سوال          (66)

ایک شخص قرب و جوار میں مسلم کمیونٹی کے ہوتے ہوئے کسی عیسائی کو زکوة دے چکا ہے ، کیا اس کی ادا ہوئی یا دوبارہ دے گا ۔ اس حوالے سے رہنمائی فرمائیں ۔

جواب

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن بھیجا تو فرمایا:

“فَأَعْلِمْهُمْ أَنَّ اللَّهَ افْتَرَضَ عَلَيْهِمْ صَدَقَةً فِي أَمْوَالِهِمْ تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَائِهِمْ وَتُرَدُّ عَلَى فُقَرَائِهِمْ”.

[صحيح البخاري: 1395]

’’اللہ تعالیٰ نے ان کے مال پر کچھ صدقہ فرض کیا ہے جو ان کے مالدار لوگوں سے لے کر انہیں کے محتاجوں میں لوٹا دیا جائے گا‘‘۔

اس روایت کے تحت زکاۃ مسلمانوں میں تقسیم کرنی چاہیے تاہم جو ہوچکا ہے سو ہوچکا ہے ،  آئندہ خیال رکھنا چاہیے ۔

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

زکاۃ ادا ہوگئی ہے ، دینے میں خطا واقع ہوئی ہے ، وہ ان شاءاللہ قابل مواخذہ نہیں ہے ۔

سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

“قَالَ رَجُلٌ:‏‏‏‏ لَأَتَصَدَّقَنَّ بِصَدَقَةٍ، ‏‏‏‏‏‏فَخَرَجَ بِصَدَقَتِهِ فَوَضَعَهَا فِي يَدِ سَارِقٍ، ‏‏‏‏‏‏فَأَصْبَحُوا يَتَحَدَّثُونَ تُصُدِّقَ عَلَى سَارِقٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ لَأَتَصَدَّقَنَّ بِصَدَقَةٍ، ‏‏‏‏‏‏فَخَرَجَ بِصَدَقَتِهِ فَوَضَعَهَا فِي يَدَيْ زَانِيَةٍ، ‏‏‏‏‏‏فَأَصْبَحُوا يَتَحَدَّثُونَ تُصُدِّقَ اللَّيْلَةَ عَلَى زَانِيَةٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ عَلَى زَانِيَةٍ لَأَتَصَدَّقَنَّ بِصَدَقَةٍ، ‏‏‏‏‏‏فَخَرَجَ بِصَدَقَتِهِ فَوَضَعَهَا فِي يَدَيْ غَنِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏فَأَصْبَحُوا يَتَحَدَّثُونَ تُصُدِّقَ عَلَى غَنِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ عَلَى سَارِقٍ، ‏‏‏‏‏‏وَعَلَى زَانِيَةٍ، ‏‏‏‏‏‏وَعَلَى غَنِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏فَأُتِيَ فَقِيلَ لَهُ:‏‏‏‏ أَمَّا صَدَقَتُكَ عَلَى سَارِقٍ فَلَعَلَّهُ أَنْ يَسْتَعِفَّ عَنْ سَرِقَتِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَمَّا الزَّانِيَةُ فَلَعَلَّهَا أَنْ تَسْتَعِفَّ عَنْ زِنَاهَا، ‏‏‏‏‏‏وَأَمَّا الْغَنِيُّ فَلَعَلَّهُ يَعْتَبِرُ فَيُنْفِقُ مِمَّا أَعْطَاهُ اللَّهُ”.

[صحيح البخاري: 1421]

’’ایک شخص نے بنی اسرائیل میں سے کہا کہ مجھے ضرور صدقہ آج رات دینا ہے۔ چناچہ وہ اپنا صدقہ لے کر نکلا اورناواقفی سے ایک چور کے ہاتھ میں رکھ دیا۔ صبح ہوئی تو لوگوں نے کہنا شروع کیا کہ آج رات کسی نے چور کو صدقہ دے دیا۔ اس شخص نے کہا کہ اے اللہ! تمام تعریف تیرے ہی لیے ہے۔ آج رات میں پھر ضرور صدقہ کروں گا۔ چناچہ وہ دوبارہ صدقہ لے کر نکلا اور اس مرتبہ ایک فاحشہ کے ہاتھ میں دے آیا۔ جب صبح ہوئی تو پھر لوگوں میں چرچا ہوا کہ آج رات کسی نے فاحشہ عورت کو صدقہ دے دیا۔ اس شخص نے کہا اے اللہ! تمام تعریف تیرے ہی لیے ہے ، میں زانیہ کو اپنا صدقہ دے آیا۔ اچھا آج رات پھر ضرور صدقہ نکالوں گا۔ چناچہ اپنا صدقہ لیے ہوئے وہ پھر نکلا اور اس مرتبہ ایک مالدار کے ہاتھ پر رکھ دیا۔ صبح ہوئی تو لوگوں کی زبان پر ذکر تھا کہ ایک مالدار کو کسی نے صدقہ دے دیا ہے۔ اس شخص نے کہا کہ اے اللہ! حمد تیرے ہی لیے ہے۔ میں اپنا صدقہ لاعلمی سے  چور ، فاحشہ اور مالدار کو دے آیا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بتایا گیا کہ جہاں تک چور کے ہاتھ میں صدقہ چلے جانے کا سوال ہے۔ تو اس میں اس کا امکان ہے کہ وہ چوری سے رک جائے۔ اسی طرح فاحشہ کو صدقہ کا مال مل جانے پر اس کا امکان ہے کہ وہ زنا سے رک جائے اور مالدار کے ہاتھ میں پڑجانے کا یہ فائدہ ہے کہ اسے عبرت ہو اور پھر جو اللہ عزوجل نے اسے دیا ہے ، وہ خرچ کرے‘‘۔

اس روایت کے تحت ان شاءاللہ دوبارہ نکالنے کی ضرورت نہیں ہے ، باقی یہ مسلمانوں کا حصہ ہے ، اس لیے اہتمام کے ساتھ مسلمانوں تک پہنچانا چاہیے ۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ