سوال (5609)
شرائط نامہ عنوان مناظرہ: جشن عید میلاد النبیﷺ منانے کی شرعی حیثیت
1. پہلے دعوی پیش کیا جاۓ گا۔پھر جواب دعوی۔اس پہ تنقیحات کرنا فریقین کا حق ہوگا۔نیز دعوی و جواب دعوی کے بعد دلائل ہونگے۔گفتگو ٹرمز میں ہوگی۔اور دعوی و جواب دعوی مع حکم شرع بیان ہوگا، اور دلاٸل اسی حکم شرع کو بیان کرنے پہ دیے جاٸیں گے۔
2. دلاٸل، قرآن و سنت اور اقوال علما ٕ امت سے ہونگے اس طرح کہ دلیل قرآن پاک یا حدیث مبارکہ سے پیش ہوگی اور اسکی تشریح میں اقوال علما ٕ امت ہونگے یا اصول تفسیر/ اصول فقہ کی روشنی میں مسٸلہ اخذ کیا جاۓ گا
3. ہر وہ قول/ دلیل/ اعتراض/ اشکال قابل رد ہوگا جس کا ریفرنس قرآن و سنت سے صراحت، اشارة، کنایة، دلالة نہ ہو۔ اشارة کنایة دلالة ہونے کی صورت میں اصول تفسیر یا اصول فقہ کے کسی اصول/ جزیہ پہ بنیاد رکھی جاۓ گی۔
4. جو بھی دلیل دی جاۓ گی چاہے وہ کسی بھی کتاب سے ہو اسکا اسکین دینا لازمی ہوگا سواۓ یہ کہ کتاب اللہ ہو۔
5. آیت یا حدیث کے معانی و مفہوم کی بحث کتب تفاسیر و شروحات احادیث اور ان کتب سے کی جاۓ گی جہاں وہ آیات و احادیث تفسیر و تشریح کے ساتھ آٸی ہوں۔
6. فریقین پہ انکے علما ٕ حجت ہونگے۔پس جہاں ہم دونوں پہ مسلم آٸمہ دین حجت ہیں وہیں ہم پہ ہمارے اور آپ پہ اپنے مسلک کے علما ٕ حجت ہوں گے۔
7. جس موضوع پہ بات شروع ہوگی اخیر تک اسی سے متعلقہ رہے گی دوسرے موضوع پہ جمپ نہیں کیا جاۓ گا۔جس بات کا تعلق موضوع سے نہ ہوگا وہ غیرمقبول ہوگی۔
8. جب کوٸی دلیل موضوع سے متعلقہ پیش ہوگی تو کوٸی لفظ/ جملہ/ عبارت اگر محل نزاع ہے تو فریق مخالف کو اس پہ قرآن و سنت کے علاوہ لغت کےحوالہ جات دینا ضروری ہیں یا اقوال علما ٕ امت سے اسکی وضاحت کی جاۓ گی۔
ایک بریلوی عالم دین سے مناظرہ طے ہوا ہے اور اس نے یہ شرائط لکھ کر بھیجی ہیں، آپ کو بھیجنے کا مقصد یہ ہے کہ اپ ان کو پڑھ کر رہنمائی فرمائیے کیا یہ شرائط ٹھیک ہیں، ان شرائط کے ساتھ مناظرہ کر لینا چاہیے یا کچھ ترمیم کرنی چاہیے؟
جواب
پیارے بھائی پہلا مشورہ تو یہ ہے کہ کسی بریلوی سے پہلی بات توحید کی کرنی چاہئے کیونکہ جس کی توحید درست نہیں وہ چاہے میلاد منائے یا نہ منائے اس کو کیا فرق پڑے گا۔
اسی لئے صحیح بخاری میں حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے معاذ کو جب یمن کا گورنر بنا کر بھیجا تو انکو دعوت کی ترتیب سمجھائی فرمایا:
یا معاذ إنك تاتي قوما من اهل الكتاب، فادعهم إلى شهادة ان لا إله إلا الله واني رسول الله، فإن هم اطاعوا لذلك، فاعلمهم ان الله افترض عليهم خمس صلوات في كل يوم وليلة، فإن هم اطاعوا لذلك، فاعلمهم ان الله افترض عليهم صدقة، تؤخذ من اغنيائهم، فترد في فقرائهم۔
کہ اے معاذ تم اہل کتاب کی ایک قوم کے پاس جا رہے ہو، انہیں اس کی گواہی دینے کی دعوت دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں۔ اگر وہ اس میں (تمہاری) اطاعت کریں تو انہیں بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر ہر دن رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔ اگر وہ اسے مان لیں تو انہیں بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر صدقہ (زکاۃ) فرض کیا ہے جو ان کے مالدار لوگوں سے لیا جائے گا اور ان کے محتاجوں کو واپس کیا جائے گا۔
پھر بھی آپ کسی اور موضوع پہ بات کرنا چاہتے ہیں تو دعوت کے بہترین اصول مندرجہ ذیل ہونے چاہئیں:
1۔ انکو کہیں کہ قرآن و حدیث سے ہی بات ہو گی۔
2۔ قرآن و حدیث کا مفہوم کبھی محکم ہوتا ہے (یعنی صرف ایک ہی احتمال ہوتا ہے) کبھی متشابہ ہوتا ہے (یعنی ایک سے زائد احتمالات ہو سکتے ہیں) پس جب ایسا ہو گا کہ ایک آیت و حدیث محکم ہے اور دوسری کے کئی احتمالات ہیں تو ہم نے محکم کو ہی لینا ہے متشانہ کو نہیں لینا ہے۔
اسکی دلیل میں انکو سورہ ال عمران کی شروع کی یہ آیت بتائیں۔
هو الذین انزل علیک الکتاب منه ایات محکمات هن ام الکتاب واخر متشابهات فاما الذین فی قلوبهم زیغ فیتبعون ما تشابه۔۔۔
یعنی اللہ نے جو قرآن نازل کیا ہے اس میں محکم آیات بھی ہیں جن میں صرف ایک ہی معنی نکلتا ہے اور متشابہ بھی ہوتی ہیں جن کے کئی معنی نکلتے ہیں پس جن کے دلوں میں مرض ہوتا ہے وہ محکم کی بجائے متشابہ کے پیچھے چلتا ہے۔ اگر کسی حکم کے بارے محکم آیت نہیں ہے اور متشابہ آیت ہی ہے تو پھر اہل علم سے اسکے مختلف احتمالات سے ایسے احتمال کا تعین کروایا جائے جو باقی شریعت کے محکم اصولوں کے خلاف نہ جاتا ہو۔
پس یہ اصول اگر آپ نے کسی سے منوا لیا تو چاہے مرزا محمد علی یا اوپر والے میلادی ہوں ان سے مناظرہ جیتنا بہت آسان ہو جاتا ہے۔ قرآن و حدیث میں بات نہ ہونے پہ صحابہ و تابعین و صالحین کی بات کو دیکھا جائے گا ھذا ما عندی۔ واللہ اعلم بالصواب
فضیلۃ العالم ارشد حفظہ اللہ