مقامی لباس سے ہٹ کر مختلف لباس و پوشاک پہننا:
امام ابن قيم اپنی شہرہ آفاق کتاب “زاد المعاد” میں فرماتے ہیں:
“فسنته تقتضي أن يلبس الرجل مما يسره الله ببلده۔۔”
یعنی “آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کا تقاضا یہی ہے کہ آدمی وہی لباس پہنے جو اللہ تعالیٰ نے اس کے علاقے میں میسر کیا ہو۔۔”
مشہور سلفی عالم علامہ بکر ابو زید امام ابن قیم کے اس قول کی طرف اشارہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
“وبه تعلم أن ما يتدين به بعض الشبيبة من أهل عصرنا في قلب جزيرة العرب من لبس ثوب على غير عادة أهل بلده “تدينا” هو من الخروج عن العادات التي جرت عليها سنة النبي صلى الله عليه وسلم بلبس الرجل مما يسره الله ببلده، أي من لباسهم في شكله وصفته، فهذا الثوب الموفد هو في حق من يتقمصه تدينا من أهل هذه الجزيرة على خلاف السنة وخروج عن لباسهم المعروف المألوف ومدعاة للغيبة والتمييز والشهرة والإشارة إليه بالأصابع بالخفة وفقدان التوازن…”
“۔۔اس سے پتہ چلا کہ ہمارے زمانے میں جزیرہ عرب کے بعض نوجوان جو دینی وضع قطع اختیار کرنے کے لئے اپنے علاقے کی عادت سے مختلف لباس پہنتے ہیں، وہ اس سنت رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کہ ادمی وہی لباس پہنے جو (باعتبار صورت و صفت) اس کے علاقے میں میسر یا رائج ہو، سے روگردانی کرنے کے مترادف ہے۔ پس سنت کی مخالفت اور اپنے علاقے کے معروف و مالوف لباس سے ہٹ کر ایسا لباس دینداری سمجھ کر پہننا جو پیٹھ پیچھے باتیں بننے کا یا لوگوں کا خفت سے اس لباس کی طرف اشارے کرنے یا ایسے شخص کے ذہنی توازن سے متعلق شبہہ ہونے کا باعث بنے ( ایسے لباس کا شمار لباس شہرت میں ہوگا..)”
لباسِ شہرت کی تعریف امام ابن تیمیہ نے یوں بیان کی ہے
“ويحرم لبس الشهرة وهو ما قصد به الإرتفاع وإظهار الترفع أو اظهار التواضع والزهد لكراهة السلف لذلك”
“لباس شہرت ایسا لباس ہے جو دوسروں پر برتری ظاہر کرنے یا زہد و تواضع ظاہر کرنے کے ارادے سے پہنا جائے۔ سلف صالحین ایسے لباس کو ناپسند کیا کرتے تھے اور اسی وجہ سے ایسا لباس پہننا حرام ہے”
إمام مرداوی “الإنصاف” میں لکھتے ہیں “يكره لبس ما فيه شهرة أو خلاف زي بلده من الناس على الصحيح من المذهب”
یعنی ہمارے حنبلی مذہب میں ایسا لباس پہننا جس میں شہرت کا پہلو ہو یا اپنے علاقے میں رائج لباس سے مختلف ہو، مکروہ ہے۔
شارح بخاری امام ابن بطال تحریر فرماتے ہیں
“الذي ينبغي للرجل أن يتزي بزي أهله ما لم يكن إثما، لأن مخالفة الناس في زيهم ضرب من الشهرة.”
“آدمی کو چاہئیے کہ اپنے لوگوں میں رائج لباس ہی پہنے الا یہ کہ اس لباس میں گناہ کا کوئی پہلو ہو کیونکہ لباس میں مقامی لوگوں کی مخالفت کرنا بھی شہرت کی ایک قسم ہے۔”
علامہ ابن عثیمین رقم طراز ہیں
“وثوب الشهرة ليس له كيفية معينة أو صفة معينة, وإنما يراد بثوب الشهرة ما يشتهر به الإنسان, أو يشار إليه بسببه, فيكون متحدث الناس في المجالس, فلان لبس كذا, فلان لبس كذا, وبناء على ذلك قد يكون الثوب الواحد شهرة في حق إنسان, وليس شهرة في حق الآخر, فلباس الشهرة إذن هو ما يكون خارجا عن عادات الناس بحيث يشتهر لابسه وتلوكه الألسن۔۔۔”
“لباسِ شہرت کی کوئی معین صفت اور کیفیت نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسا لباس ہے جس سے کسی انسان کی تشہیر ہو یا اس کی طرف اشارے اور توجہ مرکوز ہو اور لوگ مجالس میں اس شخص کے بارے میں چہ می گوئییاں کریں کہ دیکھو فلاں نے ایسا پہنا ہے ویسا پہنا ہے۔ یہ سب مد نظر رکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ جو لباس کسی شخص کے لیے لباسِ شہرت کا درجہ رکھتا ہو ممکن ہے وہی لباس دوسرے شخص کے لئے لباسِ شہرت نہ ہو۔ پس لباسِ شہرت دراصل ایسا لباس ہے جو لوگوں کی عام معاشرتی عادت کے خلاف ہو اور پہننے والا دوسروں سے نمایاں معلوم ہو اور لوگ اس کے بارے میں باتیں بنانے لگ جائیں۔۔۔”
امام احمد نے ایک شخص کو کالے اور سفید لکیروں والی چادر لپیٹے دیکھا تو اس سے کہا، “یہ چادر اتار دو اور اپنے علاقے کے لوگوں میں رائج لباس پہنو۔ میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ یہ حرام ہے، اگر تم مکہ یا مدینہ میں ہوتے تو ہرگز تم کو منع نہیں کرتا (یعنی اس لئے کہ یہ وہاں معروف لباس ہے)”۔
ان تمام عبارات سے واضح ہے کہ بہتر یہی ہے کہ ایک شخص اپنے علاقے میں رائج لباس ہی زیب تن کرے اور بالخصوص دینی وضع سمجھ کر مقامی لباس سے مختلف لباس نہ پہنے۔
مشاہدہ: کشمیر میں سلفی فکر سے وابستہ نوجوانوں کی کثیر تعداد ‘دینی’ وضع اختیار کرنے کے لئے عربی “ثوب”, ‘شماغ’, ‘غترہ’ یا ‘بشت’ پہنتی ہے۔ اسی طرح یہاں دینی شعور رکھنے والے طبقے میں ‘ازہری’ اور ‘شامی’ ٹوپیاں بھی راوج پا رہی ہیں۔ ایسے لباس سے احتراز ہی بہتر کہ ممکن ہے یہ لباسِ شہرت کے زمرے میں آتا ہو۔ واللہ اعلم