سوال (2640)

مردے کا قبر سے باہر نکل کر بات چیت کرنا اور واپس قبر میں غائب ہو جانا کوئی نام نہاد اہلحدیث فضیلۃ الشیخ حافظ زبیر زئی رحمہ اللہ کے اس حوالے کو قرآن وحدیث سے ثابت کرے گا؟ موجودہ نام نہاد اہلحدیثوں کے نزدیک جو قبر سے مردے کے کلام کرنے یا باہر نکلنے کے واقعات نقل کرے وہ شرک اور قبر پرستی ہے، اور ایسے کئی حوالوں پر یہ شرک اور قبر پرستی کا فتوی لگاتے ہیں۔ تو ان غیر مقلدین کے لئے حاضر ہے ان کے مشہور محدث زبیر زئی کا حوالہ۔
زبیر زئی امام بہیقیؒ کی کتاب اثبات عذاب قبر کا ترجمہ و تحقیق کرتے ہوئے نقل کرتے ہیں کہ ”سیدنا عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ میں غزوہ ابواء سے واپس لوٹ رہا تھا کہ میں ( کچھ ) قبروں کے پاس سے گزرا۔ ایک آدمی ( اچانک ) قبر سے نکل کر میری طرف آیا۔ اسے آگ لگی ہوئی تھی۔ اور اس کی گردن میں ایک زنجیری جسے وہ گھسیٹ رہا تھا اور کہہ رہا تھا: اے عبد الله! ( اللہ کے بندے) مجھے پانی پلاؤ، اللہ کے بندے پانی پلائے۔ الله کی قسم! مجھے معلوم نہیں کہ اس نے مجھے پہچان کر ) عبداللہ کہا یا ویسے ہی کہہ دیا جیسے ایک آدمی دوسرے آدمی کو: اے اللہ کے بندے! کہہ کر پکارتا ہے۔ اس شخص کے پیچھے ایک کالا شخص نکلا جس کے ہاتھ میں کانٹوں والی ٹہنی تھی اور وہ کہ رہا تھا۔ اے عبداللہ! اسے پانی نہ پلانا کیونکہ یہ کافر ہے۔ پھر اس ( کالے شخص )نے اسے پکڑ لیا۔ اس کی زنجیر لے کر اس ٹہنی سے اسے مارتا ہوا دوبارہ قبر میں لے گیا۔ میں ان دونوں کی طرف دیکھ رہا تھا حتی کہ وہ قبر میں غائب ہو گئے۔ (یہ قصہ ایک دوسری سند سے بھی مروی ہے اور (عذاب قبر پر ) صحیح آثار کافی ہیں۔ [اسناده حسن،
کتاب الروح : ص 93، 94، میں اس کے شواہد ہیں۔]
[اثبات عذاب قبر،زبیر زئی، الحدیث شمارہ 126، ص 20]
اب اس واقعہ میں مردہ قبر سے باہر بھی نکلا اور اس نے بات چیت بھی کی تھی، حافظ زبیر زئی رحمہ اللہ نے اس کی سند کو حسن قرار دیا ہے۔ ایسے واقعات پر قبر پرستی کے فتوے لگانے والے غیر مقلدین سے سوال ہے کہ مردہ کیسے قبر سے باہر نکلا اور اس نے کیسے اب عمر رضی اللہ عنہ سے بات کی؟؟؟ کیا مردے کے قبر سے باہر نکلنا قرآن و حدیث سے ثابت ہے؟ کوئی نام نہاد اہلحدیث حافظ زبیر زئی صاحب کے اس حوالہ کی قرآن و حدیث سے دلیل دے سکتا ہے؟
اس روایت کے حوالے سے حقیقت کیا ہے؟

جواب

اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے، اس کا انکار کوئی مسلمان نہیں کر سکتا ہے، انکار اس بات کا ہے کہ آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے ہیں۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔

“اِنَّكَ لَا تُسۡمِعُ الۡمَوۡتٰى” [سورة النمل : 80]

«بے شک تو مُردوں کو نہیں سنا سکتا ہے»
باقی اللہ تعالیٰ جیسے چاہیے سنا سکتا ہے، چاہے وہ زندہ ہوں یا مردہ ہوں۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔

“اِنَّ اللّٰهَ يُسۡمِعُ مَنۡ يَّشَآءُ ۚ وَمَاۤ اَنۡتَ بِمُسۡمِعٍ مَّنۡ فِى الۡقُبُوۡرِ” [سورة فاطر : 22]

«بے شک اللہ سنا دیتا ہے جسے چاہتا ہے اور تو ہرگز اسے سنانے والا نہیں جو قبروں میں ہے»
باقی قرآن مجید میں گائے کے گوشت کا ایک ٹکڑا مردہ کو لگانے سے مردہ زندہ ہوگیا تھا، جیسا کہ سورۃ بقرہ میں بحث موجود ہے، آخرت کے معاملات کبھی کبھار لوگوں کے سامنے اس طرح رکھ دینا کہ ان کو علم الیقین حاصل ہو جائے، اگرچہ مطالبہ “یؤمنون بالغیب” کا ہے، یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے، اس میں سے ایک واقعہ یہ بھی ہوسکتا ہے۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

“لَوْلَا أَنْ لَا تَدَافَنُوا لَدَعَوْتُ اللَّهَ أَنْ يُسْمِعَكُمْ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ” [صحيح مسلم : 2868]

’’اگر یہ خدشہ نہ ہوتا کہ تم (مردوں کو) دفن نہ کرو گے تو میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا کہ وہ تم کو عذاب قبر(کی آوازیں) سنوائے‘‘۔
کبھی کبھار یہ چیزیں بطور عبرت سامنے آجاتی ہیں، اس میں کوئی اعتراض نہیں ہے، دلیل تو لوگوں کے باطل عقیدے کا چاہیے، کبھی کہتے ہیں کہ مردے سنتے ہیں، دلیل “یاایھالنبی” دیتے ہیں، کبھی کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں، دلیل کیسے بن گئی ہے، آپ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو زندہ مانتے ہیں، اب باطل والوں کو بھی ایک بات پر ٹکنا چاہیے، اب دفاع کے ساتھ ان سے بھی سوالات کیے جائیں، ان کے عقائد کو کھنگھالنا چاہیے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ