سوال (4400)
ایک مسلمان عورت جو ہندوستان کی کمانڈر ہے اور ان کی آلہ کار بنی ہے، مسلمانوں کے خلاف ہے کیا اسے مرتد کہیں گے؟
جواب
دو مسلمانوں کے درمیان جب ٹولیوں کی صورت میں لڑائی ہوجائے تو مرتد نہیں کہیں گے، باقی اس کو اجتہادی خطا کہہ سکتے ہیں، جو خاص تناظر میں یہ سوال پوچھا گیا ہے کہ مسلم سے لڑائی کے وقت دار الحرب کے فورسز کا حصہ بننا کیسا ہے؟ بس احادیث میں یہ ہے کہ ایسا موقع ہو تو فورسز کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
کسی مسلمان مرد یا عورت کو “مرتد” (یعنی اسلام سے خارج) قرار دینا انتہائی سنگین اور حساس معاملہ ہے، کیونکہ اس سے اس کے دنیاوی و اخروی احکام بدل جاتے ہیں، لہٰذا کسی کو مرتد کہنا بغیر قطعی دلیل کے جائز نہیں۔ اگر کوئی مسلمان عورت کسی غیر مسلم حکومت (جیسے بھارت) کی خدمت میں ہے اور اس کا کردار مسلمانوں کے خلاف ہے، تو یہ عمل بیشک سنگین گناہ، اسلامی اخوت کی خیانت اور امت کے مفادات کے خلاف ہے۔
مگر جب تک وہ صریح طور پر اسلام یا اس کے کسی بنیادی عقیدے (توحید، رسالت، قرآن، آخرت) کا انکار نہ کرے، یا کسی کفریہ نظریہ کو قبول نہ کرے، اسے مرتد کہنا جائز نہیں۔
تکفیر (کسی کو کافر یا مرتد کہنا) کا دروازہ شرعاً بند ہے جب تک:
1. قطعی دلیل نہ ہو،
2. حجت تمام نہ ہو،
3. عذرِ جهل یا تاویل کا احتمال نہ رہے،
4. اہلِ علم اس پر فتویٰ نہ دیں۔
لہٰذا ایسی عورت گناہ گار، فاسقہ یا خائنة ہو سکتی ہے، مگر اسے مرتد کہنا تبھی جائز ہوگا جب وہ دینِ اسلام کا انکار کرے یا کسی کفریہ عقیدے کو قبول کرے۔
واللہ اعلم بالصواب
فضیلۃ الشیخ فیض الابرار شاہ حفظہ اللہ