ملتزم؛ بیت اللہ سے چمٹ کر دعا کرنا
مُلتزَم سے مراد کعبۃ اللہ کے دروازے اور حجرِ اَسود کا درمیانی حصہ ہے، اسے ملتزَم اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہاں چمٹ کر دعائیں کی جاتی ہیں۔ (المصباح المنير، لزم : ٢/ ٥٥٢، لسان العرب : ١٢/ ٥٤١)
یہ عمل مشروع و مستحب ہے، مرفوع احادیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت بھی مروی ہے ۔ جیسا کہ عمرو بن شعیب اپنے والد (شعیب بن محمد بن عبداللہ بن عمرو) سے بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کے ساتھ طواف کیا۔جب ہم کعبہ کے پیچھے کی جانب آئے تو میں نے کہا: کیا آپ تعوذ نہیں کرتے؟ انہوں نے فرمایا : ہم جہنم سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں۔ اور چلتے ہوئے آ کر حجر اسود کا استلام کیا، پھر حجر اسود اور دروازے کے درمیان رک کر اپنا سینے، چہرے اور کلائیوں اور ہاتھوں کو اس طرح خوب پھیلا کر کعبہ کے ساتھ لگا لیا۔ پھر فرمایا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو اس طرح کرتے دیکھا ہے۔ (سنن ابی داود : ١٨٩٩، وانظر مصنف عبد الرزاق ،ط التأصيل : ٩٣٦٤)
یہ روایت ایک سے زائد اَسانید سے مروی ہے جن میں ضعف پایا جاتا ہے البتہ بعض اہلِ علم نے تعددِ طرق کی بنیاد پر اسے ’’حسن لغیرہ‘‘ قرار دیا ہے۔ (سلسلة الأحاديث الصحيحة : ٢١٣٨، الجامع الكامل للأعظمي :٥/ ١٧٧)
یہ عمل سلف صالحین سے بھی مروی ہے جیسا کہ
⇚ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :
’’بیت اللہ کے دروازے اور حجرِ اَسود کے درمیان ملتزم (چمٹنے کی جگہ) ہے۔‘‘ (مصنف عبد الرزاق : ٩٣٦٧، ط التأصيل الثانية وسنده صحیح، مصنف ابن أبي شيبة : ٣/ ٢٣٦)
⇚ابو زبیر بیان کرتے ہیں : میں نے عبد اللہ بن عمر، عبد اللہ بن عباس اور عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم کو دیکھا وہ بیت اللہ سے التزام (جسم لگایا) کرتے تھے۔ (أخبار مكة الفاكهي : ٢٣٣ وحسن سنده المحقق)
⇚سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : ’’کعبہ کے دروازے اور حجرِ اَسود کے درمیان جو بندہ بھی کھڑا ہو کر اللہ تعالیٰ سے کسی چیز کا سوال کرتا ہے وہ اپنی ضرورت کے متعلق جو پسند کرتا ہے پا لے گا۔‘‘ (أيضا : ٢٣٠ وحسن سنده المحقق)
⇚ معمر بن راشد بیان کرتے ہیں : ’’میں نے ایوب سختیانی رحمہ اللہ کو دیکھا، انہوں نے اپنے سینے اور ہاتھ کو بیت اللہ سے لگایا ہوا تھا۔‘‘ (مصنف عبد الرزاق : ٩٣٦٢ وسنده صحیح)
⇚ہشام بن عروہ بیان کرتے ہیں کہ ’’عروہ بن زبیر رحمہ اللہ اپنے ہاتھ، سینے اور پیٹ کو بیت اللہ سے لگایا کرتے تھے۔‘‘ (مصنف عبد الرزاق : ٩٣٦٨ وسنده صحیح)
⇚مکحول رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’میں رُکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان بیت اللہ سے التزام کرتا ہوں اور اللہ تعالی کی پناہ مانگتا ہوں۔‘‘ (مصنف عبد الرزاق : ٩٣٦٦ وسنده صحیح)
⇚امام مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’حجر اسود اور بیت اللہ کے دروازے کے درمیان ملتزم ہے۔‘‘ (أخبار مكة : ٢١٨ وحسن سنده المحقق)
⇚نیز بیان کرتے ہیں:
’’میں عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے ایک آیت کا معنی پوچھنے گیا تو وہ حجر اسود اور بیت اللہ کے دروازے کے درمیان پناہِ الہی کا سوال کر رہے تھے۔‘‘ (أيضا : ٢١٩ وصحح سنده المحقق)
⇚نیز فرماتے ہیں :
’’سلف، بابِ کعبہ اور حجرِ اَسود کے درمیان التزام کرتے اور دعائیں کرتے تھے۔‘‘
(مصنف ابن أبي شيبة : ٣/ ٢٣٦ ورجاله ثقات)
⇚ابو روّاد بیان کرتے ہیں : ’’ہم خراسان سے نکلے، قافلے میں ہمارے ساتھ ایک خاتون بھی تھی، حرمِ مکی میں داخل ہوتے ہی پوچھنے لگی : میرے رب کا گھر کدھر ہے؟ میرے رب کا گھر کدھر ہے؟ بتایا گیا : ابھی تیرے سامنے رب کا گھر آئے گا۔ مسجد میں داخل ہوئی تو کہا گیا : یہ ہے تیرے رب کا گھر! کعبہ کے ساتھ جا کر چمٹ گئی، اپنا رُخسار بیت اللہ سے چپکایا، زار وقطار روتی رہی اور اسی حالت میں فوت ہو گئی۔‘‘
(أخبار مكة : ٢٣٦ وحسن سنده محقق الكتاب)
⇚سعید بن جبیر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
’’میں نے اہلِ بصرہ میں سے بیت اللہ کے ساتھ یوں حریص کسی کو نہیں دیکھا، میں نے دیکھا کہ ایک عورت آئی، ملتزَم پر چمٹ گئی، رو رو کر دعائیں کرنے لگی یہاں تک کہ فوت ہو گئی۔‘‘ (أيضا : ٢٣٧ وقال المحقق : سنده صحیح)
⇚طارق بن عبد الرحمن بیان کرتے ہیں: ’’میں نے علی بن الحسین رحمہ اللہ کی معیت میں طواف کیا، جب طواف سے فارغ ہوئے تو اپنا اَزار نیچے کر کے پیٹ ننگا کیا پھر اسے حجر اَسود اور بیت اللہ کے دروازے کے درمیان (ملتزم) پر لگا دیا۔‘‘ (أيضا : ٢٤٢ وحسن سنده المحقق)
⇚حنظلہ بیان کرتے ہیں :
’’میں نے سالم، عطاء اور طاوس رحمہم اللہ کو دیکھا ہے کہ وہ حجرِ اَسود اور بیت اللہ کے دروازے کے درمیان التزام کیا کرتے تھے۔‘‘
(مصنف ابن أبي شيبة : ٣/ ٢٣٦ وسنده صحیح)
⇚امام شافعی رحمہ اللہ (٢٠٤هـ) فرماتے ہیں :
’’میں پسند کرتا ہوں کہ بندہ جب بیت اللہ کو الوداع کرے تو ملتزم پر کھڑا ہو۔‘‘ (الأم : ٢/ ٢٤٢)
⇚شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (٧٢٨هـ) فرماتے ہیں :
’’اگر چاہے تو ملتزم جو کہ کعبۃ اللہ کے دروازے اور حجرِ اَسود کے مابین ہے اس پر آئے، اپنا سینہ، چہرہ، بازو اور ہتھیلیاں ساتھ لگا کر دعا کرے اور اللہ تعالی سے اپنی ضروریات کے متعلق سوال کرے۔‘‘ (مجموع الفتاوى : ٢٦/ ١٤٢)
⇚شیخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ (١٤٢١هـ) فرماتے ہیں :
’’اس اعتبار سے اگر اَذیت تنگی نہ ہو تو اِلتزام کرنے میں کوئی حرج نہیں۔‘‘ (الشرح الممتع : ٧/ ٤٠٣)
⇚شیخ البانی رحمہ اللہ (١٤٢٠هـ) فرماتے ہیں :
’’بندے کے لیے جائز ہے کہ حجرِ اَسود اور بیت اللہ کے دروازے کے درمیان التزام کرے اور اپنے سینے، چہرے اور بازو کو اُس پر رکھے۔‘‘ (مناسك الحج والعمرة، ص: ٢٢)
⇚مذاہبِ اربعہ میں بھی اس کے استحباب کا قول اختیار کیا گیا ہے ۔
⇚علامہ موفق الدین ابن قدامہ رحمہ اللہ (٦٢٠هـ) فرماتے ہیں :
’’بیت اللہ کو الوداع کرنے والے کے لیے ملتزم پر کھڑا ہو مستحب ہے۔‘‘ (المغني : ٥/ ٣٤٢)
⇚علامہ شہاب الدین قرافی رحمہ اللہ (٦٨٤هـ) نقل کرتے ہیں :
’’جب بندہ طواف و دعا سے فارغ ہو تو اس کے لیے ملتزم پر دعا کے لیے وقوف کرنا مستحب ہے، امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس میں وسعت ہے ۔‘‘ (الذخيرة : ٣/ ٢٤٧)
مزید دیکھئے : (حاشية رد المحتار لابن عابدين : ٢/ ٢٩٩، مواهب الجليل للحطاب : ٣/ ١١٢، التنبيه للشيرازي، ص: ٢٤٤، الكافي لابن قدامة : ١/ ٤٥٥ وغيره)
✿۔ حاصلِ کلام یہ ہے کہ ملتزَم پر التزام و دعا مستحب ومشروع عمل ہے۔ والله أعلم.
حافظ محمد طاھر
یہ بھی پڑھیں: پندرہویں شعبان اور محدث البانی رحمہ اللہ کا موقف