سوال (5457)
مسلمانوں کو غلام کیسے بنایا جاتا تھا؟ کیا آج بھی کسی کو غلام بنایا جا سکتا ہے؟
جواب
اسلام عدل کا مذھب ہے یہ تمام لوگوں کے حقوق عدل کے ساتھ ادا کرنے کا حکم دیتا ہے اسی میں یہ بھی عدل ہے کہ کسی انسان کی آزادی کو محصور نہ کیا جائے البتہ جو جنگ میں قید ہو جائیں یا پہلے سے ہی غلام ہیں ان کو غلام بنا کر رکھنا اسلام میں مباح ہے یاد رکھیں نہ فرض ہے نہ مستحب ہے بلکہ مباح ہے اور مباح بھی ایسا کہ غلام کے حقوق سے اور اسکو آزاد کرنے کی فضیلتوں اور مواقع سے شریعت بھری پڑی ہے جنکو ذکر کرنے لگوں تو اچھی خاصی کتاب صرف انہیں پہ بن جائے پس پھریہ مباح بھی بحالت مجبوری ہی مباح رہ جاتا ہے۔
اب سوال اٹھتا ہے کہ یہ مجبوری کیا ہے اور یہ کیسا عدل ہے کہ پھر بھی جنگ میں نئے غلام بنانے اور پہلے سے موجود غلام بیچنے کو مباح رکھا گیا ہے؟ اسکو مختصرا نیچے دیکھتے ہیں۔
جہاں تک نئے غلام بنانے کی بات ہے تو جب تک جنگیں کا امکان باقی ہے غلامی کو مباح رکھنا بھی عین فطری مسئلہ ہے کیونکہ جنگوں میں قیدی لازمی ہوتے ہیں اب بتائیں قیدی کے ساتھ عقلی اور انسانی لحاظ سے بہترین معاملہ کیا کیا جا سکتا ہے؟
1۔ اسکو فدیہ کے بدلے بھی آزاد کیا جا سکتا ہے جیسا کہ بدر والوں کے ساتھ کیا گیا تھا۔
2۔ اسکو خیر سگالی کی نیت سے آزاد کر کے دشمن کو واپس کیا جا سکتا ہے جیسے ماریہ قبطیہؓ کے خاندان کے لوگوں کو آزاد کیا گیا تھا۔
3۔ اسکا قیدیوں کے بدلے تبادلہ کیا جا سکتا ہے۔
اب اسلام نے ان میں سے کسی کا انکار نہیں کیا اور اسلام میں آج بھی پہلے نمبر پہ عمومی طور پہ یہی آپشن ہیں لیکن اگر یہ سب بھی نہ ہو سکتا ہو تو مسئلہ تو اس وقت پیدا ہوتا ہے اس وقت مندرجہ ذیل کام کیے جا سکتے ہیں:
1۔ اسکو قتل کر دیا جائے
2۔ اسکو قیدی قید کیا جا سکتا ہے (گواتوناموبے یا کسی اور صورت میں)
3۔ اسکو غلام بنا لیا جائے
اب بتائیں ان تین کے علاوہ کوئی اور تو آپشن نہیں بچا۔ آزاد کرنے والا خیر سگالی کا اوپر والا آپشن بھی نہیں بچا کیونکہ دشمن ایسا ہے کہ آزاد کرنے سے بعد میں ملکی سالمیت کے لئے خطرناک ہو سکتا ہے تو اب ان تین میں سے کون سا اختیار کیا جائے۔
کوئی عقل رکھنے والا پہلے دو آپشن کو کبھی نہیں چنے گا کیونکہ چاہے قید گواتوناموبے کی طرح نہ بھی ہو لیکن وہ غلامی اس قید سے کہیں درجے بہتر ہو گی کیونکہ اس میں اسکو کھلے عام گھومنے کا موقع ملے گا۔
تو پھر مجھے سمجھ نہیں آتی کہ اسلام سے کیا دشمنی ہے جبکہ اسلام نے اسکو صرف مباح ہی رکھا ہے اور بار بار تلقین کی ہے اور انعام رکھیں ہیں کہ انکو آزاد کر دو تو یہ ملے گا اور ساتھ دھمکی دی ہے کہ اگر اسکے حقوق ادا نہ کر سکے تو یہ جرمانہ دینا ہو گا اب بھی عقل والوں کو اسلام کو اصول فطری نہ لگے تو کیا کیا جائے۔
جہاں تک پہلے سے موجود بکنے والے غلام کے مباح ہونے کا سوال ہے کہ اس میں بکنے والے کے حقوق سلب کیے جا رہے ہوتے ہیں اسکی آزادی کو سلب کیا جا رہا ہوتا ہے تو یہ کیسے مباح ہو سکتا ہے تو اسکا جواب یہ ہے کہ اگر اسکو بغیر بیچے آزاد کر دیا جائے تو کیا اس وقت کسی کے کوئی حقوق سلب نہیں ہوں گے یقینا اس کے مالک کے حقوق تو سلب ہوں گے جو حقوق وہ مالک پہلے خرید کر حاصل کر چکا ہے ساتھ ساتھ ملک کے حقوق بھی صلب ہو سکتے ہیں پس ایک طرف کے حقوق کی بات کرتے ہوئے دوسری طرف کے حقوق کو ہی بھول جانا کیسا ہے دیکھیں انٹرنیشنل ہیومن رائٹس کے تحت بھی قیدیوں کے حقوق اتنے لکھے ہوئے نہیں ہوتے جتنے ایک غلام کو اسلام نے رکھے ہیں (میں نے انٹرنیشن ہیومن رائٹس کے لکھے ہوئے حقوق کا کہا ہے حقیقی گواتوناموبے والے کا تو ابھی موازنہ ہی نہیں کیا)
پس خلاصہ یہ ہے کہ عمومی حکم تو آج بھی موجود ہے البتہ یہ انتہائی مجبوری میں مباح ہے اور یہ بھی اوپر پہلے سے موجود آپشن کے بعد ہے۔ واللہ اعلم
فضیلۃ العالم ارشد حفظہ اللہ