سوال (2825)
فقھاء کرام کا مؤقف ہے کہ پورے جسم پر پانی بھانے سے اور کلی اور ناک جھاڑنے سے غسل ہو جاتا ہے، اس مؤقف کی کوئی دلیل ہے؟
جواب
دلیل غسل کا مطلق حکم ہے، باقی مرفوع فعلی حدیث سے جو کامل طریقہ غسل مروی ہے، وہ طریقہ بعینہ فرض نہیں ہے، کیونکہ فقط نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے وجوب ثابت نہیں ہوتا ہے، جیسا کہ کتب اصولِ فقہ میں یہ اصول معروف ہے اور اسی اصول کی طرف امام شافعی رحمہ اللہ نے اشارہ دیا ہے:
وقال الشافعي في الأم: فرض الله تعالى الغسل مطلقاً، ولم يذكر فيه شيئاً يبدأ به قبل شيء، فكيفما ما جاء به المغتسل أجزأه إذا أتى الغسل على جميع بدنه۔
والله اعلم
فضیلۃ العالم فہد انصاری حفظہ اللہ
[صحيح البخاري : 254]
“أما أنا فأفيض على رأسي ثلاثا وأشار بيديه كلتيهما”
[صحيح مسلم : 741]
“أفرغ على رأسي ثلاثا”
[صحيح مسلم : 740]
أفيض على رأسي ثلاث أكف
[سنن أبي داود : 239]
أما أنا فأفيض على رأسي ثلاثا وأشار بيديه كلتيهما
[سنن النسائى الصغرى : 425]
أما أنا فأفرغ على رأسي ثلاثا
[سنن النسائى الصغرى : 251]
أما أنا فأفيض على رأسي ثلاث أكف
[سنن ابن ماجه : 575]
أما أنا فأفيض على رأسي ثلاث أكف
میرے خیال میں یہ احادیث دلیل بھی بن سکتی ہیں اس مؤقف کی کیونکہ اس میں صرف جسم پر پانی بہانے کا ذکر ہے۔
فضیلۃ الباحث حافظ شہریار بن آصف حفظہ اللہ
بارك الله فيكم
یہ تو اہل علم جانتے ہیں کہ عدم ذکر سے نفی ذکر لازم نہیں آتا ہے۔ ایک ہی مسئلہ کی جمیع احادیث و ادلہ کو جمع کرنے پر ہی کسی بھی مسئلہ کی توضیح و حقیقت و صائب تک پہنچا جا سکتا ہے، جیسے قرآن کریم قرآن کی تفسیر و تشریح بیان کرتا ہے، ایسے ہی حدیث صحیح، حدیث کی تفسیر و تشریح کرتی ہے۔
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ