سوال (1404)

کسی نے سوال کیا ہے کہ اگر مردے نہیں سنتے تو قبرستان میں جاتے وقت سلام کا حکم کیوں ہے؟ یعنی السلام علیکم یا اھل القبور کہنے کا حکم؟

جواب

اس میں اصل یہ ہے کہ یہ برزخی معاملات ہیں، اور ان میں دنیاوی اصولوں کے مطابق صغرے کبرے ملا کر، مسائل اخذ کرنا درست نہیں ہے، جتنا شریعت میں بیان ہو گیا ہے، اس پر ایمان لانا ضروری ہے۔
مردوں کا نہ سننا، اور ان کو سلام کہنا یہ بیک وقت دونوں باتیں قرآن و سنت سے ثابت ہیں۔
مردے نہیں سنتے، اس بات کی دلیل یہ ہے:

﴿إِنَّكَ لَا ‌تُسۡمِعُ ‌ٱلۡمَوۡتَىٰ﴾ [النمل: 80]

آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے۔
اسی طرح فرمایا:

﴿وَمَا يَسۡتَوِي ٱلۡأَحۡيَآءُ وَلَا ٱلۡأَمۡوَٰتُۚ إِنَّ ٱللَّهَ يُسۡمِعُ مَن يَشَآءُۖ وَمَآ أَنتَ بِمُسۡمِعٖ مَّن فِي ٱلۡقُبُورِ﴾ [فاطر: 22]

زندہ اور مردہ برابر نہیں ہو سکتے، اللہ تعالی جس کو چاہے سنا سکتا ہے، لیکن آپ قبروں والوں کو نہیں سنا سکتے!
جبکہ قبرستان میں جاکر سلام اور مسنون دعا کرنا بھی ثابت ہے، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رہنمائی فرمائی ہے کہ قبرستان میں جا کر یہ دعا پڑھی جائے:

“السَّلَامُ عَلٰى أَهلِ الدِّيارِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُسْلِمِينَ، وَيرْحَمُ اﷲُ الْمُسْتَقْدِمِينَ مِنَّا وَالْمُسْتَأْخِرِينَ، وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اﷲُ بِکُمْ لَلَاحِقُوْنَ”.[مسلم:2256]

’اے مومنو اور مسلمانوں کے گھر والو! تم پر سلامتی ہو، اﷲ تعالیٰ ہمارے اگلے اور پچھلے لوگوں پر رحم فرمائے اور اگر اﷲ تعالیٰ نے چاہا تو ہم بھی تمہیں ملنے والے ہیں‘۔
اب یہ دو طرح کے دلائل ہیں ان کو سمجھنے کا درست طریقہ یہ ہے کہ اصلا مردے نہیں سنتے، لیکن جو چیز اللہ تعالی انہیں سنوانا چاہتا ہے، وہ سن لیتے ہیں، جیسا کہ مشہور حدیث میں آتا ہے کہ جب مردے کو دفن کر کے لوگ واپس لوٹتے ہیں تو وہ ان کے قدموں کی چاپ سنتا ہے۔
اب مردے کیا سنتے اور کیا نہیں سنتے؟ اس کو جاننے کا ذریعہ ہمارے پاس سوائے وحی کے کوئی نہیں.. لہذا ہم کہتے ہیں کہ جہاں جہاں ان کا سننا ثابت ہے، وہاں وہاں اس کو مانا جائے، اور جہاں ثابت نہیں، وہاں اصل اصول باقی رہے گا کہ مردے نہیں سنتے!
اسی طرح قبرستان میں جا کر سلام کہنے کا شریعت میں حکم ہے، جیسا کہ اوپر حدیث گزری…
گویا سلام کہنا یہ شرعی حکم ہے، اس کا ہماری عقل سے کوئی تعلق نہیں کہ چونکہ مردے سلام سنتے ہیں، لہذا ان کو سلام کہا جائے!
بلکہ یہ اس بنیاد پر کہا جاتا ہے، کیونکہ یہ ایک شرعی حکم ہے۔
اگر آپ سلام کہنے والی حدیث سے یہ مطلب اخذ کرتے ہیں کہ مردے ہر چیز سنتے ہیں تو پھر آپ قرآن کی واضح آیات سے یہ مطلب کیوں اخذ نہیں کرتے کہ مردے نہیں سنتے؟!
اور شرعی نصوص سے متعلق اگر اس طرح عقلی گھوڑے دوڑانے ہیں تو الزاما یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اگر مردے سنتے ہیں تو پھر وہ آپ کو آگے سے جواب کیوں نہیں دیتے؟
بلکہ اگر مردے سنتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ وہ زندہ ہیں، تو آپ زندہ لوگوں کو قبرستان میں کیوں ڈالتے ہیں؟ اور کیا کوئی زندہ آدمی کسی قبر میں سالہا سال کا لمبا عرصہ گزار سکتا ہے؟
اللہ تعالی سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ