سوال (1540)

ایک مسلمان لڑکا کسی عیسائی لڑکی کو بھگا کر لے جاتا ہے ، پہلے اس لڑکی کو مسلمان کرتا ہے ، پھر اس سے عدالت میں جاکر نکاح کر لیتا ہے ، تو شرعاً اس نکاح کی کیا حیثیت ہے ؟ جبکہ لڑکی کے گھر والوں کی رضا مندی بھی نہیں ہے ، والدین اس کو واپس اپنے گھر لانا چاہتے ہیں تو اب وہ مسلمان ہوگئی ہے تو اس لڑکی کو گھر واپس بھیجنا کیسا ہے ؟ تفصیلاً رہنمائی فرمائیں ؟

جواب

اگر لڑکی کے اولیاء میں سے کوئی مسلم ہے تو پھر عدالتی نکاح درست نہیں ہے ، لیکن اگر لڑکی کے تمام اولیاء غیر مسلم ہیں تو پھر عدالتی نکاح درست ہے۔

فضیلۃ الباحث داؤد اسماعیل حفظہ اللہ

میرا خیال ہے کہ اس میں یہ قید لگائی جائے کہ عدالت بھی مسلم ہو تو یہ زیادہ بہتر ہو جائے گا ، کیونکہ کافر کا ولی مسلم اور مسلم کا ولی کافر اس بحث کے تناظر میں یہ بات کہی گئی ہے ، اس لیے عدالت کا مسلم ہونا لازمی ہوگا ۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

جی بالکل قاضی کا مسلم ہونا تو ضروری ہے، اگر کسی غیر مسلم ملک میں ہے ، جہاں مسلم قاضی میسر نہیں تو پھر جو اسلامی تنظیمیں ہوتی ہیں ، ان کے تحت نکاح کیا جا سکتا ہے ۔ واللہ اعلم

فضیلۃ الباحث داؤد اسماعیل حفظہ اللہ

سائل : جی لڑکی کے تمام اولیاء غیر مسلم ہیں ، اب ایک سوال مزید ہے کہ ایسے تو یہ ایک رستہ کھل جائے گا جو چاہے گا کسی عیسائی لڑکی سے سیٹنگ کرے گا ، اسے بھگا کر لے جا کر عدالت میں نکاح کر لے گا ، اور اگر لڑکی واپس اپنے گھر جانا چاہتی ہے ، مسلمان ہوجانے کے بعد تو اسے بھیج دیا جائے گا ؟
جواب :
میرے خیال میں اس سیٹنگ میں برکت ہی برکت ہے ، کوئی پریشانی کی بات نہیں ہے ، دل کا معاملہ تو اللہ تعالیٰ جانتا ہے ، لیکن کوئی اسلام قبول کرلے اس سے بڑھ کر کیا ہے ، غالباً ام سلیم کے بارے میں آتا ہے کہ انہوں نے ابو طلحہ کو کہا تھا کہ مسلمان ہوجاؤ، پھر مدینے آجاؤ ، کوئی سیٹنگ کر لیتے ہیں ۔ اس میں کوئی قباحت نہیں ہوگی ، ہم یہ نہیں کہتے ہیں کہ نوجوان لڑکے اس طرف چلے جائیں ، لیکن شاذ و نادر ایسا واقعہ آجاتا ہے تو اس کو قبول کرنا چاہیے ، نکاح کے حوالے سے شیخ نے رہنمائی کی ہے ، باقی رہا بعد کا معاملہ وہ لڑکی یا لڑکے کا ہے ، اس میں اگر کوئی مسلمان مدد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو جزائے خیر عطاء فرمائے آمین ثم آمین یا رب العالمین۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ