“مشرک ہمیشہ توحید پرست سے چڑ کھاتا ہے”

اسلام کی اساس اور بنیاد “توحید” ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار، اس کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرنا، اور اس کے تمام حقوقِ الوہیت کو خالص اسی کے لیے ماننا۔ اس کے برعکس “شرک” اللہ تعالیٰ کی ذات یا صفات میں کسی کو شریک ٹھہرانا ہے، جو کہ اسلام میں سب سے بڑا گناہ ہے اور ناقابلِ معافی جرم ہے اگر توبہ کے بغیر موت واقع ہو۔
قرآن و سنت کی روشنی میں ہمیں بارہا یہ حقیقت نظر آتی ہے کہ توحید اور شرک کے درمیان ہمیشہ ایک شدید معرکہ رہا ہے۔ مشرکین ہمیشہ توحید پرستوں سے چڑ کھاتے نظر آئے ہیں، ان کی دعوتِ توحید کا مذاق اڑاتے رہے ہیں، ان پر ظلم و ستم ڈھاتے رہے ہیں، اور انہیں طرح طرح کے القابات سے نوازا گیا۔ اس کشمکش کا آغاز حضرت نوح علیہ السلام سے ہوا اور آج تک جاری ہے۔
حضرت نوحؑ اور مشرک قوم:
قرآن بتاتا ہے کہ حضرت نوحؑ نے اپنی قوم کو 950 سال تک اللہ وحدہ لا شریک لہ کی طرف بلایا، مگر ان کی قوم نے انھیں جھٹلایا، مذاق اڑایا، اور آخرکار ان کے خلاف سازشیں شروع کر دیں۔

“وقالوا لا تذرن آلهتكم ولا تذرن ودًا ولا سواعًا ولا يغوث ويعوق ونسرًا” (نوح: 23)

یہ آیات اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ مشرکین اپنے باطل معبودوں کے دفاع میں کتنے شدت پسند تھے اور اللہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی دعوتِ توحید کو برداشت نہ کر سکے۔
حضرت ابراہیمؑ کی قوم:
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب اپنی قوم کو اللہ کی عبادت کی دعوت دی اور بت پرستی سے روکا تو اُن کے والد سمیت پوری قوم ان کے دشمن ہو گئی۔

“قالوا حرقوه وانصروا آلهتكم إن كنتم فاعلين” (الأنبياء: 68)

یہ آیت بتاتی ہے کہ توحید کی دعوت کے جواب میں مشرکین نے کتنی سختی اور ظلم کا رویہ اپنایا کہ انھیں زندہ جلا دینے کا فیصلہ کر لیا۔
حضرت رسول اللہ ﷺ کا دور:
اہلِ مکہ جو بت پرست تھے، حضرت رسول اللہ ﷺ کی دعوتِ توحید پر سب سے زیادہ چرکھانے لگے۔ انھوں نے آپ کو ساحر، مجنون، شاعر اور کذاب جیسے طعنے دیے۔ آپ پر ظلم کیے، بائیکاٹ کیا، شعب ابی طالب میں محصور کر دیا، حتیٰ کہ ہجرت پر مجبور کر دیا۔
آج کا دور:
آج بھی اگر کوئی شخص توحیدِ خالص کی دعوت دیتا ہے اور شرک کی تمام صورتوں سے انکار کرتا ہے،قبروں سے مانگنا، پیروں کو مشکل کشا ماننا، یا نذر و نیاز اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کے لیے کرنا تو اُسے فوراً وہابی، گمراہ، فرقہ پرست، شدت پسند جیسے القابات سے نوازا جاتا ہے۔ یہ دراصل چڑکھانے کی جدید شکلیں ہیں۔
مثال کے طور پر اکتوبر 2024 میں جب عالمِ اسلام کی عظیم ترین شخصیت ڈاکٹر ذاکر نائیک حفظہ اللّٰہ نے وطن پاکستان آنے کا ارادہ کیا تو اس وقت بھی ایک شرپسند جلّالی نے طرح طرح کے مناظرے کے چیلنج کئے کہ پہلے میرے ساتھ مناظرہ کرے پھر عوام الناس سے خطاب کرے اس وقت میرے مربی و مشفق استادِ گرامی مناظرِ اسلام الشیخ محمد یحییٰ عارفی حفظہ اللّٰہ نے اس نام نہاد مناظر کو کھلم کھلا مناظرے کا چیلنج دیا لیکن یہ شرپسند میدان میں نہ آیا، اب حالیہ دنوں میں اس نے پھر وہی ڈرامہ رچا لیا اور اس حد تک پہنچ گیا کہ حرمتِ رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم پر اپنا کنبہ قبیلہ قربان ہی نہیں بلکہ اپنے جسم کا انگ انگ قربان کرنے والی شخصیت پر درود و سلام کی توہین کا الزام تراش دیا، علامہ حافظ ابتسام الہٰی ظہیر تو بہت دور کی بات ہے اہل السنة والجماعة کا کوئی ایک فرد بھی ایسی ناپاک جسارت کرنے کا قلوب و اذہان میں خیال تک نہیں لاسکتا لیکن اس شرپسند جلالی صاحب نے علامہ صاحب کی تصویر پر پھانسی کے پھندے کو ڈال کر سوشل میڈیا پر وائرل کیا اور ساتھ لکھا کہ اس شخص کو 295C کے قانون کے تحت پھانسی دی جائے،
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ اتنی ظلم و بربریت کے باوجود بھی کیا ہم خاموش رہیں؟ آخرکار کل خطبہ جمعہ میں علامہ صاحب نے اس جلالی کو اس بات پر مباہلے کا اعلانیہ چیلنج دے دیا ہے،
اب اگر ان مُٹھی بھر شر پسند عناصر میں ہمت ہے تو علامہ صاحب کے مباہلے کو قبول کرے۔
جلالی صاحب تمہیں بھول ہوگی کہ ہر کوئی تیرے پیروکار کی طرح کا ہے لیکن یاد رکھنا کہ مسلکِ اہلِ حدیث کا ہر بچہ، نوجوان اور بوڑھا علامہ صاحب کے لئے اپنی جان تک نچھاور کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں اور اسی پر بس نہیں بلکہ ہم علامہ صاحب پر اپنی جان قربان کرنا سعادت سمجھتے ہیں۔

از قلمِ یاسر مسعود بھٹی
خادمُ العلم والعلماء

یہ بھی پڑھیں:القاب کا غلو: عزت یا دھوکہ؟