اور علوم الحدیث میں ان کا دکتوراۃ چل رہا ہے ایک مرتبہ انہوں نے بتایا کہ شیخ محترم قاری عبدالحمید خاکی صاحب کے طرز پر ایک روز میں نے مطالعہ کیا تو رات کے دو بج گئے مگر شیخ محترم تو روزانہ اسی طرح کرتے ہیں کہ ایک ایک نکتہ سنجی کے لیے درجنوں اسفار و کتب کا مطالعہ فرماتے ہیں ، آپ نے مطالعہ کے مختلف کتب کے لیے الگ الگ وقت مقرر کر رکھا کہ کون سے وقت کون سی کتاب کا مطالعہ کیا جائے گا ، حتیٰ کہ چھٹی کے روز بھی مطالعہ کے لیے پہلے ہی سے کتب اور جماعتی رسائل و جرائد منتخب ہو چکے ہوتے تھے جن کا باقاعدگی سے مطالعہ ہوتا ، آپ کی ایک بڑی خاص عادت تھی جو مجھے کسی میں نظر نہیں آئی کہ جیسے طلبہ کلاس میں سبق پڑھنے کے بعد سبق کا مذاکرہ کرتے ہیں شیخ محترم بالکل اسی طرح جو سبق پڑھایا ہوتا تھا نماز ظہر کے بعد کسی طالب سے اس کا مذاکرہ کرنے کے بعد قیلولہ فرماتے تھے ، مطالعہ کے دوران ہر طرح کی تسلی کرنے کے بعد بھی جامعہ کے کبار اساتذہ سے بھی رائے دریافت کرتے ، مجھے اچھی طرح یاد جب شیخ محترم بلوغ المرام پڑھا رہے تھے تو روزانہ مجھے بلوغ المرام تھما کر بھیجنا حافظ شعیب صاحب حفظہ اللہ ، ابو نعمان بشیر صاحب حفظہ اللہ ، شیخ عبداللہ امجد چھتوی صاحب رحمہ اللّٰہ اور مولانا عبدالرشید ضیاء صاحب حفظہ اللہ ، کہ ان میں سے کوئی بھی مل جائے اس لفظ کی وضاحت دریافت کرنا ، فلاں مسئلے کے متعلق ان کی تحقیق معلوم کرنا ، ان سے فلاں عبارت کی تحلیل کے متعلق پوچھنا ۔ اس کے علاوہ شیخ محترم بعض اسباق کی آڈیو کیسٹ بھی سنتے حضرت شیخ عبداللہ امجد چھتوی رحمہ اللّٰہ کا مکمل دورہ تفسیر میموری کارڈ رکھتے اور وقتاً فوقتاً اس سے استفادہ کرتے رہتے ۔ طلبہ کو حدر پڑھانے کے لیے اپنے استاذ محترم قاری شریف صاحب کی تلاوت سماعت کرکے ایک طرح سے سبق کی تیاری کرتے ۔ بلکہ بعض اوقات اپنے طلبہ سے پوچھنے میں کوئی جھجک محسوس نہ کرتے ، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک مرتبہ خانہ کعبہ کے متعلق آپ کا مطالعہ جاری تھا ان دنوں استاد محترم کے ایک شاگرد قاری عبداللہ حسان بھائی بڈھی مالوی تشریف لائے جو فاضل مدینہ یونیورسٹی اور تاندلیانوالہ میں العقیق ایجوکیشنل سسٹم کے سربراہ ہیں ان سے آپ نے یہ دریافت کیا کہ آپ نے خانہ کعبہ دیکھا ہوا ہے مُجھے یہ بتائیں کہ حطیم واقعی چاند 🌙 کے ہالے کی مانند ہے انہوں نے اثبات میں جواب دیا کہ جی ہاں ایسا ہی ہے ۔
غرض یہ کہ آپ کا ذوق مطالعہ اور تحقیق کی جستجو لائق تحسین ، داد کی مستحق اور تقلید کے قابل تھی۔

تلامذہ

آپ کے تلامذہ میں حفاظ و قراء کی طویل فہرست اور علماء و اساتذۃ العلم کی لمبی قطاریں نظر آتی ہیں خود جامعہ کے مدیر و مہتمم کے آپ کے علم کے خوشہ چین اور جامعہ کے شیخ الحدیث کے تلمذ سے مشرف ہیں ، ستیانہ بنگلہ میں شعبہ تحفیظ القرآن کے صدر مدرس قاری اسماعیل صاحب اور علوم اسلامیہ کے غالباً تمام اساتذہ آپ کے شاگردوں میں شامل ہیں ، شعبہ علوم اسلامیہ میں تجوید کی تدریس میں قاری ظہور احمد صاحب نمایاں فرائض سر انجام دیتے ہیں بلکہ ہر سال ایک دو ماہ بعد از نماز سارے جامعہ کی تجوید کلاس لیتے ہیں اور آپ شیخ محترم قاری عبدالحمید خاکی صاحب کے ارشد تلامذہ میں شمار ہوتے ہیں ویسے تو تمام علوم اسلامیہ میں مہارت رکھتے اور تدریسی خدمات سر انجام دے رہے تھے مگر تجوید القرآن ، ابواب الصرف ، بلوغ المرام ، علم الصیغہ اور ترجمۃ القرآن آپ کے خاص اسباق ہوتے تھے ، خاکسار کو شیخ محترم سے ابواب الصرف ، بلوغ المرام کے چند اسباق اور سورت فاتحہ سے سورت توبہ کے آخر تک ترجمہ و تفسیر پڑھنے کا شرف حاصل ہے ۔

زہد و تقویٰ

آپ اللہ سے ڈرنے والے ، صوم و صلوٰۃ کے پابند ، ذکر و تلاوت کے عادی اور تہجد و اشراق اور دیگر عبادات و ریاضات پر کار بند تھے ، ٹانگ کی معذوری ، نظر کی محرومی اور سہارے کی مجبوی کے باوجود نماز پڑھنے کے لیے جماعت میں حاضر ہوتے تھے ، کسی بھی نماز کا وقت کب شروع ہو کر کب ختم ہو گا یہ سب آپ زبانی یاد رکھتے تھے ، وائس کلاک سے بار بار وقت معلوم کرتے جوں ہی نماز کا وقت قریب ہوتا تو وضو فرماتے ، عام طور پر ابھی نماز کا وقت داخل نہ ہوا ہوتا یا ابھی مؤذن نے صدائے بلالی بلند نہ کی ہوتی مگر آپ کے اللہ کے حضور حاضری دینے کے لیے باوضو ہو کر تیار ہو چکے ہوتے ، آپ ایک خاص قسم کی مسواک استعمال کرتے تھے اس ڈر سے کہ کہیں کسی نماز کے وقت مسواک رہ نہ جائے آپ کئی دنوں بلکہ کئی ہفتوں تک لیے مسواک پہلے ہی منگوا کر رکھ لیتے تھے ، کسر نفسی کا یہ عالم تھا کہ خود کو خاک کی طرف منسوب کرکے خاکی کہلاتے تھے

اخلاق و کردار

استاذ محترم مولانا عبدالوحید خاکی صاحب بڑے ہی اجلے کردار اور انتہائی نفیس طبیعت کے مالک تھے ، میرے علم کی حد تک آپ کا بڑا ہی اعلیٰ وصف یہ تھا کہ آپ نہ تو غیبت کرتے تھے اور نہ سنتے تھے ، دل لگی اور خوش طبعی ضرور پائی جاتی مگر جھوٹے قصے کہانیوں اور من گھڑٹ قصے کہانیوں اور فضول جگتوں سے کوسوں دور تھے ۔
معاملات میں شفافیت آپ کا خاصہ تھا طلبہ سے کوئی بھی چیز منگواتے تو اس کی قیمت ضرور ادا کرتے ، کسی کا بقایا رہ جاتا تو یاد سے اس کی ادائیگی فرماتے ، کسی سفر پر جاتے تو کسی طالب علم کو اجازت نہ دیتے کہ وہ آپ کے کرائے کی ادائیگی کرے ، بلکہ اکثر اوقات آپ سفر کے لیے گاڑی خود بک کرواتے اور علاقائی طلبہ کو فری میں ساتھ لے جاتے ،
سخاوت آپ پر غالب تھی ، صلہ رحمی آپ کا طرہ امتیاز تھا اور ہمدردی آپ کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی ، جب آپ کو جامعہ کی طرف سے راتب شھری موصول ہوتی تو اس کا کچھ نہ کچھ حصہ جامعہ میں جمع کرواتے ، کچھ حصہ اپنی بہنوں کو بھیجتے اور کچھ حصہ غریب طلبہ پر بھی خرچ کرتے یہ سارے کام استاد محترم کے حکم پر کئی مرتبہ میں نے خود سر انجام دیے ، خلیل الرحمٰن بھائی صوفی عائش صاحب رحمہ اللّٰہ کے جامعہ میں مدرس اور 38 گ ب میں امام و خطیب ہیں ان کا کہنا ہے کہ دوران تعلیم میرے مالی حالات کافی دگرگوں تھے جن اصحاب خیر کا تعاون مجھے حاصل تھا اور ان کی وجہ سے میری تعلیم مکمل ہوئی ان میں استاذ محترم مولانا عبدالوحید خاکی صاحب رحمہ اللّٰہ سر فہرست ہیں۔ طلبہ کو بعض اوقات استعمال کی چیزیں ہدیہ بھی کردیا کرتے تھے ، یہ ھدایا بعض کتب کی شکل میں بھی ہوتے تھے مثلاً ہمارے کلاس ضیاء الرحمان بھائی جو مرکز خیبر فیصل آباد میں مدرس ہیں جب انہوں نے پہلی مرتبہ بلوغ المرام پڑھائی تو ان کو ایک کتاب( تنویر الافہام مصنف جاوید اقبال سیالکوٹی صاحب حفظہ اللہ) ھدیہ میں دی کہ میں یہ کتاب پڑھ چکا ہوں شاید آپ کے کام آ جائے حالانکہ یہ کتاب اس وقت چھپنا بند ہو چکی تھی ، مجھ فقیر کو کئی کتب تحفۃ عنایت فرمائیں مثلاً جب بخاری کلاس میں پہنچے تو مفتی اللّٰہ بخش صاحب کی کتاب ما يفيد الناس في شرح قال بعض الناس ہدیہ کی اور مطالعہ کرنے کی تاکید کی ۔
آپ کے اوصاف عالیہ میں وقت پابندی بھی شامل تھی ، نہ نماز میں لیٹ ہوتے ، نہ اسباق میں پہنچنے میں تاخیر کرتے ، کھانے پینے کا شیڈول مرتب ہوتا اس سے ہٹ کر نہ کھاتے پیتے تھے ، شیخ عبد الشکور شاہ اثری صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کے بعد اذان کے وقت کا خیال رکھتے تھے ، بعض اوقات مؤذن چند سیکنڈز بھی تقدیم و تاخیر کردیتا تو نماز کے بعد اسے اپنے پاس بلالیتے اور اصلاح و تنبیہ فرماتے ، آپ چند روز بعد اپنی گھڑی دے کر کسی طالب علم کو بھیجتے اور جامعہ کی تمام گھڑیوں کا وقت درست کرواتے کہ چند روز گزر جانے کے بعد کہیں چند سیکنڈز کا فرق نہ آ گیا ہو ، حالات حاضرہ سے پوری واقفیت رکھتے اور روزانہ ریڈیو پر خبریں سماعت کرتے لیکن سیاسی تعصب اور پارٹی بازی تو شاید آپ کے حاشیہ خیال میں بھی نہ گزرا ہو ، اور ریڈیو ہی کے ذریعہ اپنی گھڑی کا وقت درست کرتے اور پھر جامعہ کی تمام گھڑیوں کا وقت درست کرواتے جب تک لاٹھی کے سہارے چلنے کے قابل رہے کبھی بھی صبح کی سیر اور ہلکی پھلکی ورزش ترک نہ کی حتیٰ کہ بیماری نے چیئر پر پہنچا چھوڑا ، کلاس کو بڑے منظم انداز سے کنٹرول کرتے تھے حتیٰ کہ ایک مرتبہ شیخ عبداللہ امجد چھتوی رحمہ اللّٰہ نے فرمایا ہم آنکھوں والے کلاس کو اتنا کنٹرول نہیں کر پاتے جتنا شیخ عبدالحمید خاکی صاحب کرتے ہیں
آپ کی زندگی کا ایک انتہائی اہم پہلو صبر و شکر ہے دنیا کی طلب و حرص کا شائبہ تک نہیں نظر آتا تھا آپ میں ، جو کچھ بھی ملا اسی پر رب کریم کا شکر ادا کیا اگر دیا ہوا چھن گیا تو پھر بھی اللّٰہ تعالیٰ کا شکر ہی ادا کیا ،
آپ کبھی بھی لوگوں کے نامناسب رویے ، غیر اخلاقی تعاملات اور معاہدوں کی عدم پاسداری اور کئی لوگوں کی طرف سے بدتمیزی پر بھی اپنی زبان پر حرف شکایت نہیں لائے ، صبر کے پیکر اور شکر کے مجسم تھے ، انتقام نام کی کسی چیز سے واقف نہیں تھے
شاید یہ ہی وجہ تھی کہ اللہ نے لوگوں کے دلوں میں آپ کی محبت و الفت اور قبولیت رکھی ہوئی تھی ، لوگ آپ کا کھانا پکانا اپنے لیے شرف سمجھتے تھے ، اپنے انتہائی اہم معاملات میں آپ سے مشاورت کرتے تھے جامعہ کے فضلاء میں سے جو بھی جامعہ آتا وہ استاد محترم سے ملنا اپنی سعادت سمجھتا تھا ، آپ رازدانوں کے رازدان تھے کبھی کسی کا راز فاش نہیں کرتے تھے ، وفا شعار اس قدر تھے کہ جب تدریس کے لیے ستیانہ بنگلہ تشریف لائے تو مولانا عتیق اللّٰہ سلفی صاحب حفظہ اللہ نے فرمایا کہ قاری صاحب ساری زندگی کے لیے ہمارے پاس آ جائیں آپ کا یہاں سے جنازہ ہی جانا چاہیے آپ نے نہیں جانا ، پھر اسی طرح ہوا کہ قاری صاحب ستیانہ سے اسی وقت گئے جب آپ پر فالج کا اٹیک ہوا اور پھر اس اٹیک سے جانبر نہ ہو سکے ۔ حتیٰ کہ اللہ کے حضور پنچ گئے

بیماری اور وفات

شیخ محترم قاری عبدالحمید خاکی صاحب تادمِ زیست مرکز علوم اسلامیہ ستیانہ بنگلہ سے وابستہ رہے ، رمضان المبارک کی مبارک گھڑیوں میں آپ پر فالج کا اٹیک ہوا ، آپ کے علاج معالجہ کے لیے ہر ممکن کوشش کی گئی ، آپ کے اقرباء اور تلامذہ آپ کی خدمت میں مصروف عمل رہے خصوصاً قاری حبیب الرحمٰن عاصم صاحب ، محترم حافظ ابو مرثد صاحب وغیرہ کا کردار ناقابل فراموش ہے کہ جنہوں نے آپ کی خدمت ذرہ برابر دقیقہ فروگزاشت نہ رکھا ستیانہ بنگلہ ، فیصل آباد ، گوجرانوالہ اور لاہور کے کئی ہسپتالوں میں آپ زیر علاج رہے اور پھر آخر کار 19 مئی 2024ء بروز اتوار سورج ڈھلتے ہی یہ علم و عمل کا آفتاب ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا ۔۔
سوگوار
آپ نے بیماری کے باعث ساری زندگی بغیر شادی کے گزاردی اسی لیے آپ کے بہن بھائیوں اور ان کی اولاد کے سوا آپ کے اپنے اہل خانہ اور صلبی اولاد کوئی نہیں ہے لیکن علماء ومشائخ قراء و اساتذہ اور طلبہ و مخلوق خدا کا ایک جم غفیر چھوڑا ہے جو ہمیشہ آپ کے لیے دعا گو رہے ۔
ماپے تینوں گھٹ رون گے
بوہتا رون گے دلاں دے جانی
میں نے آپ کی وفات کی خبر آنے پر اساتذہ و مشائخ کو روتے دیکھا ہے اور طلبہ کی ہچکیاں بندھتی دیکھی ہیں جو سب گواہی دے رہے ہیں کہ مولا یہ تیرا بے ضرر ، تقوی و ورع کی چٹان ، صبر و استقامت کا پیکر علم و حلم کا سمندر آج تیرے پاس جو پہنچ چکا ہم اس سے راضی ہیں تو بھی اس سے راضی ہوجا ہم اس کی جدائی پر دل رنجیدہ ہیں یہ اپنے سے بچھڑ چکا ہے تو اس کو بہترین ساتھی عطا فرما اور اس سے درگزر فرمانا بشری لغزشوں کو معاف فرمانا حسنات کو شرف قبولیت بخشنا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ کا ساتھ نصیب فرمانا کہ ساری زندگی جس نبی کی غلامی کی اور جس کی میراث کی خاطر تیرے در کی نوکری کی ۔
استاذ محترم کوئی سوشل میڈیا کے آدمی نہ تھے ، نہ ہی آپ کے بیانات نشر ہونے کا کوئی پلیٹ فارم تھا ساری زندگی گمنام ہی رہے گمنامی میں ہی دنیا سے چلے گئے ، اور اللہ کے محبوب بندوں کی یہ نشانی ہے کہ وہ نمود و نمائش سے دور رہتے ہیں
جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

إنَّ اللَّهَ يُحِبُّ العَبْدَ التَّقِيَّ، الغَنِيَّ، الخَفِيَّ.

(صحیح مسلم 2965 عن سعد بن أبي وقاص) .

ابو الحسن عمر فاروق بن مظفر اقبال

یہ بھی پڑھیں: برائیوں پر تنقید اور نیتوں کا معاملہ