اہل ملت کو معلوم ہو کہ کسی بھی عربی یا عجمی مدرسے کا پڑھا ہوا جو مطلقًا جہاد قدس کے خلاف بولتا ہے، یا علم کے باوجود مدخلی فرقے سے تعلق رکھتا ہے اور اس موقع پر یہود اور ظالم کفار سے جہاد کے بیان کی بجائے علمائے حق پر طعن کرتا ہے مثلا سلیمان رحیلی (جو مسلسل حُرمت شاہی کا دفاع اور حِیَل اور تاویلات باطلہ سے جہاد قدس کو ناممکن بنا رہا اور دفاع قدس کے لیے کسی بھی جانے والے کے جہاد کو دفاعی ماننے سے انکار اور العلامۃ المحدث الطریفی جیسے کبار پر طعن کرتا ہے) اور سالم طویل جو اسی قماش کا ہے۔
جو اذن حاکم (مثل موجودہ) کے بغیر شاتمین رسول کے بائیکاٹ کا بھی مخالف ہے، اور قدس میں نماز پڑھنے کے جذبے کی بھی تحقیر کرتا ہے، اور یہ محض چند ایک ہیں جو “ظل شاہی” کی وجہ سے جری ہیں، اور اسی طرح ہندوستانی صِغار مدخلی مثل اجمل منظور اور اس کا ٹولہ ، جن کی زبانیں اس وقت بھی یہود انجاس اور اسرائیل کی جنگی حمایت کرنے والے مُودی سے زیادہ مودودی اور عرب و عجم کے علمائے اہلحدیث پر دراز ہیں، جو تین سیکنڈ میں اہلسنت کے کسی عالم کو خارجی اور جہنم کا کُتا کہ دیتے ہیں، اور جو اپنے خلیفہ ایم بی ایس کے الحاد اور فسق کا دفاع شعائر اللہ کے دفاع سے کہیں زیادہ کررہے ہیں، میں ان سب مذکور کو دیانتًا وامانتًا اور شرعًا، نہ کہ محض غضبًا، مُنافق کہتا اور سمجھتا ہو اور اسی طرح کسی بھی فاسق مسلمان کی طرف سے علامات نفاق اکبر بالتکرار ظاہر ہونے پر اُسے باعتبارِ ظاہر منافق کہنا جائز بلکہ بعض صورتوں میں واجب سمجھتا ہوں اور اہل ملت سے بھی درخواست کرتا ہوں کہ ان منافقین کو پہچانیں اور اپنے دین اور جہاد فی سبیل اللہ کے بارے میں ان کی کسی تلبیس کا شکار نہ ہوں۔
البتہ منافق کہنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ یہ باطناً بھی منافق یا ملت اسلامیہ سے خارج ہوچُکے ہیں۔ مزید برآں یہ کہ اس قبیل کے مسلمانوں کو منافق کہنے پر متقدمین کے علاوہ علامہ سلیمان بن عبد اللہ آل شیخ، شیخ صالح الفوزان اور شیخ عبد اللہ جبرین حفظھم اللہ تعالی اجمعین اور دیگر علماء کے صریح فتاوی موجود ہیں، جن کی بنیاد نصوص وحیین ہیں۔ لہذا جس کسی کو ہمارے ان درباری مُلاؤوں کو جو اس موقع پر، جب کہ UNICEF کے مطابق ہر دس منٹ میں ایک فلسطینی بچہ شہید ہورہا ہے، منافق کہنے پر اعتراض ہے وہ تحمل اور دلیل سے بات کرے، تو سمجھائیں گے ان شاء اللہ۔ اور اگر مقصود صرف فیس بُک پر جگہ جگہ لفظی گُلکاریوں کے ذریعے میری ذات کو مطعون کرنا ہے تو جاری رکھیں۔
الحاد ایک قرانی اصطلاح ہے، قال اللہ تعالی (ومن يرد فيه بالحاد بظلم نذقه من عذاب اليم)، اور مدخلیوں کا خليفہ سرزمینِ حجاز میں رب العالمین کے استھزاء کا سبب بننے سمیت کئی طرح کے الحاد کا مرتکب ہوا ہے۔ اگر کسی کو اختلاف ہے تو ادب و استفہام کے اصولوں کے مطابق سوال کرے، ان شاء اللہ دلیل کے ساتھ جواب دیا جائے گا۔ اور اگر سستی فتوے بازی کا شوق ہے تو جاری رکھیں۔
کُل عالم کے فرقہ مدخلیہ کو دعوت ہے کہ مندرجہ ذیل اُمور پر کتاب و سُنت کی روشنی میں، تمیز کے ساتھ، عربی ، انگریزی یا اُردو، جس زبان میں چاہیں گفتگو کرلیں۔ جس میں آئیں بائیں شائیں نہیں صرف نصوص شرعیہ کی روشنی میں بات ہوگی یا اُن کی تفہیم کے ضمن میں جہاں ضروری ہوا، فہم سلف پیش کیا جائے گا۔ البتہ اختلاف کی صورت میں مرجع صرف علم وحی ہوگا، قال اللہ تعالی
( یا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنوا أَطيعُوا اللَّهَ وَأَطيعُوا الرَّسولَ وَأُولِي الأَمرِ مِنكُم فَإِن تَنازَعتُم في شَيءٍ فَرُدّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسولِ إِن كُنتُم تُؤمِنونَ بِاللَّهِ وَاليَومِ الآخِرِ ذلِكَ خَيرٌ وَأَحسَنُ تَأويلًا﴾ [النساء: ٥٩]۔
وہ اُمور یہ ہیں:-
1. اس وقت قدس اور اہل قدس کا یہو د کے مقابلے میں دفاع ایک عظیم واجب ہے جو کسی شرط کا پابند نہیں، بلکہ بالعموم جہاد دفاعی کے جواز کو کسی شرط کے ساتھ مُعلّق کرنا جہل اور ضلال ہے۔
2. جہاد قدس کو ترک کرکے عین اس موقع پر عالمی میلہ فحاشی اور ملاھی منعقد کرنے والا ایم بی ایس اور اس کے نقش قدم پر چلنے والا ہر حکمران شریعت کی رُو سے بدترین مُجرم ہے۔
مندرجہ بالا امور میرا دو ٹوک موقف ہیں۔ جس مدخلی کو ان سے اختلاف ہے، دلیل کے ساتھ میدان میں آجائے، لیکن بات مُعین اور واقع فلسطین کے تناظر میں ہوگی۔ ایسے نہیں جیسے کل رات ایک ہندوستانی مدخلی نے کتابی اصطلاحات اور ہوائی فلسفے مثلا “دفع اور طلب میں فرق”، “دفع کی شرائط”، “حاکم پر انکار ناجائز” چھوڑیں اور جب میں نے کہا کہ آجاؤ ان ہی اصطلاحات کی شرعی تطبیق جہاد فلسطین اور تمہارے منافق خلیفے پر کرتے ہیں تاکہ معلوم ہوجائے کہ جاہل کون ہے اور علم کے ساتھ بات کون کررہا ہے، تو چار گھنٹے ادھر اُدھر کی ہانکتا رہا لیکن قضیہ مُعینہ پر گفتگو کرنے کی جرات نہ ہوئی۔ جس کا جی چاہے اس پوری بحث کو دیکھ سکتا ہے۔ اس سے اُن بیوقوفوں کو بھی سبق حاصل ہونا چاہیے جو ان مداخلہ کی منھج وغیرہ پر طویل صحافیانہ تحریروں سے متاثر ہوجاتے ہیں، جبکہ فقہ اور اصول وغیرہ کی کتابوں سے نقل کرکے اپنے نام سے مبنی بر جہل غیر منضبط مضمون چھاپ دینا اور پھر دوسروں پر طعن کرنا ہر دوسرا نیم مولوی کرسکتا ہے۔ بلکہ یہ عام چلن ہے کہ دنیاوی یونیورسٹیوں سے نئے فارغ ہونے والے بھی نوکری کی تلاش میں جب اپنا CV تشکیل دیتے ہیں تو کسی عملی اور حقیقی کاوش یا تحقیق کی بجائے درسی کتابوں سے اصطلاحات ہی چھاپ رہے ہوتے ہیں۔ اس وقت بھی بعض دیسی نیم مدخلی نیم خواندہ مولوی میری تحریر پر “تاصیل نہیں جی”، “اخلاق رحیلی کا اچھا” وغیرہ جیسے تبصرے “قاضی نور حسین” بن کے کررہے ہیں، اور جب میں کہوں گا کہ کس نکتے کی تاصیل نہیں؟ اور کہاں شرعی ضابطہ اخلاق چھوڑا؟ جانتے بھی ہو تاصیل کسے کہتے ہیں؟ آؤ مُعین بات کرو تو بھاگ جائیں گے۔ یہی ہر علمی مُفلس اور لوگوں کو علمیت کے نام پر دھوکہ دینے والا جعلساز کرتا ہے۔ اس لیے عرض ہے کہ دفع و طلب، ان کی شرائط، فسق حاکم اور نکیر حاکم جیسے موضوعات پر فقہی تاصیل کے ساتھ ساتھ معین مسائل پر تطبیق ہوگی، ہوائی بات کرکے اور یہاں وہاں کے اقوال نقل کرکے بھاگنے نہیں دوں گا۔ میں اگر کسی کو منافق اور غالی مبتدع کہتا ہوں تو دلیل دوں گا۔ تم اگر کسی کو اخوانی یا خارجی کہتے ہو تو جس بنا پر کہا اس پر دلیل شرعی دو گے تاکہ تمہارا شر بے نقاب ہو۔ عرض مسلم اور حرمت مسلم کوئی مذاق نہیں کہ جب جی چاہے تمہارا کوئی مدخلی شیخ یا لونڈا اُٹھ کر کسی کو گمراہ کہ دے۔
ہاں میں سخت زبان رکھتا ہوں اُن کے لیے جو احکام شریعت اور جہاد شرعی کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں، جانتے بوجھتے عوام کو گُمراہ کرتے ہیں، اور ایسے منافقین جن کا شر اللہ ذو الجلال کی بے حرمتی تک اور اُمت مسلمہ کی خوں ریزی پر ظلم و شقاوت تک پھیل جائے ان پر سختی کرنا قران کی رُو سے واجب سمجھتا ہوں۔ قال اللہ تعالی (جاھد الکفار والمنافقین واغلظ علیھم)۔ اگر میں کسی مقام پر غلط ہوں تو دلیل کے ساتھ واضح کرو کہ یہ سختی نہیں نرمی کا محل تھا۔ شریعت نے نرمی اور سختی دونوں کا محل منتخب کیا ہے۔ فیصلہ شریعت سے ہوگا تمہارے یا میرے مزاج سے نہیں۔ اور الحمد للہ تعالی مکارم اخلاق مدخلیوں سے بہتر سمجھتا ہوں، اور یہ بھی جانتا ہوں کہ منافق جب بے نقاب ہونے لگتا ہے تو میٹھے اخلاق کی ہی دہائیاں دیتا ہے۔
~یہ دیکھیے کہ نوف بکالی ، جو تابعین کبار میں سے ہیں، ایک صالح خطیب ہیں، کسی تقریر میں لا پرواہی سے کہ دیا کہ وہ موسی جو علم کے لیے گئے تھے وہ بنو اسرائیل کے موسی (علیہ الصلاۃ والسلام) نہیں تھے۔ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کو معلوم ہوا تو کہا (کذب عدو اللہ)، “اللہ کے دُشمن نے جھوٹ بولا”،، تو کیا اسے اس موقع پر گالی کہا جائے گا یا صحابہ کرام کی دینی حمیت جس نے باذن اللہ تعالی دین کو تحریفات سے محفوظ رکھا؟ آج کوئی اُٹھ کر استھزاء باللہ اور خوں ریزی مسلم کو سند طاعت کے ذریعے اور منھج کے نام پر رائج کرنا چاہے تو ہم کیا اُسے میڈل دیں؟؟پھر میں نے جو الفاظ نقل کیے (وسخ، لص) یہ سلف صالحین کے آثار سے نقل کیے جو ایسے ہی ملاؤوں کے لیے ہیں، خود سے نہیں گھڑے۔ مدخلی کے لیے تو کسی حاکم کی حُرمت کتاب اللہ کی حُرمت سے بڑھ کر ہوسکتی ہے، کسی مولوی کے لیے غیرت شعائر اللہ کے لیے غیرت سے بڑھ کر ہوسکتی ہے، لیکن اہل سُنت کے لیے نہیں۔
ضیاء اللہ برنی