مقلد غیر مقلد اور اہلحدیث

مسلمانوں کو فکری طور پر تین حصوں میں تقسیم کیا جانا چاہئے۔ مقلد، غیرمقلد،(جدت پسند آزاد فکر) اور اہلحدیث ۔ لیکن عموما صرف مقلد و غیر مقلد کے دوخانوں میں تقسیم کرکے آزاد فکروں کو بھی اہلحدیثوں کے سر باندھ دیا جاتا ہے، جس سے ایک صاف سیدھا آسان سا مسلک کافی مظلوم ہوگیا، بدنام ہوگیا، اور ناکردہ گناہوں کا سزاوار ہوگیا، اس کا دوش اپنوں کو دیا جائے کہ پرایوں کو ایک مسئلہ ہے۔

اصولا اہلحدیث کا لقب خالص مسلمان اور خالص متبعین اسلام کے لئے تھا اور رہیگا، حقیقت میں یہ لوگ دینی مسائل میں مقلدین سے بھی زیادہ محتاط ہوتے ہیں، کوئی ایسی بات یا رائے نہیں اپناتے جس میں ان کا کوئی سلف نہ ہو، عقیدہ اور عمل میں ہر چھوٹی بڑی سنت کے پابند، قول و فعل میں صحابہ و تابعین کا نمونہ، امت کے لئے ہمدرد وخیر خواہ، تکفیر و تفسیق سے پرے، ہر چھوٹی بڑی بدعت سے متنفر، اتحاد و اخوت ایمانی کے علمبردار، ائمہ اربعہ بلکہ سارے ائمہ سلف کے قدرداں، جماعتوں، جمعیتوں، جتھے بندیوں اور تفرقہ بازیوں سے دور، پابند سنت بلکہ چلتے پھرتے اسلام کے نمائندے ہوتے ہیں، حدیث و سنت کے علاوہ نہ ان کی کوئ پہچان نہ ان کا کوئ نام، نہ ان کی کوئ جماعت وجمعیت، اسی لئے ان کا نام یا لقب اہل سنت یا اہل حدیث ہوتا ہے، یہ حنبلی نہیں ہیں، لیکن حنبلیوں میں زیادہ پائےجاتے ہیں، اگرچیکہ دوسرے مذاہب میں بھی پائے جاتے ہیں لیکن نسبتاً کم۔
یہ کم ہیں اور کم ہوتے جاتے ہیں۔ یہ علم وعمل کے پیکر ہوتے ہیں، ان کے قول و فعل میں توافق ہوتا ہے تضاد نہیں، یہ وہی کہتے ہیں جو صحابہ اور تابعین نے کہا ہے یا کیا ہے، یہ ورع کی وجہ سے ہر مشتبہ قول وفعل سے بچے رہتے ہیں، یہ شرعی مسائل میں اکثر چپ رہتے ہیں یا پھر مکمل علم اور پورے تقوی کے ساتھ بولتے ہیں۔

بالفاظ دیگر یہ حقیقی اہل حدیث ہوتے ہیں روایتی یا پیدائشی یا جماعتی جمعیتی نہیں، بلکہ یہ اللہ کے رسول کے حکم اعتزل تلك الفرق كلها (تمام فرقوں سے علیحدگی اختیار کرو) پر عمل کرتے ہوے جماعت و جمعیت کو خلاف سنت مانتے ہیں، غیر اہلحدیثوں کو بھی اپنا سمجھتے ہیں اور اخوت نبھاتے ہیں، انھیں خطا کار سمجھکر معذور سمجھتے ہیں اور پورے اخلاص سے ان کی اصلاح کی تمنا بھی کرتے ہیں اور کوشش بھی۔ یہ ہیں، لیکن کم، رہینگے لیکن گھٹتے جائیں گے۔ یہ اصل اہلحدیث، روایتی یا پیدائشی اہلحدیثوں میں گم ہیں، یا جمعیتی اہلحدیثوں*کے غلبہ کی وجہ سے ان کی شناخت مشکل ہوگئی ہے،

ان اللہ يحب العبد التَّقِيَّ، الغَنِيَّ، الخَفِيَّ (صحیح مسلم 2965)

” اللہ تعالیٰ ایسے بندے کو دوست و محبوب رکھتا ہے جو پرہیزگار، بے نیاز اور گمنام ہو۔“ صحیح مسلم 2965 کی حدیث صادق آتی ہے۔ یہ اکثر اوروں کے علاوہ روایتی یا جمعیتی اہلحدیثوں کے بھی ظلم و ستم کا شکار ہوجاتے ہیں، سچے مسلمان کی طرح انھیں بھی تلاش کرنا پڑ رہا ہے۔

عصر حاضر کا خطرناک مسئلہ ہے جدت پسند آزاد فکروں کا، غلطی سے انھیں اصلی اہلحدیثوں کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے، جیسے روایتی بلکہ گمراہ مسلمانوں کو بھی اصلی مسلمانوں کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے، انہیں غلطی سے اہلحدیث سمجھ لیا جاتاہے حالانکہ ان کا مسلک اہلحدیث سے کبھی کچھ، کبھی دور کا، اور کبھی کچھ بھی واسطہ نہیں ہوتا، چونکہ یہ بھی تقلید کے قائل نہیں، اسی لئے ان کی ساری گمراہیوں کو بے چارے اصلی اہلحدیثوں کے سر باندھ دیا جاتا ہے۔ اس لئے کہ بہت سارے روایتی یا خاندانی یا جمعیتی اہل حدیث انھیں قبول کر لیتے ہیں، جبکہ مستند یا حقیقی اہل حدیث علماء ان سے براءت کا اظہار کرتے ہیں۔

یہ آزاد فکرے انواع و اقسام کے ہیں، کوئی فتوی شاپنگ کرنے والا ہے، کوئی واتس آپ یونیورسٹی کا طالب علم ہے، کوئ دھواں دھار مقرر بردر ہے، کوئی اسراری ہے، کوئی غامدیت کا پرستار ہے، کوئی صلفی ہے۔ کوئی تحریکی ہے، اور کوئی ظاہری ہے، یہ اصل میں نہ سلفی ہیں نہ اہل حدیث، یہ آزادی فکر کے پروردہ ہیں، لیکن افسوس کے یہ سب سلفیت کا سہارا لیتے ہیں، اور سیاسی سلفیت کے نمائندے جان بوجھ کر انھیں اپنی صفوں میں اور اپنے اسٹیج پر جگہ دیتے ہیں تاکہ وہ مقلدین سے لڑائی جیت سکیں، یہ ظلم ہے، اور اس کا خمیازہ سلفیت بھگت رہی ہے۔ حالانکہ مقلدین ان سے بدرجہا بہتر ہیں، اس لئے کہ وہ کم از کم محدود عمل پر توجہ مرکوز کرتے ہیں، مسائل میں الجھ کر خلفشار یا تطرف کا باعث نہیں بنتے۔

یہ آزاد فکر مولوی ہو کہ عامی، سعودی، یمنی علماء کے فتووں کی من مانی شرح کر لیتاہے، چونکہ وہ باوجود ایک آدھ کمرے کے جامعہ سے فارغ ہونے کہ یا مشہور جامعہ سے منتسب ہونے کے، فتوی کے بنیادی اصول سے ناواقف ہے کہ فتوی دلیل نہیں ہوتا بلکہ رہنمائی کے لئے ہوتا ہے، فتوی شخص کے لئے ہوتا ہے امت کے لئے نہیں، فتوی کسی جگہ کے لئے ہوتاہے ہر جگہ کے لئے نہیں، فتوی کسی شخص کے لئے ہوتا ہے ہر شخص کے لئے نہیں، فتوی ایک عالم کی رائے ہے، دوسرا عالم اس کا مکلف نہیں، فتوی خاص وقت و زمانے کے لئے ہوتا ہے ہر زمانہ کے لئے نہیں، اور تو اور حالات اور مصلحتوں کے بدلنے سے فتوے بھی بدل جاتے ہیں۔ آپ جتنی شد و مد سے ایک عالم کے فتوی کو مانتے ہیں اتنے ہی شدومد سے دوسرے عالم کے فتوی کو ماننے میں بھی کوئی قباحت نہیں، چونکہ فتوی کی ضرورت ہی نص صریح کے نہ ہونے کی وجہ سے ہوتی ہے۔

ہر عام مسلمان بھائی سے میری گذارش ہے کہ سب سے پہلے آپ فتووں سے علم لینا چھوڑدیں، کسی مستند خدا ترس عالم کی صحبت اختیار کریں، ہمیشہ اس سے رہنمائی لیں، کوئی ایک حدیث یا آیت یا قول یا فتوی سے مسئلہ نہیں لیا جا سکتا، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہی مجلس میں سارا دین نہیں سکھایا، نہ کسی موضوع کی مکمل وضاحت کی، اور نہ یہ ممکن تھا، بلکہ تئیس سال میں دین سکھایا، حسب ضرورت اور وقت ضرورت مسئلہ کی وضاحت کی، اسی لئے ساری آیتوں حدیثوں اور استنباط کے اصولوں کا علم رکھنے والے سے رابطہ میں رہیں جسے عالم کہا جاتاہے، ہر فارغ مدرسہ عالم نہیں ہوتا۔

اب رہا مقلد حضرات کا مسئلہ تو یوں حل ہے کہ وہ اپنے بزرگوں سے وابستہ رہتے ہیں، اور لگا بندھا، انداز فکر رکھتے ہیں، قدامت پرست ہوتے ہیں، تجدد پسند نہیں ہوتے، اسی لئے وہ نئے مسائل میں نہ کھوج کرتے ہیں نہ زیادہ سر پھٹول کرتے ہیں، اس بارے میں ان کے علماء کی تو گرفت کی جاسکتی ہے، لیکن ان کی عوام تو سکون سے رہتے ہیں، اور خلفشار سے محفوظ رہتے ہیں، اس کی وجہ سے ان کی عبادتیں اطمینان سے ہوجاتی ہیں اور ان کی زبانیں مسائل میں خاموش رہتی ہیں، کبھی کوئی مسئلہ چھڑ بھی گیا تو یہ کہتے ہوئے کہ یہ ہمارا تخصص نہیں ہے، جدال و نقاش سے بچ جاتے ہیں۔

شیخ عبدالسلام عمری مدنی مؤسس اسپائر کالج برائے اسلامی تعلیمات

یہ بھی پڑھیں:
بیوی کا بچوں سمیت بیرون ملک شوہر کے جنازے کے لیے جانا