سوال (5007)

ملوکیت، جمہوریت اور خلافت میں کیا فرق ہے؟

جواب

تعریفات میں اختلاف ہو سکتا ہے، البتہ خلافت وہ نظام ہے جو شرعاً مطلوب و مقصود ہے، ایک خلیفہ یا امیر ہو، تمام مسلمان اس کے ہاتھ پر بیعت کریں، وہ قرآن و حدیث کے مطابق قیادت کرے ، خلافت کے قریب ترین معاملہ ملوکیت کا ہے، کیونکہ بعض روایات میں خلافت کے بعد ملوکیت کا ذکر ہے، اس کی مدح بھی کی گئی ہے، ملکیت جو کتاب و سنت کی تابع ہوگی، وہ نظام کتاب و سنت کے درمیان ہو گا، وہ بھی قابل قبول ہے، سمجھانے کے لیے کہا گیا ہے کہ ملوکیت کو تھوڑا بہت سنوار لیا جائے تو خلافت بن جاتی ہے، باقی جمہوریت میں اللہ تعالیٰ کا کوئی تصور نہیں ہے، “لوگوں کے لیے لوگوں کی حکومت لوگوں پر” باقی یہ بات الگ ہے کہ حکمران کیسے آیا ہے، اس کی اطاعت کرنی ہے یا نہیں، وہ ہمیں کتاب اللہ کے مطابق لے کر چل رہا ہے یا نہیں، اس پر بھی سوچنے کی ضرورت ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

سائل: اس طرح تو جمہوریت کفر و شرک کا نظام ہے جو پاکستان میں قائم ہے؟
جواب: اس میں اتفاق ہے کہ یہ اسلامی نظام نہیں ہے، یہ الگ بات ہے کہ ہم نے جمہوریت کو کلمہ پڑھا دیا ہے، جیسا کہ میزان بینک والوں نے میزان بینک کو کلمہ پڑھا دیا ہے، جمہوریت کی تعریف میں اللہ تعالیٰ کا ذکر ہی نہیں ہے، اس میں ایک چمار اور مسلم کے ووٹ کو ایک ہی شمار کیا جاتا ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

سائل: تو کیا نظام کی تبدیلی کے لیے کچھ نہیں کیا جا سکتا ہے؟
جواب: وعظ اور عمل صالحہ ہم سے مطلوب ہیں، یہ جذباتی باتیں ہوتی ہیں کہ تحریک بپا کریں، تختہ الٹا کریں، خروج اور بغاوت نہیں ہے، جب تک ہمیں اللہ تعالیٰ کی کتاب اور شریعت کے خلاف نہ اکسائے، ہمیں سننے اور اطاعت کی نصیحت کی گئی ہے، حکمران جیسے بھی ہوں، بغاوت نہیں ہونی چاہیے، جو چیز مطلوب ہے، اس طرف توجہ دینی چاہیے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

سائل: اس طرح ہم بھی کفر و شرک میں جا رہے ہیں؟
جواب: ہم جس ماحول میں رہ رہے ہیں، اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس ماحول سے محفوظ کیا ہوا ہے، ہمارے لیے دعوت کا دروازہ کھولا ہوا ہے، ہم توحید کو توحید کہہ سکتے ہیں، شرک کو شرک کہہ سکتے ہیں، عمل کر سکتے ہیں، البتہ الحمد للہ عمل ہو رہا ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ