سوال

بینک میں پیسے رکھ کر منافع لینا کیسا ہے؟ نیز مروجہ اسلامک بینکنگ جائز ہے یا حرام ہے؟ مفتی تقی عثمانی صاحب نے اسکے جواز کا فتوی دیا ہے، اسکے متعلق بھی رہنمائی فرمادیں۔

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

کسی بھی چیز کیساتھ اسلامی یا غیر اسلامی کا سابقہ یا لاحقہ لگانے سے وہ چیز اسلامی یا غیر اسلامی نہیں ہوجاتی، بلکہ اس کے لیے دیکھنا پڑے گا کہ اسکے اندر اسلامی اصول و قوانین بھی لاگو  ہیں یا نہیں؟!

آج تک کوئی بھی بینک نہیں دیکھا بھلا اس نے ساتھ اسلامی کا سابقہ لاحقہ ہی کیوں نہ لگایا ہو جو اپنے تمام معاملات بلا سود کرتا ہو۔

کیونکہ سارے کے سارے بینکوں کا تعلق ورلڈ بینک کے ساتھ ہے، جس کے نظام کی بنیاد ہی سود پر ہے۔

ارشادِ باری تعالی ہے:

“يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَذَرُوۡا مَا بَقِىَ مِنَ الرِّبٰٓوا اِنۡ كُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِيۡنَ، فَاِنۡ لَّمۡ تَفۡعَلُوۡا فَاۡذَنُوۡا بِحَرۡبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوۡلِه”. [البقرة:278،  279]

’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ سے ڈرو اور سود میں سے جو باقی ہے چھوڑ دو، اگر تم مومن ہو۔ پھر اگر تم نے یہ نہ کیا تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے بڑی جنگ کے اعلان سے آگاہ ہو جاؤ‘‘۔

اور حدیث میں آتا ہے:

“لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آكِلَ الرِّبَا وَمُؤْكِلَهُ وَشَاهِدَيْهِ وَكَاتِبَهُ”.[ابوداؤد:1206]

’’رسول اللہ ﷺ نے سود لینے والے، سود دینے والے، اس کے دونوں گواہوں اور اس کے لکھنے والے پرلعنت بھیجی ہے‘‘۔

موجودہ بینکاری نظام سارا ہی سودی نظام ہے اور یہ اسلامی وغیرہ کا لیبل لگا کرمحض جھانسا دیا جاتا ہے کہ اس میں کسی قسم کا سود نہیں ہے، لہذا ان کے ذریعے کسی بھی قسم کے لین دین کے معاملات کرنا جائز نہیں ہے۔

قرآن و سنت کی وہ تمام نصوص جو  کسی بھی اعتبار سے بینکاری نظام کی بنیاد بنائی جاسکتی ہیں، ان میں کہیں بھی اس بات کا اشارہ نہیں ملتا کہ کسی بھی مالیاتی ادارے   میں قرض کو بنیاد بنایا جاسکتا ہے۔ لیکن جدید بینکاری نظام کا  کاروباری ڈھانچہ قرض  کی بنیاد پر کھڑا ہے، شریعت میں قرض کوئی محبوب یا اچھی چیز نہیں سمجھی گئی بلکہ  صرف اضطراری کیفیت  میں  اس کی گنجائش دی گئی ہے، لہذا  ایسی دعائیں اور نصوص موجود ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم قرض سے پناہ مانگا کرتے تھے۔ ہاں شریعت میں سرمایہ ایک دوسرے کے پاس بطور امانت رکھوانے کا تصویر موجود ہے۔  گویا یہ ایک بہت بڑا  فرق ہے کہ  جدید بینکاری نظام  کی بنیاد قرض جبکہ  شرعی نظام  میں امانت کا تصور ہے۔

2: اسلامی بینکاری میں سارے معاملات وہی  ہورہے ہیں جو کہ عام کمرشل بینکوں میں ہوتے ہیں، اسلامی اصطلاحات کا استعمال محض ایک دھوکہ  ہے ۔  ہر بینک میں جو  کام اور معاملات  سر انجام دیے جاتے ہیں، ان کا ایک ایک کرکے جائزہ لینے کے بعد یہ بات بڑی آسانی سے  ثابت ہو جاتی ہے ۔

بعض  امور کی فہرست درج ذیل ہے:

1۔لوگوں کی بچت یا زائد از رقوم رکھنا اور اس کی حفاظت کرنا

2۔جمع شدہ رقوم کو بطور قرض دینا اور اس پر سود وصول کرنا

3۔ڈسکاؤنٹ آف بلز       4۔بلز آف ایکسچینج             5۔بل آف لیڈنگ

6۔ایل سی  (خطاب الضمان )         7۔تحویل القروض            8۔دستاویزات قابل بیع و شراء

9۔لوگوں کی قیمتی اشیاء کی حفاظت جسے شریعت میں ودیعہ کہا جاتا ہے۔   10۔ایجنٹ یا کمیشن

11۔سرمایہ کاری            12۔اوراق تجارت  جاری کرنا        13۔رقوم کی ترسیل و تبادلہ

14۔تمویل المشاریع التجاریہ          15۔بیرون ملک خرید و فروخت میں سہولت کاری

حال ہی میں دیوبند مکتبہ فکر کےایک جید عالم دین مفتی تقی عثمانی صاحب کی طرف سے اسلامک بینکاری خصوصا بینک میں پیسہ رکھ کر منافع لینے کے حوالے سے جواز کا فتوی آیا ہے، لیکن ان کی مخالفت انکے اپنے مکتبہ فکر کے ہی دیگر جید علماء اور جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے محققین و مفتیان  نے کی ہے۔ جس میں انہوں نے روایتی بینکاری اور مروجہ اسلامی بینکاری کے عدم جواز کا فتوی دیا ہے۔  اور واضح طور پر لکھا ہے کہ ’ملک کے بیشتر علمائے کرام متفقہ طور پر اسلام کی طرف منسوب بینکاری کے نظام کو مروجہ سودی نظام کا ہی ایک حصہ قرار دے کر اس کے عدم جواز کا فتویٰ صادر کر چکے ہیں‘۔ مزید فرماتے ہیں:

’مروجہ اسلامی بینکاری کوسودی نظام کاحصہ قراردینے اور عدم جوازکی بنیادی طورپردو وجوہات ہیں:

1۔ مروجہ اسلامی بینکاری کے لیے جوفقہی بنیادیں جن شرائط کے ساتھ فراہم کی گئی تھیں عملی طور پر مروجہ اسلامی بینکاری کانظام ان فراہم کردہ بنیادوں پر نہیں چل رہا۔

2۔ دوسری بنیادی وجہ یہ ہے کہ جن فقہی بنیادوں پرمذکورہ نظام کوقائم کیاگیاوہ بنیادیں اوراصطلاحات بھی سقم سے خالی نہیں ہیں‘۔ [دارالافتاء بنوری ٹاؤن، فتوی نمبر: 143609200043 بتصرف و اختصار]

خلاصہ یہ ہے کہ مروجہ اسلامی بینکاری  بھی روایتی سودی بینکاری  کی طرح سود سے پاک نہیں ہے،  لہذا  جس طر ح اہلِ اسلام عام سودی اداروں سے بچنے کا اہتمام کرتے ہیں، اسی طرح مروجہ  اسلامی بینکاری سے پرہیز کرنا بھی ضروری ہے۔

مروجہ اسلامی بینکاری کے حوالے سے مزید تفصیل اور وضاحت کے لیے ملاحظہ فرمائیں:

سہ ماہی البیان، کراچی  کا’ معیشت و تجارت اور مروجہ اسلامی بینکاری‘ نمبر‘ اشاعت کردہ جنوریـجون 2013ء۔

دورِ حاضر کے مالی معاملات اور ان کا شرعی حکم از حافظ ذو الفقار حفظہ اللہ۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

تحریر کنندہ: ڈاکٹر شاہ فیض الابرار  حفظہ اللہ، حافظ خضر حیات حفظہ اللہ

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  محمد إدریس اثری حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الحنان سامرودی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ